"ISC" (space) message & send to 7575

دبئی کی ترقی کا ’فارمولا‘ اور ’لاچار‘ کراچی۔۔۔!

دبئی اور کراچی میں تھوڑا سا فرق ہے۔۔۔کراچی بھی پورٹ کا مالک ہے تودبئی بھی۔۔۔کراچی گیٹ وے آف ایشیا ہے تو دبئی مشرقِ وسطیٰ کا''اقتصادی دارالخلافہ‘‘۔۔۔دبئی کودبئی کس نے بنایا، پہلے یہ جاننا بہت ضروری ہے۔
انقلابی سوچ رکھنے والی قیادت،اعلیٰ معیارکا بنیادی ڈھانچہ، سرمایہ لے کرآنے والوںکے لئے دوستانہ ماحول،ذاتی اور کاروباری منافع پر زیرو ٹیکس اور صرف 4 فیصد درآمدی ڈیوٹی۔۔۔ان تمام اقدامات کو یک جا کرلیں تو دبئی کی ترقی کا فارمولا مل جائے گا۔
دبئی ترقی یافتہ ہونے کے باوجود آج بھی تعمیرات کے اس مرحلے سے گزر رہا ہے جیسے کسی کپڑے کی سلائی کے بعد اس پر ''ڈبل سلائی‘‘کی جاتی ہے۔ دنیا بھر کے ماہر تعمیرات اور انجینئرز آئے روزکوئی نہ کوئی تخلیقی عمل ‘منصوبہ‘نقشہ تیار کرتے ہی دبئی کا رخ کرتے ہیںاورکچھ ہی عرصے کے بعد وہ شاہکار عمارت۔۔۔ شاہراہ۔۔۔ ہوٹل۔۔۔یافلائی اوور گنیزبک آف ورلڈ ریکارڈ سمیت دنیا بھرکی نگاہوں کا مرکز بن جاتا ہے۔
1833ء میں 'بنی پاس‘ قبیلے سے تعلق رکھنے والے تقریباً چھ سے سات سو افراد مکتوم خاندان کی سربراہی میں خلیج کنارے آباد ہوئے۔ یہ ایک قدرتی بندرگاہ تھی اور دیکھتے ہی دیکھتے دبئی ماہی گیری اور سمندری تجارت کا مرکز بن گیا۔ ساحل سمندر پر تین سو کے قریب دکانیں تھیں جن پر سیاحوں اور کاروباری لوگوں کا مسلسل ہجوم رہتا تھا۔1930ء میں دبئی کی آبادی صرف 20ہزار نفوس پر مشتمل تھی جن میں سے چوتھائی حصہ تارکین ِوطن کاتھا۔ دبئی کا پہلا منصوبہ اس کی بندرگاہ کو گہرا کرنے کا تھا جو مرحوم حاکم دبئی شیخ راشد بن سعید المکتوم نے بنایا۔ اس مہنگے اور دور اندیش منصوبے نے دبئی کو ''ری ایکسپورٹ‘‘ اشیاء کے مرکز کی حیثیت دلا دی۔ اور اسی پلاننگ نے ''جبل علی فری پورٹ‘‘کی بنیاد رکھی۔ دبئی کی اصل ترقی 1994ء سے شروع ہوئی جب تیل کی دریافت کے بعد شیخ راشد نے اس کی آمدنی کو بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے لئے استعمال کیا۔ ہمارے ملک میں بھی کراچی کی بندرگاہ سونا اگلتی ہے لیکن یہ آمدنی اسلام آباد جاکر''لکڑہضم ‘پتھرہضم‘‘جیسی صلاحیتیں رکھنے والوں کے ہتھے چڑھ جاتی ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ دنیا میں انسانی ہاتھوں سے بنائی گئی سب سے بڑی بندرگاہ جبل علی کے مقام پر ہے۔ دبئی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ 2000 ء میں یہاں سیاحوں کی تعداد 30 لاکھ تھی جو مقامی آبادی(ساڑھے آٹھ لاکھ) سے کئی گنا زیادہ تھی ۔
دبئی ایک ایسا شہر ہے جس کے قابل فخر ہوٹلوں ، اعلیٰ تعمیراتی صنعت ، دنیا کی بہترین مہمان نوازی اورتفریحات کا کوئی ثانی نہیں۔ جمیرہ کنارے واقع خوبصورت ''برج العرب‘‘ ہوٹل یہاں کا واحد سیون اسٹار ہوٹل ہے۔ دبئی کا ایئر پورٹ دنیا کے 10 بہترین ایئرپورٹس میں سے ایک ہے جہاں سالانہ ایک کروڑ 40 لاکھ مسافروں کی نقل و حرکت ہوتی ہے ۔ کراچی ایسا شہر ہے جو دبئی کا اب بھی نہ صرف مقابلہ کرسکتا ہے بلکہ اس سے زیادہ ترقی یافتہ ہوسکتا ہے ، لیکن اس مقصد کے لئے قائد اعظم کے فارمولے پر چلتے ہوئے اسے علیحدہ مضبوط اسٹیٹس دینا ہوگا، اس کو نیویارک کی طرح موقع دینا ہوگا، یہاں کا کنٹرول تاجروں اور صنعتکاروں کے ہاتھ میں ہو، لیکن یہاں طریقہ کار یہ ہے کہ چالیس پچاس خاندانوں کے ''حلوے مانڈے‘‘کے لئے انہیں اجازت دے دی گئی ہے کہ وہ پورے ملک کی صنعتی ترقی کے بریک پرپیر رکھ کر بھول جائیں۔ ان ''دیہی خدائوں‘‘ کوپورے ملک کا ''بٹن‘‘آن اور آف کرنے کی بھی کھلی چھٹی حاصل ہے۔ کسی سیانے نے خوشی کا فارمولا بتایا کہ'' دولت جمع کرنے سے انسان دکھی ہوتا ہے اور خرچ کرنے سے خوش‘‘۔۔۔ کراچی میں بھی دولت خرچ کرنے کی ضرورت ہے لیکن ایک شرط کے ساتھ اور وہ ہے ایمانداری اور مضبوط منصوبہ بندی۔
دبئی کو بھی اگر کسی پاکستانی سیاسی لیڈر کے حوالے کردیں تو نتیجہ سوئس بینک سے ملے گا۔۔۔ کراچی کی پلاننگ کا حال تو فیملی پلاننگ والوں سے بھی برا ہے۔۔۔ شہر ایسے بڑھتا چلا گیا کہ جنگلی پودے بھی شرما گئے ۔کراچی پرکوئی پیسہ لگانے کو تیار نہیں۔ دبئی میں امن وامان کا قیام ایسا ہے کہ انسان تو انسان‘ کوئی ''کوا‘‘ بھی کسی سے ''برگر‘‘ چھین کر اپنے پروں پر صحیح سلامت اڑنہیں سکتا۔ اس کے برعکس کراچی کے امن و امان کی صورت حال کی ذمہ داری بھی کوئی اپنے سر نہیں لیتا ۔۔۔وفاق اور سندھ کی حالت ایسی ہے جیسے کسی ''نعش ‘‘کے ملنے پر دو تھانوں کی ہوتی ہے۔۔۔ دونوں حدود کے تنازع کو ایسا بڑھاوا دیتے ہیں کہ لگتا ہے مرنے والا اپنی ''حدود‘‘ بھول کردنیا سے چلاگیا۔
کراچی ایک میٹروپولیٹن شہر ہے لیکن اس کو ایک گائوں کی طرح کنٹرول کیا جارہا ہے ۔۔۔ لگتا ہے کہ ہمارے حکمران گلوبل ولیج کے فارمولے پر آدھا عمل کررہے ہیں، یعنی انہیں گلوبل تو یاد نہیں لیکن ولیج وہ بھولے نہیں۔۔۔ شہر میں قانون ہے اور نہ تحفظ۔ جب یہ نہ ہوتو ترقی اور سرمایہ کاری صرف خواب میں ہی کی جاسکتی ہے۔
دبئی کل تک صحرا تھا، وہاں کے حاکموں نے پلاننگ سے اسے گلستان میں بدل ڈالا۔۔۔اور ہمارا وطن جو کہ گلستان تھاہمارے ''اپنے‘‘ حکمران نما جاگیرداروں نے اسے نظرانداز کرکے ریگستان میں تبدیل کر دیا۔۔۔ وہ خود توریت سے گلستان بننے والے دبئی کی تفریح کے لئے چلے جاتے ہیں لیکن قوم کو پانی، بجلی، امن وامان، تھانہ، کچہری اور دیگر مسائل کے اندر ہی ''تفریح‘‘ تلاش کرنے کا درس دیتے ہیں۔
دبئی کی سڑکوں پر لگے ہوئے 12ہزارکھجور کے درخت وہاں کے حکمرانوںکی ''دیہی دوستی‘‘کی زندہ تصویر ہیں۔۔۔ ان میں سے بعض درخت تو ہیلی کاپٹر کے ذریعے اٹھا کرسڑک کنارے لگائے گئے ہیں جبکہ ہمارے یہاں ہیلی کاپٹروزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ کی تفریح کے کام آتے ہیں۔ ہمارے درخت کاٹ کر لکڑی ایسے فروخت کی جاتی ہے جیسے درختوں کا کام پھل نہیں لکڑی دینا ہے ۔ دبئی کے حکمران اپناملک بنارہے ہیںاور ہمارے جاگیردارحکمران اپنے ملک کو نوچنے میں ایسے مصروف ہیںکہ گماں ہوتا ہے کہ کہیں وہ ترقی کے معنی بھی بھول تو نہیں گئے۔ اب تو کوئی جرم کرو، لوٹ مار کرو، قانون توڑو،کچھ بھی کرو۔۔۔۔ نہ کوئی پکڑنے والا ہے اور نہ کوئی روکنے والا۔ لگتا ہے جلد ہی نیب، محکمہ اینٹی کرپشن، ایف آئی اے کو بند کرنا پڑجائے گا۔ ہماری بدقسمتی تو یہ ہے کہ ریکارڈ بھی بناتے نہیں بن جاتے ہیں۔۔۔ لمبے ناخنوں کا ریکارڈ۔۔۔ لمبے بالوں کا ریکارڈ۔۔۔جسم پر میل جمنے کا ریکارڈ۔۔۔ غرض کہ سستی اور کاہلی کے سبب بننے والے بہت سے ریکارڈ ہمارے حصے میں آتے ہیں۔ چند ماہ قبل تو خادم اعلیٰ پنجاب نے اپنے دفتر کو ہی ریکارڈ روم بنارکھاتھا۔ہر ریکارڈ لاہور میں بن رہا تھااور آخر کارگلوبٹ کا ریکارڈ بھی لاہور میں ہی بنا جو پورے ملک اور بیرون ملک ذوق و شوق سے سنا گیا۔کراچی کے مقدر میں پورٹ ہے تو منصوبہ نہیں اور اسلام آباد میں منصوبہ ہے تو پورٹ نہیں۔کراچی میں جتنی سستی ''لیبر‘‘ ہے اس میں4 دبئی بنائے اور چلائے جاسکتے ہیں، لیکن کیا کریں کہ یہاں زرداری اور شریف فیملی تو ہیں لیکن مکتوم فیملی نہیں۔۔۔ پاکستان کو ''مال‘‘بنانے والے حکمرانوں کی نہیں‘ ملک بنانے والے حکمرانوں کی ضرورت ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں