بلاول بھٹو کے جلسہ عام کے لئے عام تاثر یہی تھا کہ بڑا ہنگامہ خیز ہوگا‘ جس کا مطلب یہی لیا جارہا تھا کہ بلاول بھٹو کی سیاست میں آمد سے ملکی سیاست میں نئی صف بند ی ہوگی لیکن اس جلسہ عام کا نتیجہ توقعات کے برخلاف نکل آیا۔ بلاول بھٹو زرداری نے کراچی میں جلسہ کیاکیا؟ ان کی مقبولیت کے چرچے ہر طرف ہونے لگے۔ کراچی سے کولکتہ تک بلاول کا ذکر ہے۔ ملک کی سیاسی صفوں میں بھونچال کی نیت سے آنے والے بلاول سندھ کی سیاست کی صفوں کو بھی درہم برہم کرگئے اور سندھ میں پیپلزپارٹی حکومت کی سب سے بڑی اتحادی جماعت‘ ایم کیو ایم نہ صرف روٹھ گئی بلکہ حکومت سے علیحدہ بھی ہوگئی۔ پیپلزپارٹی نے اس بار بھی وہی ترکیب استعمال کی جو اُس کا ماضی میں طرہ امتیاز تھا۔ لوگ حیرانی کے عالم میںپوچھ رہے ہیں کہ قائد حزب اختلاف خورشید شاہ صاحب کو اچانک کیا ہوا؟ منظور وسان تو رات کو خواب دیکھتے ہیں‘ کیاشاہ صاحب دن میں بھی خواب دیکھنے لگے ہیں؟ کروڑوں روپے سے زائد کے ''سندھی خزانے ‘‘ سے '' اسپانسر ڈ‘‘ جلسے کی چاند رات کو کہہ بیٹھے کہ'' لفظ مہاجر کو گالی سمجھتا ہوں‘‘ اور پھر ردعمل سے بچنے کے لئے تھوڑی ہی دیر بعد ایک پریس کانفرنس میں تو یہ بھی کہا'' میں توخود پرانا مہاجر ہوں‘‘یعنی اب نئے سندھی اور پرانے مہاجر آپس میں لڑ رہے ہیں۔ جب بھی ایم کیو ایم پیپلز پارٹی سے روٹھتی ہے‘ پیپلز پارٹی نئی قانون سازی کر کے کبھی بلدیہ کراچی کو دبوچ لیتی ہے تو کبھی گورنر کے اختیارات کم کر دئیے جاتے ہیں‘ کبھی بلدیات سے اختیارات سمیٹ کر سندھی بیوروکریسی کے حوالے کر دئیے جاتے ہیں تو کبھی گورنر سندھ کے اختیارات محدود کر کے اپنے وزیر اعلیٰ کو سونپ دئیے جاتے ہیںیعنی ہر بار ایم کیو ایم کو روٹھنے کی ''ٹھیک ٹھاک‘‘ سزا دی جاتی ہے اور ایم کیو ایم اسے برداشت کر لیتی تھی۔ اِس بار بھی ایسا ہوا‘ ادھرایم کیو ایم علیحدہ ہوئی اوراُدھر بلدیات کا نیا قانون دیہی علاقوں کے منتخب نمائندوں کی ایماء پر منظور ہوگیا اور ایم کیو ایم منہ دیکھتی رہ گئی‘ اس کا نتیجہ وہ نکلاجو قابل اجمیری نے کہا تھا ؎
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا!
اور جب حادثہ ہوگیا توپیپلزپارٹی کے گشتی سفیر‘ اور مذاکرات کے ''جادو گر‘‘ رحمان ملک کو حکم دیا گیا کہ ''جائو !! الطاف حسین سے مذاکرات کرو!!اور اسے واپس لے آئو‘‘۔ لیکن پہلی بار ایسا ہواکہ انہیں شرفِ باریابی حاصل نہ ہوسکا۔ انہیں کہا گیا کہ ''اب کی باری مت آنا‘‘ جب یہ خبر کراچی سے پورے ملک میں پھیلی تو لوگوں کو حیرت بھی ہوئی اورخوشی بھی۔ کسی نے کچھ کہاتو کسی نے کچھ۔ لیکن عام تاثر یہی تھا کہ اگر بلدیاتی آرڈیننس مشاورت سے تشکیل دیا جاتا تو دونوں پارٹیوں کے درمیان ''دیوارِ چین ‘‘کھڑی نہ ہوتی۔ اُدھر ایم کیو ایم کا علیحدگی کا اعلان آیا اوراِدھر پیپلزپارٹی کے رہنمائوں کے بیانات کی آمد شروع ہوگئی۔ جس سے پہلے آگ بھڑکی اورپھر پھیلی۔ اس کا شدید ردعمل یہ ہواکہ ایم کیو ایم بھی ''پوائنٹ آف نوریٹرن‘‘ پر آگئی۔ اب سب سوچ رہے ہیںکہ کیا کریں؟ رحمان ملک صاحب نے پیپلزپارٹی کے رہنمائوں پر پابندی لگا دی ہے کہ پارٹی کا کوئی بھی لیڈر ''مخالفانہ بیان‘‘ جاری نہیں کرے گا لیکن رحمان ملک کے اس ''حکم نامے‘‘ سے قبل ہی سارا کام ہوچکا تھا۔ ایک جوشیلے صحافی نے کہا کہ ''اس موضوع پر جو کچھ بھی کہا جاسکتا تھا وہ سب کہہ دیا گیا ہے‘ اب تو کچھ بھی نہیں بچا !!‘‘ دونوں طرف سے اچھی خاصی ''گولہ باری ‘‘ہوئی اور خاص طور پر ایم کیو ایم کے کارکنوں میں صوبے کے حصول کے حوالے سے مطالبے پر جس جوش و خروش اور نعرے بازی کا مظاہرہ دیکھا گیااس سے بھی محسوس ہو رہا تھا کہ بات اب رُکنے والی نہیں دور تلک جائے گی ! !
بلاول بھٹو کے جلسہ عام میںاس بات کی احتیاط رکھی گئی تھی کہ کسی کا نام لے کر ''نشانے بازی‘‘ نہ کی جائے لیکن سمجھنے والے ''ہنر مند‘‘ سب کچھ سمجھ گئے تھے۔ ایم کیو ایم کچھ دنوں سے بلاول بھٹو کے نشانے پر تھی۔ بلاول صاحب نے عید کے روز فرمایا کہ ''الطاف انکل میںآپ کالندن میں جینا حرام کردوں گا‘‘انہوں نے جلسہ کے دن کو بھی عید کا دن سمجھ لیا اور ترکش سے ایک اور تیر چھوڑنے کے بعد کہا ''سب کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں‘‘ جلسہ عام کے بعد بلاول بھٹو کو جواب آیا کہ ''کیا آپ نے اپنی ماں کے قاتلوں کے سکون کو غارت کیا؟ اپنے ماموں مرتضیٰ بھٹو کے قاتلوں کے سکون کو تباہ کیا اور اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو کے قاتلوں کا کیا بگاڑ لیا؟‘‘ اس قسم کی مناظرہ بازی نے سندھ کی سیاست کو نہ صرف گرم کر دیا بلکہ دونوں جماعتوں کو جنگ کیلئے صف آرا بھی کر دیااور پانی پت کا میدان سج گیا۔
بلاول بھٹو کا جلسہ عام پیپلزپارٹی کی جانب سے طاقت کا مظاہرہ ضرور تھا لیکن نامعلوم کیوں پیپلزپارٹی اتنے بڑے جلسہ عام سے کوئی طاقتور سیاسی پیغام نہ دے سکی۔ پیپلزپارٹی کے جلسے کی کامیابی کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ لیاری کے علاوہ پورا پاکستان بلاول کو دیکھنے کے لئے بے تاب تھا۔ کیا اہل سیاست شیری رحمان سے یہ سوال کر سکتے ہیں کہ اُنہوں نے ساری تقریر ''نیگیٹو اسٹائل‘‘ میں کیوں لکھی؟ جلسہ عام میں پارٹی طاقت کا مظاہرہ کرتی ہے‘ نئے نعرے دیتی ہے‘ پارٹی منشور اور پروگرام کو حالات کے سانچے میں ڈھال کر نئے مطالبات لاتی ہے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔
کہا جاتا ہے کہ جب تک کراچی سے تحریک نہ چلے مکمل تبدیلی نہیں آتی۔ اور اب آثار نظر آرہے ہیں کہ چنگاری آگ پکڑنے والی ہے۔ قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کے خلاف قومی اسمبلی میں مذمتی قرار داد پیش کی جا چکی ہے۔ انہیں اپوزیشن لیڈر کے عہدے سے ہٹانے کے لئے ایم کیو ایم نے ''رابطہ مہم‘‘ شروع کر رکھی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف‘ عوامی مسلم لیگ ‘ق لیگ سمیت کئی جماعتیں تو انتظار میں تھیں کہ ایم کیو ایم کی انٹری کب ہوگی ؟ اپوزیشن لیڈر کے عہدے کے ساتھ ہی چیئرمین نیب کی تبدیلی بھی یقینی ہو جائے گی۔ اور ملکی تاریخ میں پہلی بار کمزور حکومت کو تگڑی اپوزیشن کا سامنا ہوگا جو شاید اسے چند ماہ بھی نہ چلنے دے حکومت کو پہلے ہی سڑکوں پر دھرنوں کا سامنا تھا اب اسمبلی میں بھی ''پہلوانوں‘‘ کا سامنا ہوگا۔
بلاول بھٹو کا جلسہ عام بظاہربڑا تھا‘ اس میں خرچہ بھی بہت کیا گیاتھا‘ یہ جلسہ پورے سندھ کی نمائندگی کر رہا تھا‘ جلسہ عام کراچی میں تھا اور ٹریفک کراچی سے باہر سپر ہائی وے پر جام تھی اور ہائی وے پر ٹریفک پولیس آنے والی گاڑیوں کیلئے توراستہ بنا رہی تھی‘ پروٹوکول دے رہی تھی لیکن رات گئے جب واپسی کا سفر شروع ہوا تو سندھ پولیس کوئی پروا کئے بغیر سو گئی اور یہ بھی نہ سوچا گیاکہ ''اگر دہشت گردی کی بڑی واردات ہوگئی توذمہ دارکون ہوگا؟ اس طرح کی آگ تو پورے سندھ کو لپیٹ میں لے سکتی تھی‘‘۔
پیپلزپارٹی کے جلسہ عام نے سوئے کارکنوں کو جگانے کی ضرور کوشش کی لیکن بلاول بھٹو کی تقریر اور ان کے حفاظتی حصار نے جلسہ کے شرکاء میں جوش و خروش پیداہی نہیں ہونے دیا۔ شرکاء اپنے نوجوان قائد کی جھلک دیکھنے کیلئے پنجوں کے بل کھڑے بھی ہوتے رہے لیکن مجال ہے کہ بلاول کا سر بھی نظر آجاتا۔ جلسہ عام میں لیاری کی شرکت بھی موضوع بحث بنی رہی۔ لیاری والوں کو کیا ہوا؟ یہ جواب شاید پیپلزپارٹی کے پاس بھی نہ ہو۔ جلسہ عام میں صحافیوں کی جانب سے بھی پوچھا گیا کہ ''اطلاعات آرہی ہیں کہ لیاری والوں نے جلسہ گاہ میں لائی بسوں میں سوار ہونے سے انکار کر دیا ہے اورا یک بلوچ لیڈر کا نام لے کر کہا جا رہا ہے کہ اس کے سر کی قیمت واپس لو‘‘ لیاری کی بعض گلیوں میں یہ بھی کہا گیا کہ ''جو جلسہ عام میں جائے گا اُسے زندہ جلا دیا جائے گا‘‘ ...خیر یہ صرف دھمکی ہی رہی اور بعض افراد اس کے باوجود بھی بلاول بھٹو کے جلسہ عام میں آئے اور بلاول بھٹو کو باپ کی مفاہمتی پالیسی کے خلاف اتحادی جماعت ایم کیو ایم پر ٹھیک ٹھیک نشانے لگاتے ہوئے دیکھا۔ اب سوال یہ ہے کہ پیپلزپارٹی اس قدر مہنگے جلسہ عام سے لڑائی اورسیاسی فسادکے سواکیا حاصل کرسکی؟