"ISC" (space) message & send to 7575

بلاول بھٹو زرداری ۔۔۔۔۔۔کامیاب یا ناکام؟

بلاول بھٹو زرداری کی سیاست میں ''ڈرامائی انٹری‘‘تو سب نے دیکھ لی۔ اب یہ کامیاب ہوئی یا ناکام‘ اس پر بحث چھڑی ہوئی ہے۔ بلاول کے کراچی میں جلسۂ عام کو کون بھلا سکتا ہے؟عوام کے سمندر پرتوبہت سے لوگ مطمئن ہیں لیکن ''ٹھاٹھیں مارنے‘‘ پراختلاف موجود ہے۔ بلاول کی کراچی میں تقریر بعض جیالوں کو پسند آئی لیکن اس میں ''شرارتی جملے ‘‘کیوں ڈالے گئے‘ اس پر ''تبادلۂ خیال‘‘ جاری ہے۔ جلسے سے ایک روز قبل پیپلز پارٹی کے ایک ''قدیم‘‘رہنما کے منہ سے لفظ مہاجر کو گالی قرار دینے والی غیرذمہ دارانہ بات کیوں نکل گئی ؟اس پر بھی کئی ''افسانے‘‘ بنے ہیں۔ سیاسی حلقوں میں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ زرداری صاحب پوری ایک قوم کو نام لے کر گالی قرار دینے والے ''محقق‘‘سے سو فیصد متفق نہیں ہیں۔
بلاول اپنی والدہ کے قتل کے بعد 30 دسمبر 2007ء کو پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ نامزد ہوئے‘ لیکن چونکہ ابھی تعلیم مکمل نہیں کی تھی لہٰذا آصف علی زرداری پارٹی کے شریک چیئرمین بن کر پارٹی امور چلاتے رہے۔ والدہ کے قتل کے بعد ان کا نام بلاول علی زرداری سے تبدیل کر کے بلاول بھٹو زرداری کر دیا گیا‘ کیونکہ پیپلز پارٹی اپنے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی کرشماتی شخصیت کے باعث پانے والی شہرت کو نہیں کھونا چاہتی تھی۔ ''بھٹو فیکٹر‘‘ کا استعمال ہی بلاول کے نام کی تبدیلی کا باعث بنا۔ ان کی پیپلز پارٹی کے چیئرمین کے عہدے پر تعیناتی کو ملک کے جمہوری حلقوں نے اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا کیونکہ ملک کی سب سے بڑی جمہوری قوت ہونے کے ناتے پیپلز پارٹی کو اپنے سربراہ کا انتخاب جمہوری طریقے سے کرنا چاہیے تھا۔ 
کاش ایسا ہوتا !!۔۔۔۔۔یہ بنیاد ڈالی جاتی تو پھر مسلم لیگ ن میں بھی کوئی ''غیرشریف‘‘پارٹی کا صدر ہوتا‘ مولانا فضل الرحمن کی پارٹی میں بھی کوئی ''غیرمولانا ‘‘سربراہ ہوتا‘ اے این پی میں بھی صدر کے نام کے ساتھ ''ولی‘‘ نہ ہوتا۔ موروثی سیاست کے خاتمے کا آغاز ہوجاتا لیکن ایسا نہ ہوا۔ پوری پیپلز پارٹی بلاول کو وزیر اعظم دیکھنا چاہتی ہے لیکن جب بلاول نے ملالہ کو وزیر اعظم بنانے کی بات کی تو اس وقت بھی وہ عمران خان کویہ جتلانا چاہتے تھے کہ ملالہ طالبان کے خلاف بات کرتی ہے لیکن آپ نہیں کرتے‘ مطلب کہ ملالہ صرف ''اینٹی طالبان وزیراعظم‘‘ بنتیں ۔
آپ کے لیے یہ معلومات حیران کن ہوں گی کہ ٹویٹر پر پانچ لاکھ اٹھہتر ہزار فالورز کے ''مالک‘‘بلاول بھٹو زرداری خودمریم نواز کو ''فالو‘‘کرتے ہیں‘ لیکن پونے چھ لاکھ ''ٹویٹر فالورز‘‘ کے ''لیڈر‘‘ میدانِ سیاست میں صرف تین جماعتوںایم کیو ایم ‘مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف کے دلوں میں نرم گوشہ تک پیدا نہ کرسکے۔ کراچی میں ان کی تقریر نے ایم کیو ایم کو سندھ ‘آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی حکومت سے علیحدہ کردیا۔ لندن میں ان پر ٹماٹر اور انڈے پھینکے گئے‘ جس کا الزام تحریک انصاف پر لگایا گیا لیکن عمران خان کے بھانجے حسام نیازی نے ''دنیا نیوز‘‘کو دئیے گئے ایک انٹرویو میں پوری کہانی سنادی۔ ان کا کہنا تھا کہ تمام تر صورتحال کے ذمہ دار بیرسٹر سلطان محمود تھے‘ جنہوں نے پہلے بلاول کی آمد کا کہا‘ پھر انکار کیا جس کی وجہ سے وہاں موجود لوگ مشتعل ہوئے۔ وہاں جئے بھٹو اور نواز شریف زندہ باد کے نعرے لگے۔۔۔۔۔۔اور کشمیر کاز'' سیاسی شو‘‘میں تبدیل ہونے والا تھا۔
بلاول بھٹو زرداری کو یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ انہیں ہر جگہ ''متنازعہ ‘‘بنانے والی قوتیں کونسی ہیں؟۔ کیا وہ خفیہ ہاتھ ہیں یا صاف نظر آنے والے ہاتھ؟۔ ان کا بلاول کی ناکامی میں کیا ''فائدہ ‘‘ہے؟ پیپلز پارٹی کے تین اہم رہنما بلاول کے خلاف ہیں۔ کراچی جلسے سے قبل خورشید شاہ کا بیان بھی انتہائی خطرناک پیغام تھا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اندر کے لوگ مخالف ہوں تو باہر والوں سے کیسا شکوہ؟بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ''آدم خور‘‘سیاستدان بلاول کو ''زندہ نگلنا‘‘چاہتے ہیں اور ان کی شخصیت متنازعہ بنا کر فلم کا ''دی اینڈ‘‘یہیں کرنا چاہتے ہیں۔ شاید وہ قوم کا قیمتی وقت بچانا چاہ رہے ہوں لیکن بلاول اگر ہوشمندی سے کام لیں اور حضرت علیؓکے یہ اقوال یاد رکھیںتو شاید ان کو ندامت کا سامنا ہی نہ ہو۔
٭نادان دوست سے دانا دشمن بہتر ہے۔
٭مومن ایک ہی سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاسکتا۔
٭یہ زندگی دو دن کی ہے۔ ایک دن تمہارے حق میں اوردوسرا دن تمہارے خلاف۔۔۔۔۔۔جس دن تمہارے حق میں ہو اس دن غرور مت کرنا اور جس دن تمہارے خلاف ہو اس دن صبر کرنا۔ 
٭اپنے دشمن کو ایک ہزار مرتبہ موقع دو کہ وہ تمہارا دوست بن جائے لیکن اپنے دوست کو ایک بھی موقع نہ دو کہ وہ تمہارا دشمن بن جائے۔
بلاول صاحب! پاکستانی قوم تو قبر پہ مٹی ڈالنے کے معاملے پر چار‘ پانچ لاشیں گرا دیتی ہے۔ اس قوم پر آپ کا ''ٹویٹ فارمولا‘‘کتنا اثر انداز ہوسکتا ہے یہ آپ بھی بہتر سمجھتے ہیں۔ اس قوم کو افتخار چوہدری کے بعدآنے والے چیف جسٹس کا نام بھی نہیں معلوم‘ لیکن عمران خان کا نام بچہ بچہ جانتا ہے۔ کوئی تو وجہ ہوگی کہ62 سالہ عمران خان اس وقت نوجوانوں کے دل کی آواز بنا ہوا ہے اور26سالہ بلاول کی آدھی تقریر سننے والے معمر لوگ بھی کراچی کی جلسہ گاہ چھوڑ کر چلے گئے۔ 64سالہ نواز شریف کے جلسے میں بھی اتنا بڑا بلٹ پروف شیشہ نہیں تھا جو کراچی کے جلسے میں آپ اور عوام کے درمیان رکاوٹ تھا۔ آپ کو اس جلسے میں دیکھنا مشکل ہی نہیں‘ ناممکن تھا۔ اس سے تو ٹی وی پر ''لائیوجلسے‘‘میں ''شریک‘‘لوگ خوش قسمت ثابت ہوئے۔ ایسا خطاب تو کوئی مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بھی نہیں کرتا جو آپ نے ایک ''عوامی لیڈر‘‘کی حیثیت سے کیا۔۔۔۔۔۔پیر صاحب پگارا بھی مریدوں کو دیدار ''بلٹ پروف ‘‘شیشے کے پیچھے سے نہیں کراتے‘ ورنہ ان کے مریدوں کی تعداد میں کمی کو فطری عمل ہی کہا جائے گا۔ آپ کو یہ ضرور 
دیکھنا ہوگا کہ وہ کون سے ''دوست‘‘تھے جنہوں نے آپ کوعوام سے دور رکھا۔ لوگ ادھوری تقریر کو ہی پوری سمجھ کر'' میدان ‘‘چھوڑ گئے۔ لندن میں کشمیر کاز کے جلسے میں ''جئے بھٹو‘‘کے نعرے کیوں لگے۔۔۔۔۔۔؟کسی نے کیا خوب کہا ہے ۔
جب آپ عروج پر ہوتے ہیں تو آپ کے دوستوں کو پتہ چلتا ہے کہ آپ کون ہیں اور جب آپ زوال پذیر ہوتے ہیں تو آپ کو پتہ چلتا ہے کہ دوست کون ہیں؟
بلاول صاحب!آپ نے اپنے فیس بک صفحہ پر ''میں نوجوان ہوں ۔۔۔۔۔۔اورکہاں ہیں نوجوان ؟‘‘لکھ رکھا ہے لیکن پاکستان کے نوجوان پوری دنیا سے مختلف ہیں۔ یہ تو اب ایس ایم ایس‘ کال پیکیج‘ فیس بک‘ ٹوئٹر‘ ہینگ آئوٹ ودیگر سافٹ ویئر زکے ''ماہر‘‘بن چکے ہیں۔ 100روپے کا کارڈ ڈالنے پر جب 75روپے ملیں‘ 50کا بیلنس ڈلوانے پر دکاندار ایک روپے کی ''ڈنڈی‘‘مارے تو انہیں آپ کے والد آصف زرداری اور نواز شریف ''یاد‘‘آجاتے ہیں۔ پنجاب میں تو پھر بھی نوجوانوں کو ''لیپ ٹاپ‘‘کا ''لالی پاپ‘‘دے کر بہلانے کی کوشش کی جارہی ہے‘ کچھ کو مقروض بناکر ''احسان‘‘کیا جارہا ہے لیکن سندھ میں نوجوانوں کیلئے کوئی قابل ذکر اقدام اب تک نظر نہیں آیا۔ یہاں تو کراچی کا پیٹ کاٹ کر جیبیں بھری جارہی ہیں۔ صورتحال سنگین سے سنگین تر ہوتی جارہی ہے۔ آپ اگر ان معاملات پر توجہ دے دیں تو نوجوانوں سمیت ہر طبقے کے لوگوں میں آپ کا عزت واحترام بڑھ جائے گا اور غریبوں کی دعائوں سے آپ وہ کچھ حاصل کرسکتے ہیں جو دولت کے بل بوتے پر شاید کبھی آپ کا مقدر نہ بنے۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں