دنیا بھر میں 15ستمبر کو جمہوریت کا عالمی دن منایا گیا... پاکستان میں بھی ''جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی مقبوضہ‘‘ جمہوریت کے حق میں دھواں دار تقاریر ہوئیں اور عوام کے حقوق کیلئے بھاشن ''داغے ‘‘گئے۔ ہر سیاستدان خود کو جمہور کا ''غلام‘‘ کہتا رہا لیکن اسی روز اسلام آباد میں دھرنے کے شرکاء کو جیل سے رہا نہ کرنے کا یہ عذر پیش کیا گیا کہ ''دفتری اوقات ختم ہوگئے تھے‘‘۔ پاکستان کے سنجیدہ حلقے حیران ہیں کہ جمہوریت کے عالمی دن کے موقع پر سیاسی کارکنوں کو جیلوں میں رکھنا ایک ''جمہوری حکومت‘‘ کی جانب سے پوری دنیا کی جمہوری حکومتوں کیلئے ایک پیغام تھا کہ ''یہ ہے جمہوری پاکستان‘‘۔
دنیا کے چندبہترین جمہوری ممالک پر نگاہ ڈالیں تو پاکستان کی جمہوریت اس بچے کی مانند نظر آتی ہے جس نے پینٹ کے اوپر قمیض پہنی ہو۔ برطانیہ کی جمہوریت پوری دنیا کیلئے ایک مثال ہے۔ برطانیہ کی پارلیمانی حکومت کی دنیا بھر میں تقلید کی گئی۔ برطانیہ کے دو ایوان ہیں۔ ایک منتخب ہاؤس آف کامَنز (عام آدمی کیلئے ایوانِ زیریں) اور مقررہ ہاؤس آف لارڈز (ارب پتیوں کیلئے ایوانِ بالا)۔ برطانوی حکومت کے سربراہ وزیرِ اعظم کا عہدہ وہ رکنِ پارلیمان رکھتا ہے جو ہاؤس آف کامنز میں اکثریت کی رائے حاصل کر سکتا ہے۔ عام طور پر اس ایوان میں سب سے بڑی سیاسی جماعت کا سربراہ وزیرِ اعظم اورکابینہ چنتا ہے۔ کابینہ عام طور پر دونوں ایوانوں میں سے وزیرِ اعظم کے جماعت کے ارکان سے چنی جاتی ہے اور زیادہ تر حصہ ہاؤس آف کامنز سے ہوتا ہے۔ ہاؤس آف کامنز کے انتخابات کے لیے برطانیہ 650 حلقوں میں تقسیم کیا جاتا ہے اور اس طرح عوام کی جڑوں سے ''جمہوری رس‘‘نچوڑ کر ایوان میں بھیجا جاتا ہے۔
فرانس ایک متحدہ‘ نیم صدارتی جمہوری ریاست ہے۔ فرانس کی بنیاد اس کا آئین اور شہری کے حقوق کا اعلان ہے۔ فرانس ایک ترقی یافتہ ملک ہے اور دنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت ہے۔ فرانس یورپی یونین کے بانی ارکان میں سے ہے اور رقبے کے لحاظ سے اس کا سب سے بڑا رکن ہے۔ فرانس نیٹو کے بانی ارکان میں سے بھی ہے۔ فرانس اقوام متحدہ کے بانی ارکان میں سے بھی ہے اور سکیورٹی کونسل کا مستقل رکن بھی۔ فرانس دنیا کی سات ایٹمی طاقتوں میں سے ایک ہے اور وہاں کی جمہوریت ایک حسین تصویرکی طرح ہے‘ جسے دیکھتے ہی پورا نظام نظر آجاتا ہے۔
امریکہ نے برطانوی بادشاہت سے بغاوت کے بعد ملک کی بنیاد جمہوریت پر رکھی؛ تاہم ووٹ کا حق صرف زمیندار مردوں کو دیا گیا۔ آئین میں ترامیم کے ذریعہ عوام کو بنیادی حقوق دئیے گئے۔ اس کے بعد 1920ء میں خواتین کو بھی ووٹ کا حق دے دیا گیا اور پھر 1950ء کی دہائی میں حقوق کی تحریک کے بعد کالوں کو بھی ووٹ کا حق مل گیااور پھر 2008ء میں ایک کالا امریکی صدر باراک حسین اوباما منتخب ہوا۔ امریکہ دنیا کی سب سے زیادہ عرصہ تک قائم رہنے والی آئینی جمہوریہ ہے جس کا آئین دنیا کا سب سے پرانا اور مکمل طور پر تحریری ہے۔ اس کی حکومت کا انحصار کانگریسی نظام کے تحت نمائندہ جمہوریت پر ہے جو آئین کے تحت اختیارات کی حامل ہوتی ہے؛تاہم یہ کوئی عام نمائندہ جمہوریت نہیں ہے بلکہ اس میں اکثریت کو اقلیت کے حقوق کے لئے آئینی طور پر پابند کیا گیا ہے۔ امریکی حکومت تین سطحی ہے: وفاقی‘ ریاستی اور مقامی۔ ان تینوںمیں اراکین کا انتخاب یا تو رائے دہندگان کے خفیہ ووٹ یا پھر دوسرے منتخب اراکین کی طرف سے نامزدگی کی مدد سے ہوتا ہے‘ یہاں تک کہ کچھ امریکی ریاستوں میں عدلیہ کی نشستیں بھی عام انتخابات سے پُر کی جاتی ہیں۔ وفاقی حکومت تین شاخوں سے مل کر بنتی ہے جن کی تشکیل ایک دوسرے کے اختیارات پر''کڑی نگرانی‘‘کی خاطر کی گئی ہے۔ امریکی کانگریس دو ایوانوں پر مشتمل مقننہ ہے۔
ایوانِ نمائندگان( ہاؤس آف رپریزنٹیٹوز) کے ارکان کی تعداد 435 ہے۔ ہررکن ایک ضلع کی نمائندگی دو سال کے لئے کرتا ہے۔ ہر ریاست کو اس کی آبادی کی شرح سے سیٹوں کی تعداد ملتی ہے۔ آبادی کا تعین ہر دس سال بعد ازسرِ نو کیا جاتا ہے۔ مقننہ کا دارومدار کانگریس پر ہے جو سینٹ اور ہاؤس آف ریپریزنٹیٹوز سے مل کر بنتی ہے اور یہ وفاقی قوانین بناتی ہے‘ اعلان جنگ کرتی ہے‘ معاہدوں کی منظوری دیتی ہے اوراسے مواخذے کا اختیار بھی ہے۔ امریکی صدر سینٹ کی رضامندی کے ساتھ کابینہ اور دیگر افسران کی نامزدگی کرتا ہے‘ وفاقی قوانین کی دیکھ بھال اور ان کی بالادستی قائم کرتا ہے‘ بلوں کو مسترد کرسکتا ہے اور فوج کا کمانڈر ان چیف بھی ہوتا ہے۔
بھارت میں جمہوریت پاکستان کے ساتھ ہی شروع ہوئی لیکن ہم 1956ء میں پہلا ‘1962ء میں دوسرا اور1973ء میں تیسرا آئین بنانے میں کامیاب ہوئے‘ چونکہ 1973ء کا آئین بڑی محنت اور مشکل سے بنا تھا‘ اس لئے اسے بچانے کے لیے آج بھی (زبانی طور پر)جان دینے سے گریز نہیں کیاجاتا لیکن ترامیم ایسی کی جاتی ہیں کہ ایک وزیر اعظم ''امیرالمومنین‘‘بنتے بنتے رہ گئے۔ بھارت نے ایک آئین بنایا لیکن اس کے ساتھ ہی جمہوریت کے فروغ کے لیے جاگیردارانہ اور وڈیرانہ سسٹم کا خاتمہ کردیا اور آج بھارت کی جمہوریت ایسی ہے کہ آپ کہیں بھی اس کی مثال دے سکتے ہیں۔ بھارت کی راجیہ سبھا(قومی اسمبلی)کے ارکان سائیکل پر بھی آتے ہیں لیکن پاکستان کی قومی اسمبلی کے معمولی ملازم بھی چمکتی دمکتی موٹرسائیکل اور کاروں کا استعمال کرتے ہیں۔
جمہوریت صنعتی معاشرے کو چلانے کا نظام ہے‘ وہ صنعتی معاشرہ جس میں روزگار کی آزادی ہو۔ پاکستان میں کوئی ایسا بہادر ہاری پیدا نہیں ہوا جو کسی جاگیر دار‘ وڈیرے‘ سردار‘ پیر ‘ مخدوم ‘ چوہدری اورخان کی زمین سے کام چھوڑ کر چلا جائے۔ پاکستان کے 7 کروڑ ہاری ''دیہی خدائوں‘‘ کے پیدائشی غلام ہیں۔ بر طانیہ موجودہ جدیدجمہوریت کا بانی ہے۔ وہاں پر جمہوریت اس لئے پھلی پھولی کہ اس نے صنعتی معاشرے کو حکومت میں تبدیل کرنے کا نظریہ پیش کیا اور صنعتی معاشرے کے ٹیکس اور منافع کو عوام تک ضرورت کے مطابق پہنچانے کا طریقہ کا روضع کیا ۔
پاکستان میںجمہوریت برطانیہ سے '' اسمگل‘‘ کی گئی۔ ہمیں برطانوی جمہوریت کی جو چیز پسند آئی ہم نے نافذ کرنے میں دیر نہیں لگائی‘ لیکن آئین کے آرٹیکل 62اور 63کے نفاذ میںہم نے وہ ''ڈھٹائی‘‘دکھائی کہ اس کی ایک بھی شق پر عملدرآمد ہوجائے تو تین چوتھائی پارلیمنٹ گھر بیٹھ جائے۔ ہمیں تو آرٹیکل 6بھی صرف ایک ہی وقت یاد آتا ہے جب پرویز مشرف کوراستے سے ہٹانا ''مقصود‘‘ہو ورنہ آج تک آرٹیکل 6کسی پر نہیں لگایا گیا۔
برطانیہ‘ جہاں سے جمہوریت آئی وہاں ایوان دو حصوں(ہائوس آف لارڈز اور ہائوس آف کامنز) میں جبکہ پاکستان میں ہائوس تین حصوں میں تقسیم ہے۔ یہاں قومی اسمبلی‘سینٹ اور صوبائی اسمبلی ہیںاور یہ تینوں حصے ہائوس آف لارڈ زہیں اور ان تینوں میں ''لارڈز‘‘ بیٹھے ہوئے۔ کسی کو شک ہے تو وہ تینوں ہائوسز کی پارکنگ لاٹ میں کھڑی پجارو اور چمچماتی گاڑیاں دیکھ لے جس کی وجہ سے پارکنگ لارڈ کی ''رونق‘‘روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔
ہم جمہوریت کی نقل کرنے میں بھی پیچھے رہ گئے۔ جہاں روزگار کی آزادی نہ ہو‘ وہاں ووٹ کی آزادی کیا ہوگی؟ جو اہر لعل نہرو نے ہندوستان میں جمہوریت کی بنیاد رکھنے اور آئین سازی کے لیے جاگیر دارانہ نظام کو ختم کرنے کا اعلان کیا اور ہم نے 1970ء کے انتخابات میں جاگیرداروں کو منتخب کرکے نوٹ چھاپنے کی ''مشین ‘‘بنایا۔ کروڑپتی لوگوں کو ارب پتی بننے کے راستے دکھائے۔ پاکستان میںجمہوریت کا مطلب لوٹ مارسمجھا جاتا ہے۔ سندھ میں ایک وزیر کا بڑا مشہور قصہ ہے۔ اس سے پوچھا گیا کہ ''تم ہر کام کے لیے پیسے کیوں مانگتے ہو‘‘ اس نے گرجتے‘ برستے کہا ''مجھے عوام نے 5 سال کا مینڈیٹ دیا ہے‘‘یعنی وہ جو جی میں آئے کرے اسے پوچھا نہیں جاسکتا۔ جب روزگار کی آزادی نہیں ہوگی توووٹ کی آزادی تو دور‘ نام کی جمہوریت بھی نافذ نہیں ہوسکتی۔ چاہے سندھ ہو یا پنجاب کوئی ووٹر یہ کہہ کر دکھائے کہ ''میں اپنی مرضی سے ووٹ دوں گا‘‘ اسے اس جرم کی ایسی سزا دی جائے گی کہ وہ پوری زندگی جمہوریت کے نام سے بھی کانپتا رہے گا۔
پاکستان میں ایک جج 20سال تک کسی مقدمے کا فیصلہ نہ کرے تو اس سے باز پرس نہیں کی جاسکتی اور آئین بھی انصاف کی فراہمی کے طریقہ کار پر خاموش نظر آتا ہے۔ ہمارے یہاں تو جمہوریت ڈپٹی کمشنرز کے ذریعے ''کنٹرول ‘‘کی جاتی رہی۔ دفعہ 144 ہو یا ریونیوایکٹ‘ ایسے ایسے اختیارات ڈپٹی کمشنرز کے پاس تھے کہ نقادوں نے یہ تک کہا کہ ''پاکستان میں جتنے اختیارات ڈپٹی کمشنر کے پاس ہیںاتنے امریکی صدر کے پاس بھی نہیں‘ لیکن مجسٹریسی نظام کا خاتمہ بھی ہمارے ''جمہوری چیمپئنز‘‘ نہ کرسکے۔ اس کی دو وجوہ تھیں یا تو وہ بیورو کریسی سے ڈرتے تھے یا وہ ''تبدیلی‘‘کو اپنے لئے نقصان دہ سمجھتے تھے لیکن پرویز مشرف مجسٹریسی نظام کا خاتمہ کرکے ان جمہوری جاگیرداروں کو پیغام دے گئے کہ ''یہ تمہارے بس کی بات نہیں‘‘۔
حبیب جالب مرحوم نے پاکستانی جمہوریت کے بارے میں کچھ منظوم خیالات کا اظہار ایسے بھی کیا:
دس کروڑ انسانو!
زندگی سے بیگانو!
صرف چند لوگوں نے
حق تمہارا چھینا ہے
خاک ایسے جینے پر
یہ بھی کوئی جینا ہے
بے شعور بھی تم کو
بے شعور کہتے ہیں
سوچتا ہوں یہ ناداں
کِس ہوا میں رہتے ہیں
اور یہ قصیدہ گو
فکر ہے یہی جن کو
ہاتھ میں عَلم لے کر
تم نہ اٹھ سکو لوگو
کب تلک یہ خاموشی
چلتے پھرتے زندانو
دس کروڑ انسانو!
جہاں کسی بے روزگار کی پنکھے سے لٹکی نعش ملے‘ کوئی بھوکا وزیر اعلیٰ ہائوس کے سامنے خود سوزی کرے‘ عید کیلئے کپڑے مانگنے والا بچہ غریب باپ کے ہاتھوں ذبح ہوجائے‘ کسی وڈیرے کے ہاتھوں غریب بچی کی عزت تار تار ہوجائے‘ 10ہزارروپے سود کے بدلے جرگہ کسی ہاری کی بیٹی کو زمیندار کے حوالے کرنے کا فیصلہ سنائے‘ پنچائت کا سرپنچ بھائی کی غلطی پر اس کی حافظہ قرآن بہن کو سرعام ایک درجن نوجوانوں کے حوالے کردے‘ غربت کے ہاتھوں جسموں کے سودے ہوں‘ مریض اسپتال کے سامنے ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر مرجائیں‘ اسکول کی فیس نہ ہونے پر بچے ورکشاپ پر کام کریں‘ مزدور فٹ پاتھوں پر بھی سونے میں خوف محسوس کریں‘ سفارش نہ ہونے پر ایف آئی آر تک درج نہ ہو...اگر یہ سب کچھ جمہوریت کا حسن ہے تو ایسی جمہوریت ہمارے کسی کام کی نہیں... اس سے ملک کی نہیں سیاستدانوں کی ''ترقی ‘‘ہوتی ہے۔