کراچی سے دلخراش خبر یہ ہے کہ ''سمندری پانی اور کثافت کی وجہ سے پاک بحریہ کے جہاز اپنی مطلوبہ عمر سے دس سال قبل ہی نا قابل استعمال ہوجاتے ہیں‘‘یہ خبر صرف انفارمیشن ہی نہیں ... کراچی کے ڈھائی کروڑعوام کیلئے خطرے کا سائرن ہے کہ...اے اہل کراچی!... تم اس شہر کے باسی ہو‘ جہاں لوہے اور پیتل کا بنا ہوا جہاز اپنی طبعی عمر سے دس سال قبل ''انتقال‘‘ کر جاتا ہے... توتمہارا کیا حال ہوگا... تم پر کیا گزرتی ہوگی... اگر بلدیہ کراچی کے پاس وسائل ہوتے تو وہ لوہے کے انسان بنوالیتی... لیکن کیا کریںیہاں تو لوہے کا یہ حال ہے تو ''ماٹی کے پتلے‘‘کا کیا ہوگا۔کراچی کے عوام اگر اس دکھ کو سمجھ بھی لیں ... تووہ شکوہ کس سے کریں... میرے سامنے 15 اپریل کے ایک قومی روزنامہ کا صفحہ اول رکھا ہوا ہے... جس میں پاک بحریہ کے کمانڈر کوسٹل لائن رئیرایڈمرل عارف حسین کا بیان دو کالمی سرخی کے ساتھ شائع ہوا ہے... سرخی کہتی ہے ''کراچی میں جہاز مقررہ زندگی سے 10سال قبل ہی ناکارہ ہوجاتے ہیں ‘‘۔
دوسری خبر روزنامہ ''دنیا‘‘ کراچی نے 15اپریل 2014ء کو شائع کی ہے... یہ خبر نمایاں کرنے کیلئے اخبار نے اس کے اطراف ''بکس‘‘ بھی بنایا ہے... خبر یہ ہے ''سول اسپتال کراچی کے بیت الخلاء میں بچے کی پیدائش۔ قطار میں کھڑے ہونے سے حالت بگڑ گئی۔ تحقیقات کرائیں گے‘ ایم ایس ‘‘...یہ خبرجس قدر ہولناک ہے... اس سے زیادہ اہلیان کراچی کی بے بسی کا نوحہ بھی بیان کرتی ہے...ملکی صنعت کا پہیہ چلانے والے... اور سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے والے شہر کے ساتھ... ایسا سلوک ''سوتیلی ماں‘‘ بھی نہیں کرسکتی... ایک طرف سندھ حکومت کے سول اسپتال کی یہ حالت زار ہے... دوسری طرف عباسی شہید اسپتال کے کئی شعبے ''پرائیوٹائیز‘‘ کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے... تاکہ کراچی کا غریب مزدور مفت سرکاری علاج کی سہولت سے محروم ہو کر ٹھیکیداروں کا '' ترنوالہ‘‘ بن جائے... بہت جلد آپ کراچی سے یہ خبر بھی پڑھیں گے کہ ''سندھ حکومت نے کراچی کے قبرستانوں کو پرائیوٹائیز کر دیا‘‘... اب قبر کے بھائو مُردوں کے سائز‘ لمبائی‘ چوڑائی اور وزن کے مطابق طے ہوں گے۔
لگتاہے جاگیرداروں کے چنگل میں پھنسے پاکستان کو اقتصادی ترقی اور صنعتی انقلاب سے آشنا کرنے والے کراچی کی''سزا‘‘ابھی ختم نہیںہوئی...جاگیرداروں نے اکثر دبے لفظوں میں کہا ہے کہ... کراچی ‘ لاہور‘ فیصل آباد اور حیدر آباد کے کارخانے داروں نے مزدوروں کو سر پر بٹھالیا ہے...وہ تنخواہ کے ساتھ ساتھ... میڈیکل... بونس... ویکلی آف اور دیگر مراعات دے کر ان کے دماغ خراب کررہے ہیں... جبکہ ہم (جاگیردار) کسان تو کسان اس کی پوری فیملی سے کام لیتے ہیں... کسان کی بیوی اور بچے بھی کسان کا مفت میں ہاتھ بٹاتے ہیں... کراچی چونکہ اس ''جرم‘‘ کا لیڈر ہے... اس لئے اس کو معافی ملنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے... حال ہی میں سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں یہ رپورٹ پیش کی گئی کہ ''کراچی کی پچپن ہزار (55,000) ایکڑ زمین پر وفاقی اداروں‘ صوبائی اداروں اور مافیا نے قبضہ کر رکھا ہے‘‘... یہ قوتیں چونکہ غیرقانونی ہیں... اس لئے نہ ان پر کوئی ٹیکس لگا سکتا ہے اور نہ انہیں خود بخود ٹیکس ادا کرنے کا کوئی ''شوق‘‘ ہے... یہ بھینس کے جسم پر چپکنے والی جونک ہیں...یہ لہلہاتی فصلوں کی زرخیزی کو چاٹ جانے والی ''امریکن سنڈیاں‘‘ ہیں... ملٹی نیشنل کمپنیاں ان کو مارنے کیلئے جدید ترین زرعی ادویات فروخت کرتی ہیں... لیکن کراچی کے جسم پر چپکی ہوئی '' جونک‘‘ اور ''امریکن سنڈی‘‘ کو مارنے والی دواشاید کسی کے پاس نہیں... مریض تڑپ رہا ہے اور کسی کو اس کی فکر نہیں۔
کاش!!! آج ایسا ہوجائے کہ... میر انیس اور میر دبیر دوبارہ پیدا ہوجائیں... اور کراچی کی بے بسی ... حکمرانوں کی بے حسی پر نوحہ لکھیں!... کاش! مسّدس حالی کے مصنف...کراچی کی بد حالی پر مسّدس لکھیں... لیکن عام خیال یہی ہے الطاف حسین حالی کراچی کے غم کی داستان سن کر شاعری ہی چھوڑ دیتے... کتنا عظیم تھا الطاف حسین حالی ...جس نے لکھا تھا ؎
غیروں سے کہا تم نے‘ غیروں سے سنا تم نے
کچھ ہم سے کہا ہوتا، کچھ ہم سے سنا ہوتا
الطاف حسین حالی صاحب!! ہم کس سے اپنا دکھ اور درد بیان کریں... کس سے جاکر شکوہ کریں ...اور وہ اس شہر کیلئے... جواب شکوہ لکھ کر دے... ہمارے تو دامن دل سے وہ الفاظ ہی لڑھک گئے ہیں...جس میں غم اور دکھ کے الائو روشن ہوتے ہیں اور وہ صاحب نظر کو جا کر فریاد سناتے ہیں۔
کراچی ...دنیا کے تمام اسلامی ممالک میں سب سے بڑا شہر ہے... ہم آسان زبان میںاسے دنیا کا سب سے بڑا اسلامی شہر کہہ سکتے ہیں... اللہ تعالیٰ نے اس شہر کو کس قدر عظیم المرتبت بنایا ہے... لیکن ہمارے بجٹ بنانے والے ''کاریگروں‘‘ اورپالیسی بنانے والے '' فنکاروں‘‘ کو اس شہر سے پیار ہے‘ نہ ہی اس کی اہمیت کا احساس... ایک طرف کراچی عالم اسلام کا سب سے بڑا ...دوسری طرف پاکستان کا سب سے مظلوم شہر ہے... کبھی کبھی تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ کراچی اور لاڑکانہ کا ترقیاتی بجٹ برابر ہوجاتا ہے... آبادی کا فرق اس حرکت کو مذاق قرار دے کر کونے میں کھڑا مسکرا رہا ہوتا ہے... اگر نواب شاہ کبھی ''آنکھ مار دے‘‘ تو کراچی کامنہ کھلا کا کھلا رہ جاتا ہے... اور آبادی کا فرق اس بار کبھی نوابشاہ اور کبھی کراچی کی طرف دیکھ کر یہ مصرعہ ضرور پڑھتا ہوگا ع
جا اپنی حسرتوں پر آنسو بہا کر سو جا
کراچی ایک توانا گائے کی طرح ہے... ہر ''پہلوان ادارہ ‘‘ اس کا دودھ پینا چاہتا ہے لیکن چارہ اور کھل دینا تو جیسے کوئی سنگین ''جرم‘‘ہو...پاکستان کے جو بڑے بڑے محکمے اور ادارے اس شہر سے اربوں روپے کے ٹیکس سمیٹتے ہیں ...ان کی سنگ دلی کا عالم تو دیکھئے... وہ کراچی کی خوبصورتی میں اضافے اور ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کیلئے ایک گملے کی شراکت پر آمادہ نہیں... اوراس'' تنگ دلی ‘‘میں وفاقی اور صوبائی محکمے کے عمل اور سوچ میں یکسانیت پائی جاتی ہے ...اور یہ سوچ ہی ہے کہ ...کراچی کو نظرانداز کرو... کراچی کا ترقیاتی بجٹ منظورہی نہ کرو... اگر اخباری خبروں کیلئے مجبوراً فنڈز کا اعلان کرنا پڑے تو جہاں موقع ملے اسے روک لو... کوئی بہانہ کر لو... اسی لئے کراچی کی ترقی چالیس سال سے جہاں تھی وہیں ''ساکت‘‘ ہے... سڑکیں‘ فٹ پاتھ‘ درخت اور دیواریں سب ٹوٹ رہی ہیں... نہ سندھ حکومت کو اس کی پروا ہے اور نہ ہی ''مغویہ بلدیہ‘‘ کراچی کو اس کی فکر... بلدیہ کراچی آج کل... سندھ حکومت کے ''پنجۂ تبادلہ جات‘‘ میں کلبلا رہی ہے... شہری بلدیات پر قبضہ کرنے کیلئے اسے ''فتح‘‘ کیا جا رہا ہے... اور شہر کا نظام '' دیہی کارندوں‘‘ کے حوالے کیا جارہاہے کہ... آئو !! اور موج اڑائو !... ہمارے حلقہ ہائے انتخاب میں''خوشحالی‘‘ آتی جائے!... بھلے عالم اسلام کا سب سے بڑا شہر لٹ جائے... تباہ ہوجائے۔
ایک طرف چپ سادھے اہلیان کراچی بلدیہ کراچی پر '' دیہی یلغار‘‘ کا تماشا دیکھ رہے ہیں ... دوسری طرف ماہانہ لاکھوں ٹن کارگو کراچی کی سڑکوں پر بھیجنے والا کے پی ٹی( کراچی پورٹ ٹرسٹ) اپنی آمدنی میں سے ایک روپیہ بھی بلدیہ کراچی کو دینے کیلئے تیار نہیں ہے ... کے پی ٹی'' ہاتھیوں کے لشکر ‘‘کی طرح ... کراچی کی سڑکوں کو تاراج کرنے والے کنٹینر سے دھاوا بولتی ہے... لیکن یہی کے پی ٹی نہ کراچی کی سڑکوں کی مرمت کراتی ہے ... نہ ہی شہر میں باغات کا کنٹرول سنبھالتی ہے...ممبئی کی ایم پی ٹی شہر کے دو سو باغات کی دیکھ بھال کرتی ہے... لیکن ہمیں اس سے کیا؟ وہ تو کافر ہیں... کیا ہم کافروں کی نقل کریں گے؟... اور ہاں ممبئی کی بندرگاہ چھ ماہ فعال رہتی ہے اور چھ ماہ ''آرام‘‘ کرتی ہے... جبکہ کے پی ٹی نے خود بلدیہ کراچی کو یقین دلا رکھا ہے کہ وہ ہر سال '' طے شدہ فنڈز‘‘ بلدیہ کراچی کو دے گی ...۔لیکن کراچی کا حصہ کوئی نہیں دیتا... کے پی ٹی بھی کراچی کا'' دودھ‘‘ تو پیتی ہے لیکن ''چارہ ‘‘ دینے کے وقت اس کا فنانس ڈیپارٹمنٹ... چھٹیوں پر چلاجاتا ہے... کے پی ٹی گوادر کی بندرگاہ کی تعمیر کیلئے 20ارب روپے دے سکتی ہے لیکن کراچی والوں کا جائز حصہ نہیں دے سکتی... کراچی والوں کو تو آج تک یہ بھی نہیں پتہ کہ اس کے نام میں'' ٹرسٹ‘‘ کا لفظ کس نے ڈالا تھا...۔ چلو! اس ادارے کے کرتوت دیکھ کراب تواس لفظ کو نکال ڈالو ۔
کراچی کی سڑکیں اور باغات بلدیہ کراچی بناتی ہے... لیکن موٹر وہیکل ٹیکس اور پراپرٹی ٹیکس...سندھ گورنمنٹ ہتھیا جاتی ہے... 25سے30سال قبل جب جماعت اسلامی کے ایک فقیر منش میئر کراچی عبدالستار افغانی نے موٹروہیکل ٹیکس اور پراپرٹی ٹیکس... بلدیہ کراچی کو دینے کا مطالبہ کیاتھا...تو بلدیہ کراچی کی کونسل کو توڑ دیا گیا اور میئر کراچی نے میئر شپ کے گائون کے ساتھ...یہ سوچتے ہوئے ...رات تھانے کے لاک اپ میں گذاری...کہ گاڑیاں کراچی کی سڑکوں پر...پراپرٹی کراچی میں... ٹیکس سندھ گورنمنٹ کی تجوری میں...اور مطالبہ کرنے والا لاک اپ میں... جبکہ آئین پاکستان نے یہ دونوں ٹیکس بلدیہ کو ادا کرنیکا حکم دے رکھا ہے... اپنی گفتگو کا خاتمہ جدید عہد کے فلاسفر خلیل جبران کے اس قول پر کرتا ہوں۔
''میرے دشمن نے مجھ سے کہا!
اپنے دشمن سے پیار کرو
میں نے اس کا کہا مانا
اور اپنے آپ سے پیار کرنے لگا!!‘‘