"ISC" (space) message & send to 7575

کراچی کے بغیر ۔۔۔۔۔۔ انقلاب اور آزادی مارچ؟؟

کراچی پاکستان کی سیاست میں ایک ''آتش فشاں‘‘ کا درجہ رکھتا ہے لیکن گزشتہ 30 سال سے یہ '' آتش فشاں‘‘ نہ صرف خاموش ہے بلکہ مزے کی نیند سورہا ہے۔ کراچی کبھی جمہوریت کے لئے مر مٹنے والا اور شہری آزادی سے محبت کرنے والا شہر تھا۔ ایوب خان ہو یا بھٹو‘ کراچی ایک جنون میں مبتلا نظر آیا۔ پھر کاروانِ جمہوریت بکھر گیا۔ سڑکوں کی سیاست ختم ہوگئی۔ تحریک چلانے کا جذبہ دم توڑ گیا اور محلاتی سازشوں نے اس کی جگہ لے لی۔ پہلے وزیر منتخب ہوتے تھے پھر وہ دوربھی آگیا جب وزرا ء ملازمت پررکھے جانے لگے اور بقول میر ؎
وہ آئے بزم میں‘ اتنا تو میر نے دیکھا
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
انقلاب کیا ہے ؟کیوں آتا ہے؟کیسے آتا ہے ؟کب آتا ہے؟یہ وہ سوالات ہیں جو پوری دنیا کے اربوں لوگوں کے اذہان کا سفر کرتے ہوئے اس وقت پاکستان کے دروازے پر دستک دے رہے ہیں لیکن یہ کونسی ''نسل‘‘کا انقلاب ہے۔ ''ماہرین‘‘ اندازے لگانے میں ایسے مصروف ہیں جیسے کراچی میں بجلی اور پانی کی تلاش کا فارمولا ڈھونڈا جارہا ہو۔۔۔۔۔ ارسطو نے دو قسم کے سیاسی انقلاب کو بیان کیا ہے۔ ایک آئین سے دوسرے آئین میں مکمل تبدیلی اور دوسری موجودہ آئین میں ترمیم۔پاکستان میں طاہر القادری اور عمران خان بھی بالترتیب انقلاب اورآزادی کے خواہشمند ہیں۔ اب ایک بار پھر تحریک کی بات چلی ہے۔ انقلاب کا نعرہ لگا ہے۔ آزادی کی بات ہورہی ہے۔ عمران خان آمریت اور بادشاہت کے دیو کو قابو کرنا چاہتے ہیں اور کبھی کبھی ملک گیر احتجاج کا ذکر بھی آجاتا ہے۔ ملک گیر تحریک اسی وقت کامیاب ہوتی ہے‘ جب اس میں ملک گیر سیاسی قوتیں شامل ہوں تاکہ قومی سیاسی جماعت نہ ہونے کی کمی کو پورا کیا جاسکے۔ ابھی تک جو سیاسی جماعتیں میدان میں نظر آرہی ہیں‘ ان کی طاقت پورے ملک میں یکساں نہیں ہے۔ اس تحریک میں کراچی کی چھوٹی بڑی سیاسی قوتوں میں سے کوئی بھی شامل نہیں ہوئی۔ کراچی کی سب سے بڑی سیاسی اور پارلیمانی قوت ایم کیو ایم ہے۔ جماعت اسلامی بھی کراچی میں طاقت رکھتی ہے۔ اس کے پاس کچھ کچھ اسٹریٹ پاور ضرور ہے لیکن پارلیمانی طاقت میں اس کا کردار موثر نہیں ہے۔ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے وزیر اعظم کواستعفیٰ کا ایسا ''مشورہ‘‘ دیا کہ بیان کی آخری لائن اخبارات کی ہیڈلائن کی صورت میں نظر آئی۔ میاں صاحب اب تک اس شش و پنج میں ہیں کہ یہ''مشورہ‘‘ خوددیا گیایا دلوایا گیاہے۔ سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ الطاف حسین نے ابھی تک واضح طور پر نہیں بتایا کہ عمران خان ‘ طاہر القادری اور چوہدری شجاعت کی جانب سے وفاق کے ''قلعہ‘‘ پر حملے کے موقع پر ایم کیو ایم کا کردار کیا ہوگا کیونکہ لگتا ہے کہ 14 اگست کا معرکہ''ٹی ٹوینٹی‘‘ نہیں ہوگا۔ یہ لڑائی ''ٹیسٹ میچ‘‘کی صورت اختیارکر سکتی ہے۔ آزادی مارچ میں دھرنے کے علاوہ جلسے‘ جلوس اور ہڑتالوں کی بھی ضرورت پڑے گی اور ان امور کی ''ماہر اعظم‘‘ ایم کیو ایم ہے۔ ایم کیو ایم اپنی اس طاقت کے ذریعہ حکومتوں کو جھکنے پر مجبور کرنے کا فن جانتی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایم کیو ایم سے ڈیل کرنا اور اپنا شریک سفر بنانا آسان نہیں ہے۔ ایم کیو ایم کسی بھی مرحلے پر ساتھ دینے اور ساتھ چلنے سے پہلے اپنے مطالبات کی بات کرتی ہے کیونکہ اسے کسی نہ کسی طرح اپنے ووٹروں کو بھی مطمئن کرنا ہوتا ہے۔ اب تین رہنمائوں کی قیادت کے لئے موقع ہے کہ وہ سندھ کی وزارت اعلیٰ کراچی کو دینے کا وعدہ کرکے ایم کیو ایم کو اپنے ساتھ سفر میں شامل کرسکتی ہے۔ 
کراچی تحریک چلانے کے لئے فطری شہر ہے۔ کراچی کے بعد یہ خوبی لاہور میں بھی ہے۔ ان دونوں شہروں میں کاروبار اور صنعت بند کرکے حکومت کو معاشی طور پر لاچار کیا جاسکتا ہے۔ 1977ء میں کراچی کے بہادروں کو روکنے کے لئے بھٹو صاحب کو برنس روڈ کی سڑکوں پر ٹینک لانے پڑے تھے۔ ایک رسی باندھ کر کہا گیا ''اس کو کراس کرنے والوں کو گولی مار دی جائے گی ‘‘لیکن کراچی کے احتجاج کرنے والوں نے کلمہ طیبہ پڑھا اور پھر کیا تھا سرخ لکیر عبور ہوچکی تھی۔ جب پی این اے نے پہیہ جام ہڑتال کا اعلان کیاتو اہلیان کراچی ٹرین کی پٹڑی پر لیٹ گئے تھے اور انجن کا ڈرائیور ہارن بجا بجا کر تھک گیا اوربالآخر ٹرین رک گئی لیکن جمہوریت آگئی اور ایسی بھوک اپنے ساتھ لائی کہ آج ٹرین سروس بھی ان مظاہرین کی طرح بالکل لیٹ گئی ہے۔ بے رحمانہ لوٹ مار کو جمہوریت کے ''فیوض و برکات‘‘ کہا جارہا ہے۔ کراچی میں اگر بھرپور احتجاج ہوا تو حکومت کو جھکنے اور گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔ کراچی کی ہڑتال قومی خزانے پر ''کاری ضرب‘‘کی صورت میں پڑتی ہے اور حکومت تقریروں‘پریس کانفرنسوں‘ وعدوں‘ دعووں‘ بھاشن اور بیانات سے جو بات سمجھ نہیںپاتی ہڑتال کی زبان میں باآسانی سمجھ آجاتی ہے۔ کراچی کی پہیہ جام ہڑتال حکومت کا ''پہیہ جام‘‘ کردیتی ہے‘ لیکن یہ کیسا انقلاب ہے جو ڈھائی کروڑکی آبادی کے شہر کراچی کوشامل کئے بغیر آسکتا ہے؟ کراچی کے بغیر انقلاب اور آزادی مارچ کی حیثیت اس'' کنوارے‘‘ جیسی ہوگی جو بچے کی خواہش بھی رکھتا ہو اور شادی سے بھی دور بھاگے۔ کراچی کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہاں دنیا بھر کا میڈیا موجود ہے۔ کراچی کی خبرکی گونج پوری دنیا میںسنائی دیتی ہے اور حکومت دنیا بھر میں وضاحتیں کرتی پھرتی ہے۔ اس طرح ''جعلی جمہوریت‘‘ کاپول کھل جاتا ہے۔
کراچی والے حیران و پریشان ہیں کہ ملک میں انقلاب آرہا ہے اور انہیں پتہ ہی نہیں۔ یہ ایسا ہی ہے کہ رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس کراچی میں ہو‘ علمائے کرام دوربین سے نظارہ یہاں کرتے رہیں۔ اب پرابلم ایک ہی ہے کہ ایم کیو ایم کو راضی کون کرے گا ؟ عمران خان اپنے جذباتی لب و لہجے کی وجہ سے ایم کیو ایم سے باآسانی معاملات طے نہیں کرسکتے لیکن چوہدری شجاعت ٹھنڈے مزاج کی وجہ سے ایم کیو ایم سے کامیاب مذاکرات کرسکتے ہیں۔ 14 اگست کی آزادی کی تحریک ایم کیوایم کی شمولیت کے بغیر نامکمل رہ جائے گی۔ اگر کامیابی اسٹریٹ پاور کے ذریعہ حاصل کرنی ہے تو اسٹریٹ پاور رکھنے والی سیاسی قوتوںکو بھی اپنی طرف راغب کرنا پڑے گا۔
خیبر پختونخوا کے ایک مرد آہن خان عبدالقیوم خان نے بھٹو سے وزارت داخلہ لے کر بھٹو کی حمایت کا اعلان کیا تھا تو اخبار نویسوں نے ان سے پوچھا کہ ''آپ ایک وزارت لے کر بِک گئے؟‘‘ تو جواباً خان عبدالقیوم خان نے بڑا دانشمندانہ جواب دیا کہ ''سیاستدان جب الیکشن لڑتا ہے تو اپنے ووٹروں اور سپورٹروں سے وعدے کرتا ہے اور ان وعدوں کی تکمیل کے لیے اسے حکومت میں آنا ہوتا ہے‘ ورنہ اس کی سیاست برف کی طرح پگھلنا شروع ہوجاتی ہے۔ اپوزیشن میں ہمیشہ بیٹھ کر سیاستدان کوئی خدمت نہیں کرسکتا بلکہ وہ اپنے حامیوں اور کارکنوں کو صرف جیل بھجوا سکتا ہے !!! میں اپنے حامیوں کو جیل بھجوانا نہیں چاہتا اس لئے میں وزارت میں چلا گیا‘‘۔ خان عبدالقیوم خان کے دانش مندانہ خیالات خاندانی جمہوریت کے ذریعہ خود کو اکیلا کرنے والوں کے لئے روشنی کا مینارہ ہیں۔ کاش! کوئی اس راز کو سمجھ لے اور پاکستان کو سیاسی سکون نصیب ہو۔ 
عمران خان اور طاہر القادری نے نواز شریف کی وزارت عظمیٰ کی کرسی کے دو ''پائے‘‘تو پکڑلئے ہیں۔ تیسرا ''پایا‘‘ متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کے ''مشورے ‘‘کی لپیٹ میں آگیا ہے اور اب چوتھا اور آخری ''پایا ‘‘کون ہلاتا ہے‘ اس بارے میں کچھ نقادوں کا کہنا ہے کہ ''نواز شریف خود اپنی ذات میں اپوزیشن بھی ہیں‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہے انہیں کسی اور کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں