مجید نظامی کی موت کی خبرہر لحاظ سے المناک تھی۔ رات گئے آنے والی اس خبر نے دل دہلا دیا۔ ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے لیکن مجید نظامی کی موت نے پاکستان کی صحافت کوسوگوار کردیا۔ مجید نظامی پاکستان میں صحافت کی سب سے بڑی ''روحانی قوت‘‘ تھے۔ وہ ایک ایماندار‘ نڈرشخص اور حق گو صحافت کے علمبردار تھے۔ مجھے فخر ہے کہ میں نے مجید نظامی کی ادارت میں ایک ادنیٰ کارکن کی حیثیت سے روزنامہ '' نوائے وقت‘‘ میں فرائض انجام دیئے ہیں۔ مجید نظامی ادارہ ''نوائے وقت‘‘ کے صرف سربراہ ہی نہیں تھے بلکہ کوالٹی کنٹرولراور جنرل منیجر کے بھولے بسرے کام بھی خوب نمٹاتے تھے۔ خبر پر نظر رکھنا اور سیاست کا'' پوسٹ مارٹم‘‘ کرنا ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ وہ مزاج کے سخت تھے لیکن دلیل کے ساتھ بات کرنے والے کارکن کے سامنے بالکل نرم تھے۔ ان کی دیوتائی شخصیت کا رعب و دبدبہ اتنا زیادہ تھا کہ اکثر کارکن اور دیگر ملاقاتی ان کے روبرو گنگ ہوجاتے تھے۔ اکثر ان کی بزم اور پیشی سے ''بے مراد‘‘ لوٹ کر آنے والے ''لاجواب ملاقاتی‘‘ بھی اپنی کوتاہی ان کے کھاتے میں ڈال دیتے تھے۔
مجید نظامی کی شخصیت ایک سورج کی مانند تھی۔ جیسے سورج کو مسلسل دیکھنا ممکن نہیں، مجید نظامی کی شخصیت کو مسلسل مرکوز نگاہ رکھنابھی ایسا ہی تھا۔ ان کا مطالعہ وسیع اور پاور کاریڈور (حکومتی راہداریوں) میں گردش کرنے والی خبریں ان کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑی رہتی تھیں۔ وہ ایک''جن‘‘ کی طرح کام کرتے ۔ بہت زیادہ سوچتے ‘ ہر چیز کا تجزیہ کرتے اورپھر اپنی ایک رائے قائم کرتے تھے ۔ٹوئیٹر تو آج آیا ہے ہم سب لوگ( یعنی نوائے وقت کے کارکن) اُس دور میں مجید نظامی کو فالو کرتے تھے۔ ''نوائے وقت ‘‘دراصل مجید نظامی کا ایک لمبا سایہ (LONG SHADOW )ہے۔ ان کی سوچ اور نظریات کا عکاس ہے۔ ''نوائے وقت ‘‘کی اخباری پالیسی کسی بھی کارکن کو سمجھائی نہیں جاتی تھی لیکن ہر کارکن اخبار پڑھ کر پالیسی بآسانی سمجھ جاتا ،گویا خبریں اور ایڈیٹوریل سے''ٹیوشن‘‘کا کام لیا جاتا تھا۔
جس مجید نظامی کو میں جانتا ہوں وہ بہت خوش گفتار اور ملنسار انسان تھے۔ جب CPNE (کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز) دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوگئی تو انہوں نے ثالث کا کردار ادا کیا اور اس قدر غیر جانبداری سے معاملات کو'' ٹھنڈا‘‘ کرنے لگے کہ آناً فاناً تقسیم کی دراڑیں شکستہ دیواروں کی طرح گرنے لگیں۔ مجید نظامی نے دونوں گروپوں کے ''سرکش اور جوشیلے‘‘لیڈروں کو باور کرایا کہ وہ غلط دلیل کے ساتھ لڑ رہے ہیں اور لڑائی کا یہ نقطہ نظر ٹھیک نہیں۔ دونوں گروپوں میں اتحاد کیلئے مشترکہ اجلاس بلانے کا اختیار راقم الحروف کوسونپا اور ساتھ ہی کسی ماہرطبیب کی طرح ایک ''اتحادی فارمولا‘‘ تیار کرکے دیا۔سی پی این ای ان کی بزرگانہ شفقت کے باعث آج متحدبھی ہے... اور طاقتور بھی۔!!
مجید نظامی کی فوجی آمروں سے ملاقاتوں اور ان میں کاٹ دار جملوں کے ذکر کے بغیر مضمون اس دریا کی مانند رہے گا جو سمندر سے جاکر نہ ملے اور اپنی حیثیت کھودے۔ جولائی 1977ء کا مہینہ تھا۔ ضیاء الحق نے اخباری ایڈیٹروں کی پریس کانفرنس بلائی تھی۔ مجید نظامی بھی کانفرنس روم میں داخل ہوئے اوردیکھا کہ ایڈیٹرحضرات دوسری صف میں بیٹھے ہوئے ہیں اوراگلی صف میں وردی والے براجمان ہیں۔ مجید نظامی نے جنرل ضیاء الحق سے پوچھا ''یہ ایڈیٹروں کی پریس کانفرنس ہے یا جنرلوں کی؟‘‘ جواب ملا ''ایڈیٹروں کی پریس کانفرنس ہے... ملکی حالات پر ان سے گفتگو کرنی ہے!!‘‘ اور پھر کیا تھا حکم ہوا'' ایڈیٹرحضرات اگلی صف میں آجائیں‘‘ یہ تھا نوزائیدہ حکمران کے آگے کلمہ حق کہنے کا اسٹارٹ!!
فیلڈ مارشل ایوب خان ملک کے سیاہ و سفید کے مالک تھے۔ انہوں نے مری میں ایڈیٹروں کی میٹنگ بلائی۔ اس میں کہنے لگے کہ مجھے پتہ ہے کہ صحافت کاروبار بھی ہے... مجیدنظامی وہاں موجود ایڈیٹروں میں اس وقت سب سے کم عمر ایڈیٹر تھے... اْن سے نہ رہا گیا اور پوچھا ''جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں‘‘ ایوب خان نے کہا کہ کہیے... نظامی صاحب نے کہا کہ'' صحافت کاروبار ہے تو آپ کا بیٹا کیپٹن گوہر ایوب خان فوج چھوڑ کر گندھارا انڈسٹریز چلا رہا ہے... اسے ایک اخبار بھی نکال دیں تاکہ آپ کو پتہ چلے کہ یہ کتنا منافع بخش کاروبار ہے‘‘۔ ایوب خان نے اس پر کہا کہ ''آپ بیٹھ جائیں... میرا اشارہ آپ کی طرف نہیں تھا‘‘۔ نظامی صاحب نے کہا کہ ''آئندہ اس کا نام لے کر مخاطب کریں جس کی طرف آپ کا اشارہ ہو۔ ''جنرلائز‘‘ مت کریں‘‘۔ ایک اور ڈکٹیٹر جنرل یحییٰ خان نے راولپنڈی میں ایڈیٹروں کی میٹنگ بلائی۔ میٹنگ ختم ہونے سے پہلے مولانا کوثر نیازی اٹھے اور یحییٰ خان سے کہا کہ'' کچھ ایڈیٹروں کے خلاف مقدمے ہیں وہ واپس لے لیں‘‘... جنرل یحییٰ خان نے کہا کہ'' ایڈیٹر معافی مانگ لیں میں چھوڑ دیتا ہوں‘‘۔ نظامی صاحب نہ رہ سکے اور یحییٰ خان سے پوچھ لیا کہ'' معافی کس بات کی مانگیں‘‘۔ یحییٰ خان نے کہا کہ پھر مقدمہ لڑیں۔ نظامی صاحب نے ترکی بہ ترکی کہا کہ'' کہاں مقدمہ لڑیں؟‘‘۔ یحییٰ خان نے کہا کہ ''مارشل لاء عدالت میں‘‘۔ مجیدنظامی نے پھرکہا ''مارشل لاء نہ لاء ہے اور نہ ہی عدالت ۔وہ قانون نہیں جانتا ‘‘اور پھر مجلس برخواست ہو گئی۔
مجید نظامی کہا کرتے تھے کہ جنرل ضیاء الحق کے ساتھ ان کی دوستی بھی تھی لڑائی بھی جاری رہتی تھی... نوائے وقت گروپ نے جنرل ضیاء الحق سے انٹرویو کا وقت مانگا۔ ضیاء الحق نے شرط رکھی کہ'' مجیدنظامی بھی آئیں‘‘۔ جب نظامی صاحب کو بتایا گیا تو وہ بھی انٹرویو کرنے والوں کے ساتھ چلے گئے۔ انٹرویو کرتے آدھا گھنٹہ گزر گیا تو ضیاء الحق نے نظامی صاحب سے پوچھا کہ آپ نے کوئی سوال نہیں پوچھا۔ نظامی صاحب نے کہا کہ'' یہ شرط نہیں تھی کہ میں سوال بھی پوچھوں گا... آپ نے میرے آنے کی شرط رکھی تھی‘‘۔ ضیاء الحق نے مسکرا کر کہا کہ'' نہیں آپ سوال پوچھیں‘‘ نظامی صاحب نے ضیاء الحق سے پنجابی میں پوچھا کہ ''تسی ساڈی جان کدوں چھڈو گے‘‘ (آپ ہماری جان کب چھوڑیںگے) اس پر ضیاء الحق بہت ناراض ہوئے اور کہا کہ میں آپ سے سوال کرنے کا نہ ہی کہتا تو اچھا تھا... پرویز مشرف نے ایڈیٹروں کی میٹنگ بلائی۔اس میں نظامی صاحب بھی شامل تھے۔
پرویز مشرف نے نظامی صاحب کی طرف اشارہ کیا اور کہا ''یہ جدہ والوں کے حق میں لکھ رہے ہیں ،اگر یہ لکھنا چھوڑ دیں تو آپ میں سے کوئی جدہ والوں کے حق میں نہیں لکھے گا‘‘۔ اس پر حاضرین خاموش رہے۔ نائن الیون کے بعد ایڈیٹرز کی میٹنگ میں پرویز مشرف نے ڈاکٹر مجید نظامی کو پورا ''پروٹوکول‘‘ دے کر بٹھایا لیکن ڈاکٹر مجید نظامی نے کوئی سوال نہ پوچھا تو پرویز مشرف نے کہا ''آپ اپنی رائے نہیں دے رہے۔‘‘ ڈاکٹر مجید نظامی نے منع کیا کہ رائے نہ لیں تو اچھا ہے مگر پرویز مشرف نے اصرار کیا تو ڈاکٹر مجید نظامی نے کہا ''جنرل صاحب! فوجی معنوں میں بات کر رہا ہوں۔ آپ نے ''بش‘‘ نہیں بلکہ ''پاول‘‘ کی ایک کال پر سرنڈر کر دیا‘‘۔ اس جواب پر مشرف گرمی کھانے لگے اور بولے ''آپ ہوتے تو کیا کرتے؟‘‘ ڈاکٹر مجید نظامی نے جواب دیا ''میں اپنا کام کر رہا ہوں، اگر آپ بھی اپنا کام کر رہے ہوتے تو یہ مشکل پیش نہ آتی‘‘۔ پرویز مشرف مزید تائومیں آگئے اور بولے ''نہیں فرض کیجئے آپ ہوتے تو کیا کرتے؟ ‘‘جواب دیا کہ ''میں ٹائم گین کرتا اور کہتا کہ اس وقت نہ اسمبلی ہے نہ کیبنٹ اور پھر کچھ دوست ممالک سے بھی مشورے کرنا ہوں گے۔ یعنی چین‘ سعودیہ‘ انڈونیشیا‘ ملائشیا سے مشورہ کروں گا۔ ‘‘
مجید نظامی پاکستان میں کسی بھی اخبار کے سب سے زیادہ دیر تک رہنے والے ایڈیٹر تھے۔ فروری 2012ء میں انہوں نے بطور ایڈیٹر گولڈن جوبلی منائی تھی...وہ 52سال تک اخبار کے ایڈیٹر رہے جو واقعی ایک ریکارڈ ہے۔صحافت کے بہی خواہوں کوچاہئے کہ وہ مجید نظامی کے تجربے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کی روایات کو اپنائیں تاکہ پاکستان کی صحافت مضبوط اور نظریہ پاکستان کوفروغ حاصل ہو۔