سندھ میں انتظامی یونٹس کے مطالبات نے ایک ہلچل پیدا کردی ہے۔ ماضی میں اس قسم کے یا اس سے ملتے جلتے نعرے سندھ سے اُبھرتے رہے ہیں‘ لیکن اس بار تو یہ آوازیں پورے ملک سے اٹھ رہی ہیں۔ ہر طرف سے یہی کہا جارہا ہے کہ پورے ملک میں طاقت کا توازن تقسیم کیا جائے۔ کہنے والے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ارکان قومی اور صوبائی اسمبلی کا کام سڑکیں اور نالیاں بنانا نہیں‘ قانون سازی کرنا ہے۔ ان سے ''اصل‘‘ کام لینے کے بجائے ان کے ہاتھوں میں جھاڑو پکڑادی گئی ہے اور جب وہ جھاڑو'' پھیرتے‘‘ ہیں توکرپشن کی آوازیں آنے لگتی ہیں۔ پوری دنیا کی تمام جمہوری حکومتوں کا پہلا قاعدہ ہی بلدیاتی نظام ہے‘ لیکن ہمارے ملک کے حکمران اور ارکان اسمبلی تحریک استحقاق پر بہت زیادہ جذبات کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ کوئی ٹریفک والا روک لے‘ کوئی تلاشی لینے کاکہہ دے یا ''اوئے‘‘ کرکے مخاطب کرے تو استحقاق ایسامجروح ہوتا ہے کہ اللہ کی پناہ۔ لیکن عوام کی ''تحریکِ استحقاق‘‘ پر ملک کی سب سے بڑی عدالت کا حکم ماننے کو بھی تیار نہیں۔
پاکستان میں صرف ایم کیو ایم اور تحریک انصاف‘ دوہی جماعتیں ہیں جو ہر وقت بلدیاتی نظام کے حق میں کھل کر بیانات دیتی ہیں۔ ان کا نظریہ ہے کہ جب تک بلدیاتی نظام نہیں آئے گا‘ جمہوریت مضبوط نہیں ہوگی۔ ابھی ملک میںبلدیاتی نظام کا مطالبہ زور پکڑرہا تھا کہ اچانک ملک بھر میں 28 یا 32 انتظامی یونٹس کا مطالبہ شدت اختیار کر گیا۔ اگر آج ملک بھر میں 32 انتظامی یونٹس موجود ہوتے تو ہر صوبہ کم از کم اپنی ضرورت کے لئے دو یا تین چھوٹے ڈیم یا جھیلیں بنا چکا ہوتا اور پاکستان زراعت سے مالا مال ہوتا۔ حالیہ دریائی سیلاب سے اس قدر پانی سمندر میں چلا گیا جس سے کم از کم ڈیڑھ سال کے زرعی فوائد سمیٹے جاسکتے تھے اور بجلی بھی مفت میں مل جاتی۔ بھارت کشمیر میں جگہ جگہ ڈیم بنارہا ہے اور ہم ایٹم بم تو بنالیتے ہیں لیکن25 سال میں ایک تالاب بھی نہیں بنا سکے...اور صرف ایک بحث میں مصروف ہیں کہ کرسی کیسے بچائیں اور دھرنے والوں کو کیسے بھگائیں؟ کیا عوام یہ پوچھ سکتے ہیں کہ ایسی اسمبلیاں کس کا م کی ہیں جن کو عوام کے مفاد سے کوئی دلچسپی نہ ہو؟
پوری دنیا میں انتظامی یونٹس کی تعداد چالیس سے پچاس اور کہیں اس سے بھی زیادہ ہے‘ لیکن ہمارے ملک میںاتنے اہم موضوع پر بحث و مباحثہ کرنے والا کوئی نہیں۔ ہم نے آدھا ملک (مشرقی پاکستان) صرف اس بحث میں گنوادیاکہ مرکز مضبوط ہونا چایئے یا عوام ... اور جب اہلیان مشرقی پاکستان کی بات مانی تو پانی سر سے گزر چکا تھا۔ آگ ہر طرف پھیل چکی تھی اور عوامی لیگ اپنے چھ نکات پر اتنی مقبول ہوگئی تھی کہ پھر بات بنتے نہ بنی...!
ایک سیاسی دانشور نے یہ سوال کرکے سب کو لاجواب کردیا تھا کہ ہم کشمیر کے لئے جس حقِ خود ارادیت کا مطالبہ کرتے ہیں کیا ہم یہی حق کے پی کے میں ہزارے وال‘ پنجاب میں بہاولپور‘ سرائیکی اور اپر پنجاب‘ سندھ میں اردو بولنے والوں‘ جیکب آباد‘دادو‘لاڑکانہ سمیت کراچی کے بلوچوں ‘ پشاور سے زیادہ کراچی میں آباد پختونوں اور بلوچستان کے پشتونوں کو دینے کے لئے تیار ہیں؟ کیا ہم پاکستان کے سیاسی نظام میں سے ساٹھ فیصد افراد کو نکال کر ملک میں جمہوریت کو مضبوط بنانے کا خواب دیکھ رہے ہیں؟
1945 ء اور 1946ء میں مہاتما گاندھی نے بھی یہی کہا تھا کہ ''میری گردن کٹ سکتی ہے‘ بھارت کی دھرتی ماں تقسیم نہیں ہو سکتی‘‘ وہ تو بھارت کی تقسیم روکنے کی تحریک تھی لیکن دنیا نے دیکھا کہ بھارت کی دھرتی ماں بھی تقسیم ہوگئی اور مہاتما گاندھی کی گردن بھی محفوظ رہی اور بالآخر گاندھی جی ایک انتہا پسند ہندو کے ہاتھوں مارے گئے ...لیکن آج پاکستان کی صورتحال مختلف ہے۔ یہاں کوئی ملک نہیں بن رہا۔ صرف عوام اور سیاسی جماعتیں خاندانی بادشاہت کی لوٹ مار سے بچنے کیلئے ایک آئینی اور قانونی حق مانگ رہی ہیں اور اگر انہیں اس سے روکا گیا تو پھر نہ گاندھی جی عوام کی تحریک کو روک پائے تھے اورنہ ہم 1970ء میں چھ نکات میں سے ساڑھے پانچ نکات کو تسلیم کرکے پاکستان کو دولخت ہونے سے بچاسکے تھے۔ اب پھر ایک مرحلہ آیا ہے کہ ملک کی سلامتی کا فیصلہ کرنا ہے یا چند سو خاندانوں کی لوٹ مار کے لئے پورے ملک کو اُن کی چراگاہ بنادینا ہے۔
تاریخِ پاکستان میں دو صوبوں کی تقسیم کا ذکر ہے اور دونوں کے پیچھے قائد اعظم محمد علی جناحؒ کا عالی دماغ تھا۔ وہ اس تقسیم کے روح رواں تھے... پہلی تقسیم بنگال کی تھی۔ ہندوئوں کی تمام تر مخالفت کے باوجود نہ صرف بنگال تقسیم ہوا بلکہ پاکستان کا حصہ بنا اور پھر ہماری حماقتوں کے نتیجے میں ہم سے دور چلا گیا۔ بد قسمتی سے ایسی حماقتیں ہم آج دوبارہ شروع کررہے ہیں ...اگر کوئی علاقہ یا عوام کا ایک طبقہ یہ کہتا ہے کہ وہ اپنے علاقے کا انتظام خود کرنا چاہتا ہے تو اس میں برائی کیا ہے؟ کیوں زبان گدی سے کھینچنے اور خون کے دریا بہانے کی باتیں کی جارہی ہیں... اکیسویں صدی میں جبکہ میڈیا ایٹم بم کی طرح طاقتور ہوگیا ہے‘ کون کس کو غلام بناسکتا ہے ؟کب تک عوام کی ایک بڑی اکثریت کو اس کے'' حق خودارادیت‘‘ سے روکا جاسکتا ہے؟ کیا بھارت کی بیس لاکھ فوج کشمیر کو غلام بنانے میں کامیاب ہوئی؟ یاکشمیر کو آئینی ترمیم کے ذریعے بھارت کا حصہ بنانے سے کشمیری عوام کی تحریک دبی ؟ دنیا ان چیزوں سے بہت آگے نکل گئی ہے۔
اب کچھ بات کرتے ہیں تقسیم بنگال کے بعد بمبئی کی غلامی سے نجات کی... جب قائد اعظم نے بمبئی سے سندھ کو آزادی دلائی اور بمبئی تقسیم ہوا تو سندھ کی ترقی کا دروازہ کھلا۔ سندھ ان دنوں ہندوئوں کے قبضے میں تھا۔ سندھ اسمبلی میں ہندوئوں کی 60 فیصد اور مسلمانوں کی 40 فیصد نمائندگی تھی۔ اس کے باوجود قائداعظم نے اتنی زبردست تحریک چلائی کہ ہندواس تحریک کو نہ روک سکے اور بمبئی کی تقسیم سے ملنے والا ٹکڑا پاکستان کا حصہ بنا۔ ان دنوں کراچی وفاق کی زیر نگرانی علاقہ تھا۔ اب پنجاب کی طرح سندھ کی آبادی میں اس قدر اضافہ ہوچکا ہے کہ اتنے بڑے ہجوم کو چلانا حکمرانوں کے لئے آسان نہیں رہا‘ اس لئے سندھ میں بھی شدت کے ساتھ انتظامی یونٹس کے قیام کا مطالبہ شروع ہوا ہے... ذرا ماضی کو دیکھئے تاریخ کو کھنگالیے۔ ان دنوں سندھی سیاستدانوں اور دانشوروں نے کتابیں لکھ کراور اخباری مضامین کے ذریعہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ بمبئی سے سندھ کی علیحدگی کیوں ضروری ہے اور اہلیان سندھ کو اس کا کیافائد ہ؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ جن فوائد کا ان مضامین میں ذکر کیا گیا ہے‘ اب اسی ''عوامی مفاد‘‘ کو روکنے اور عام آدمی کو سہولیات سے قریب کرنے کے وسیع تر جمہوری فوائد سے انحراف کیا جارہا ہے اور کھلم کھلا کہا جارہا ہے کہ یہ سیٹ اپ ہم برداشت نہیں کریں گے... لیکن ماضی کی طرح اس ''انکار‘‘ میں وہ قوت اور طاقت نظر نہیں آرہی کیونکہ یہ انتظامی یونٹس پورے ملک میں بن رہے ہیں اور پاکستان اب بدلتا ہوانظر بھی آرہا ہے...اہل نظر کہتے ہیں کہ اس انتظامی سسٹم کا سب سے زیادہ فائدہ چار صوبوں کے اندرونی علاقوں کے عوام کو ہوگا۔ سب کی قسمت جاگے گی اور جمہوریت کے نام پر صرف لوٹ مار کرنے والوں کو نقصان پہنچے گا۔