میاں محمد نوازشریف ، وزیراعظم پاکستان نے کسانوں کے ساتھ خطاب کرتے ہوئے فلسفیانہ گفتگو سے آغاز کیا۔ انہوں نے کہا ''مجھے شہروں کی ہلچل اور اپنے ہی سایوں کے تعا قب میں دوڑتے ہوئے لوگوں سے دور آپ کے دیہات کی سادگی، آپ کے کھیتوں اور کھلیانوں کا کھلا کھلا ماحول اور مکئی کی روٹی اور ساگ کی خو شبوکہیں زیادہ پسند ہے۔‘‘ نجانے آج کل میاں صاحب لفظوں کا ایسا چنائو کیوں کر رہے ہیں جو ذومعنی ہیں! ان کا یہ کہنا ہے کہ '' اپنے ہی سایوں کی تعاقب میں دوڑتے لوگوں سے دور‘‘۔ کون اپنے ہی سایوں کے تعاقب میں دوڑ رہا ہے ،یہ تو مجھے سمجھ نہیں آر ہا،لیکن ایک بات سمجھ آر ہی ہے کہ میاں صاحب کو مکئی کی روٹی اورساگ کی خوشبو بہت پسند ہے ۔انہوں نے دیہات کی سادگی کا ذکر بھی کیا ہے ،کاش وہ ایک ہفتہ کسی گائوں میں جا کر رہیں تو ان کو احساس ہو کہ ترقی کے تمام تر دعووں کا کوئی ثمر یہاں کے رہنے والوں کو نہیں ملا ۔ان کی اکثریت آج بھی مٹی کے تیل کی لالٹین جلا کر گزارا کرتی ہے اور ان کے چولہے آج بھی کچی مٹی کے بنے ہوتے ہیں ،جس میں نمی سے بھری ہوئی درختوں کی چھوٹی ٹہنیاںجلانے والی خاتون کی آنکھوں سے پانی بہتا رہتا ہے ۔آج بھی ان کے کچے کمروں میں سردیوں کے موسم میں جانور اور انسان اکھٹے ہی رہتے ہیں ۔میاں صاحب اگر وہاں رہیں تو وہ دیکھیں گے کہ مرغ کی اذان کے ساتھ کسان اپنے دن کا آغاز کرتا ہے ۔وہ سخت گرمیوں میںاور سردیوںمیں اپنی فصل کی کاشت کے لئے مصروف رہتا ہے اور جب اس کی فصل تیار ہوجاتی ہے تو وہ کسی ایک پگڈنڈی پر بیٹھے حقہ پیتے ہوئے سوچتا ہے کہ کیا وہ اس سال اپنی بیٹی کو بیاہ سکے گا کیونکہ اس کی فصل اس کو اتنی قیمت نہ ادا کرسکے گی ،جتنی اسے اپنی بیٹی کے جہیز کے لئے چاہیے ۔اگر میاں صاحب کے وہاں رہنے کے دوران کوئی کسان محنت کش بیمار ہو جائے تو شہر کی ہلچل سے دور رہنے والے وزیراعظم کو اس بات کا بہت اچھی طرح ادراک ہو جائے گا کہ اس مرض کے لئے دوائی کا حصول اس کاشت کار کے لئے کتنا مشکل ہے ۔میاں صاحب! آپ کھیتوں اور کھلیانوں کے کھلے ماحول میں رہنا پسند کرتے ہیں تو آپ کو ان زمینی حقائق سے آگاہی حاصل کرنا بھی ضروری ہے ،جن کا سامنا ایک کسان شب وروز کرتا ہے ۔کسان اگر غلہ نہ اگائے ،اناج پیدا نہ کرے تو ایک ایسا قحط برپا ہو جائے گا جس پر کوئی حکومت قابو نہیں پاسکتی ،آپ کو اس بات کا احساس ہے کہ کسان کی محنت میں اس کے پسینے کی خوشبو بھی شامل ہوتی ہے ،لیکن میاں صاحب یہ کسان جس طرح کی مشکلات کا سامنا کر رہا ہے ، اس کا اظہار وہ اپنے جلسے اور جلوسوں میں کر چکا ہے ۔کیا یہ ضروری تھا کہ وہ سڑک پر ہی آتا تو آپ اس کی بات سنتے ؟کیا ریاست ماں جیسی نہیں ہوتی اور کیا ماں کا یہ فرض نہیں کہ اپنے ان بچوں کا بھی خیا ل کرے جو اس ملک کے ایسے محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ خدا نخواستہ اگر وہ اس میں ناکام ہو جائیں تو پورے کا پورا ریاستی ڈھانچہ منہدم ہوسکتا ہے ۔ان کسانوں کو جہاں موسمی تبدیلیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہاں مارکیٹ میں قیمتوں کے اتار چڑھائو کی بنا ء پر انہیں پورا معاوضہ بھی نہیں ملتا۔ آپ نے اس بات کا وعدہ کیا ہے کہ آپ آگے بڑھ کر کسانوں کا ہاتھ تھامتے ہوئے ان کی مشکلات کا حل نکالنے کی کوشش کریں گے تاکہ وہ زیادہ خلوص اور محنت کے ساتھ پاکستان کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں‘لیکن جناب وزیراعظم صاحب آپ نے جس پیکیج کا اعلان کیا اس کو کسانوں کی اکثریت نے دل سے قبول نہیں کیا ۔کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ سیاسی نوعیت کا ہے اورآپ کے نزدیک آنے والے بلدیاتی انتخابات اہمیت رکھتے ہیں ۔اس قسم کے پیکج دینے
سے آپ اپنی پارٹی کو جی ٹی روڈ سے آگے لے جاکر پاکستان کے دیہات تک پھیلانا چاہتے ہیں ۔جناب پرائم منسٹر آپ نے اپنی تقریر میں اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ آپ ہر صوبے میں جا کر اپنے کسان بھائی بہنوں کے سامنے پیش ہونا چاہتے ہیں ۔آپ ایسا کر لیتے تو بہت ہی اچھا ہوتا ۔اور آپ کو احساس ہوتا کہ آپ کے پیکج کی بہت ساری حقیقتیں عملی طور پر کسانوں تک پہنچ ہی نہیں سکتیں ۔آپ کو احساس ہوتا کہ آپ انڈسٹری کوسینکڑوں ارب روپے کی مالی امداد دے
رہے ہیں۔جبکہ کسانوں کے لیے موجودہ حکومتی پیکج کی مالیت صرف 134 ارب روپے ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ پاکستان میں فصلوں کی پیداوار کی لاگت باقی ممالک کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ اچھی ریسرچ نہ ہونے کی بنا پر اچھا بیج نہیں مل پاتا۔ کھاد کی قیمتیں سرمایہ داروں کے قابو میں ہیں‘جب چاہیں وہ بڑھا دیں‘ کسان ان کے رحم و کرم پر ہے۔ پوٹاشیم اور فاسفیٹ کی قیمت میں فی بوری کمی کرنے کا اعلان اچھا تو ہے لیکن اس پر عمل درآمد کرنے تک نجانے کسان کتنی مشکلات سے گز ر چکا ہوگا۔ اصولی طور پر زرعی اجنا س اور اس سے منسلک مشینری پر جنرل سیلز ٹیکس ختم کرنا چاہیے تھا۔ ماضی میں چاول کے کاشتکار کو فی ایکڑ پانچ ہزار دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔ لیکن اس پر عملد رآمد نہیں ہوسکا۔ پچھلے سال کا چاول اب بھی کسانوں کے پاس پڑا ہوا ہے۔ آنے والی فصل تیار ہے۔ کسانوں کے مطابق انہیں ہر ایکڑ پر 25-30 ہزار کا نقصان اٹھانا پڑے گا۔ ایسے میں 5 ہزار فی ایکڑ سبسڈی ان کی کیا مدد کرسکے گی۔ باسمتی کے بیج پر 15 سے 20 سال سے کوئی ریسرچ نہیں ہوئی جس کا فائدہ کسان کو ہو۔ اس سارے پیکیج میں مڈل مین کے استحصال سے بچانے کے لیے کوئی تدبیر نہیں کئی گئی۔میاں صاحب کیا یہ چھوٹے کسان کے ساتھ مذاق نہیں کہ اس کو مشورہ دیا جارہا ہے کہ وہ سولر ٹیوب ویل لگا لے ۔ کیا یہ مناسب نہ تھا کہ حکومت خود سولر ٹیوب ویل لگوا دیتی اور پھر 25 سال کی قسطوںمیں اس کی قیمت وصول کر لیتی۔ یہ وزیراعظم کا تحفہ بھی ہوتا اور کسانوں کو پانی حا صل کرنے میں جن مشکلات کا سامنا ہوتا ہے ان سے نجات مل جاتی۔
وفاق کی جانب سے ملک کے 65 فیصد رزعی شعبہ میں اصلاحات لانے کی ضرورت ہے اور بھارت سے یہ سیکھا جا سکتا ہے کہ کسانوں کو کس طریقے سے سبسڈی دی جائے کہ ان کی پیدا وار بھی بڑھے اور وہ خوشحال بھی ہو سکے۔ اب وقت آگیا ہے کہ چاول ، گندم، گنا اور کپاس کی سپور ٹ پرائس میں اضافہ کیا جائے تا کہ جو لوگ کم وسائل ہونے کی وجہ سے کاشتکاری چھوڑ کر شہروں کی طرف نقل مکانی کررہے ہیں وہ دوبارہ کاشتکاری کی طرف لوٹ سکیں۔ اس وقت پاکستان کی زراعت جی ڈی پی میں تقریباََ 26 فیصد حصہ ادا کررہی ہے۔ اس کی جتنی مدد بھی کی جائے وہ کم ہے اور وزیر اعظم کو فوری طور پر ایک مکمل زرعی پالیسی کا اعلان کرنا چاہیے اور کسی ایسے طریقہ کار کا تعین کیا جائے کہ زراعت کی inputs پر جتنی قیمت بڑھے اتنی ہی قیمت فصلوں کی سپورٹ پرائس کی شکل میں بڑھائی جائے ۔ فصلوں کی انشورنس کی بات ماضی میں بھی ہوتی رہی ہے لیکن عملی طور پر کچھ نہیں کیا گیا۔ زرعی قرضوں کے منافع کی شرح پر جس کمی کا اعلان کیا گیا ہے اس پر سٹیٹ بینک نے ابھی تک کسی واضح پالیسی کا اعلان نہیں کیا ہے۔ جنا ب وزیراعظم آپ چاہتے ہیںکہ پاکستان میں زراعت کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے تو اس کے لیے لازمی ہے کہ ایسا نظام وضع کیا جائے جس سے یہ تبدیلی ممکن ہو اور اس کے لیے آپ کو قانون سازی کی تیاری کر لینی چاہیے۔