داعش رہے گی یا انسانیت

شام کی صورت حال پرامریکی صدر بارک اوباما اور روسی صدر ولادیمر پیوٹن کے درمیان تبادلہ خیال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 70 ویں اجلاس کے دوران سائڈ لائن پر میٹنگ میں ہوا۔ اس ملاقات میں امریکہ اور روس کا الگ الگ موقف سامنے آیا۔ امریکہ خود کو انسانی حقوق کا چمپیئن سمجھتا ہے اور اسی وجہ سے ایک بار پھراس نے دنیا کو بچانے کا ٹھیکہ لیا ہے۔ بارک اوباما نے شام کے صدر بشارالاسد کو ایک جابر اور آمر حکمران ٹھہرایا جو بچوں پر بیرل بم گراتا ہے۔ امریکہ اور فرانس بشارالاسد کو اقتدار سے نکالنے پر بضد ہیں جبکہ روس کا موقف یہ ہے کہ وہ شامی صدر کی حمایت جاری رکھے گا، شامی باشندوں کے سوا کسی کو شام کی قیادت چننے کا حق حاصل نہیں۔ مصر، عراق اور لیبیا کو تباہی کے دہانے پر پہنچانے کے بعد اب امریکہ شام کے در پے ہے۔ 
شام میں خانہ جنگی کا آغاز2011 ء سے ہوا جس کے نتیجے میں اب تک لاکھوں تارکین وطن یورپ اور نزدیکی ملکوں میں ہجرت کر چکے ہیں۔ اگر ہم تاریخ کے ورق پلٹیں تو پتا چلتا ہے کہ ماضی قریب میں ہی امریکہ کی جانب سے عراق اور لیبیا کے حکمرانوں کے ساتھ بھی یہی ناروا سلوک روا رکھا گیا اور ان ممالک کے اندرونی معاملات میں غیر ضروری دخل اندازی کی گئی جس کے نتیجے میں ان ممالک کا انفراسٹرکچر تباہ ہوگیا۔ Weapons of Mass Destruction (WMD) یعنی وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کو بنیاد بنا کرامریکہ نے عراق کو تباہ کر دیا۔ جنرل کولن پاول کی وہ تقریر تاریخ کبھی نہیں بھلا پائے گی جو انہوں نے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں3 فروری 2003ء کو کی تھی۔ یہی تقریر بعد میں عراق کی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں عربی زبان میں ایک ریکارڈ شدہ بات چیت سنائی گئی جو عراقی فوجیوںکے درمیان اقوام متحدہ کی چھان بین کے حوالے سے تھی۔ کولن پاول نے اس کی تشریح (interpretation) کچھ ایسے کی:''اورہم نے آپ کو پیغام بھیجا ہے کہ کل سارے علاقے صاف کردواور اس بات کا یقین کرلو کہ وہاں کچھ بھی نہ ملے‘‘۔ بعد میں بوب وڈورڈزنے بعد میں کتاب ''پلان آف اٹیک‘‘ انکشاف کیا کہ یہ ایک من گھڑت ثبوت (fabricated evidence) تھا۔ جو تصویریں ثبوت کے طور پراقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں پیش کی گئیں وہ بھی مبہم تھیں، جس کا مطلب یہ تھا کہ تصویر دکھانے والا اپنے مفاد کی خاطر اپنے مطلب کے معنی اخذکروانا چاہتا ہے۔ ان ثبوتوں کو بنیاد بنا کرامریکہ کی جانب سے عراق پر دھاوا بول دیا گیا جس کے نتیجے میں غیر معمولی جانی و مالی نقصان ہوا۔ عراق میں کوئی کیمیائی ہتھیار نہیں ملے جن کو بنیاد بنا کر حملہ کیا گیا تھا۔
امریکہ کا یہ وتیرہ رہا ہے کہ اس نے جب کسی ملک پر حملہ کرنا ہوتا ہے تو وہ اسی طرح کے بیانات جاری کرتا ہے تاکہ حملے کی راہ ہموار ہوسکے۔ جنرل کولن پاول کی تقریرکے بعد اور عراق پر حملہ کرنے سے پہلے جارج ڈبلیو بش نے مارچ 2003 ء میں کروس ہال، وائٹ ہائوس سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ''امریکہ اور دوسری حکومتوں کی انٹیلی جنس کے مطابق اس میں کوئی شک کی گنجائش نہیںکہ عراقی حکومت کچھ خطرناک ترین ہتھیار چھپا ئے ہوئے ہے۔ عراقی حکومت پہلے ہی اپنے لوگوں اور ہمسایہ ممالک کے خلاف WMDاستعمال کرچکی ہے۔ خطرہ واضح ہے کہ ایک دن دہشت گرد عراق کی مدد سے اپنے مقاصد کے لیے کیمیائی، بائیولوجیکل یا نیوکلیر ہتھیاروںکا استعمال کر سکتے ہیں اور اس طرح ہزاروں یا سینکڑوں معصوم لوگوںکوہمارے ملک یا کسی اور ملک میں ہلاک کرسکتے ہیں‘‘۔
اسی طرح بارک اوباما نے لیبیا پر حملہ کرنے کے بعد 28 مارچ 2011ء کونیشنل ڈیفنس یونیورسٹی واشنگٹن ڈی سی میں خطاب کرتے ہوئے کہا: ''ایک جابر حکمران، معمر قدافی نے چالیس سال سے زائد عرصہ لیبیا کے لوگوںپر حکومت کی۔ اس نے لوگوں کی آزادی کے حق کو رد کیا، ان کا مالی استحصال کیا، مخالفین کو ملک اور بیرون ملک مارا اور بے گناہ لوگوںکو ڈرایا، جن میں وہ امریکی بھی شامل تھے جنہیں لیبیائی ایجنٹوں نے مارا۔ میں یہ بات واضح کر چکا ہوں کہ قدافی اپنے لوگوں کا اعتماد اور قیادت کرنے کا جواز کھو چکے ہیں، انہیں اقتدار چھوڑنا ہوگا۔ ان کے اقتدار نہ چھوڑنے تک لیبیا خطرناک رہے گا۔ حتّیٰ کہ اگر قدافی حکومت چھوڑ بھی دیتے ہیں توچالیس سالہ آمرانہ اقتدار نے لیبیا کو مضبوط سول اداروں سے محروم کردیا ہے‘‘۔ 
بعد ازاں بارک اوباما نے داعش کے خلاف 100 عالمی رہنمائوں کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے گزشتہ سال کہا تھا کہ شام میں داعش کو شکست دینے کے لیے نئے رہنما کی ضرورت ہے اور داعش کے خلاف کامیابی کے لیے بشارالاسد کو اقتدار چھوڑنا ہوگا۔
عراق میں مغربی مداخلت کے نتیجے میں آج داعش جیسی ایک طاقتور اور ظلم و بربریت کی علامت ٹھہرائی جانے والی تنظیم ابھری ہے جس کی تصدیق امریکی صدر بارک اوباما بھی اپنے وائس نیوزکو دیے گئے انٹرویو میں کرچکے ہیں کہ'' آئی ایس آئی ایس (دولت اسلامیہ عراق و شام یعنی داعش) القاعدہ کی براہ رست شاخ ہے جو عراق میں ہماری مداخلت کے بعد ابھری اور یہ غیر متوقع نتائج کی ایک مثال ہے۔ ہمیں گولی چلانے سے پہلے نشانہ باندھنا چاہیے‘‘۔ بظاہر تو اس کا تعلق اسلام کے اندرونی تضادات کو ٹھہرایا جا تا ہے لیکن حقیقت کچھ اور ہی ہے۔ عراق میں پیداہونے والے خلا کو پرُکرنے کے لیے اس تنظیم کو منظم کیا گیا۔
داعش عراق میں ایک چھوٹے باغی گروہ کے طور پر 2006ء میںاس وقت سامنے آئی جب اس نے امریکی فوجیوں کے خلاف اپنی مسلح کارروائیوںکا آغازکیا تھا۔ اس گروہ نے 2011 ء میں خانہ جنگی کے دوران شام کا رُخ کیا ۔ امریکہ اور اتحادی ممالک نے صدر بشارالاسد کے مقابلے میں باغی گروہوں کی مدد کی تاکہ فرقہ وارانہ فسادات سے بچائو اور جمہوریت کی بحالی کی آڑ میں شامی حکومت کو گرایا جاسکے، جیسے اس پہلے عراق اور لیبیا میں ہو چکا ہے۔ انہی باغی گروہوںمیں سے ایک داعش ہے۔ یہاں امریکی پالیسی کی شفٹ نظر آتی ہے۔ امریکہ سمیت بہت سے ممالک جن میں برطانیہ، 
سعودی عرب ، ترکی اور قطر شامل ہیں بشار الاسد کے مخالف گروپوںکو مالی اور جنگی امداد فراہم کر رہے ہیں۔ ایک سویڈش Gildo Bherlinکو شام میں انارکی پھیلانے کے جرم میں پکڑا گیا تو صورت اس وقت حال عجیب ہوگئی جب اس بات کا علم ہوا کہ برطانیہ کے خفیہ ادارے اس باشندے سے تعلق رکھنے والے باغی گروہ کی مدد کر رہے تھے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ اب Bherlin Gildo پرعائد چارجز ختم کردیے گئے ہیں۔ داعش کی فنڈنگ بھی کافی حد تک مشکوک ہے۔ Casey Research کی مارین کاٹوسا کے مطابق داعش کی فنڈنگ عراق اور شام میں موجود تیل کی بلیک مارکیٹ میں فروخت اور سمگلنگ سے ہو رہی ہے۔ تیل کی سمگلنگ سے باغی گروہ روزانہ 10 لاکھ ڈالرکما رہا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس گروہ کو جدید ترین اسلحہ اور کیمیکل اور بائیولوجیکل ہتھیار کس نے فراہم کیے؟ جدید ترین ٹیکنالوجی اور آلات کے ہوتے ہوئے اب تک ''سپرپاور‘‘ داعش جیسے جن کو بوتل میں کیوں قید نہیںکرسکی؟
اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ امریکہ کی خواہش ہے کہ دنیا میں جنگ جاری رہے تاکہ اسلحے کا کاروبار چلتا رہے۔ اسلحہ فروخت کرنے کے لیے انسانی حقوق کے دفاع کا اعلان کرنا اور اپنے مخالفین کو آمر قرار دے کر ان کو ہتھیاروں کے ذریعے ختم کرنا کافی عرصہ تک نہیں چل پائے گا۔ ولادیمر پیوٹن ایک نئی تاریخ رقم کرنے جا رہے ہیں۔ اب اہم سوال یہ ہے کہ کیا روس کامیاب ہو کرداعش کو ختم کرسکتا ہے یا داعش افغانستان ، پاکستان اور مشرق وسطیٰ میں کامیابی حاصل کر لے گی؟ اگر داعش کو شکست ہو جاتی ہے تو انسانیت بہت بڑی بربریت سے بچ سکتی ہے۔ آنے والے واقعات اس کا فیصلہ کریں گے کہ داعش رہے گی یا انسانیت!

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں