کراچی نے ایک دن کے لیے عمران خان کی بات مان لی اور بند ہوگیا۔ قومی سیاست میں کراچی نے ایسی مثال قائم کی کہ لوگ فیصل آباد کو فلسطین یا کشمیرکا حصہ سمجھنے لگے، ایسی ہڑتال نہ کبھی دیکھی نہ سنی۔ ہڑتال کا نام سن کر لوگ خوف محسوس کرتے ہیں لیکن 12دسمبر کو کراچی نے یہ منظر بھی دیکھا کہ خواتین اور بچے بھی سڑکوں پر دھرنے دے کر سڑکیں بلاک کررہے تھے۔ نمائش چورنگی اور اسٹار چورنگی کے دھرنوں میں کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طالب علم بھی شریک تھے، بزرگوں کی ایک بڑی تعداد گھروں پر آرام کرنے کے بجائے اپنی بچی کھچی زندگی میں سے ایک دن کی ''قربانی‘‘دے رہی تھی کہ شایدنئے درخت کا پھل اولاد کو ہی نصیب ہوجائے ۔ کراچی قومی سیاست میں داخل ہوگیا، صوبائی تعصب کا دیو قابو میں آگیا۔ پاکستان بنانے والے قائد اعظم محمد علی جناح کے مزار کے سامنے نمائش چورنگی پر بھی نئے پاکستان کے خواہشمندوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ ایک طالب علم تو پرچہ ملتوی ہونے کا غم منانے کے بجائے دھرنے میں شرکت پر خوشی سے سرشار تھا۔ نمائش چورنگی سے ٹاور تک ایم اے جناح روڈ پر کئی تجارتی مراکز اور ہول سیل مارکیٹیں ہیں جن کے باہر موجود دکاندار اس کشمکش میں مبتلا رہے کہ کاروبار کھولا جائے یا نہیں۔۔۔۔۔ جامعہ کلاتھ اور بولٹن مارکیٹ میں کچھ دکانداروں نے کاروبار کھولا لیکن خریدار'' لاپتہ ‘‘ تھے جس کے بعد دکانداربھی ''غائب‘‘ہوگئے۔ کراچی میں ٹرانسپورٹ برادری کی اکثریت پشتونوں پر مشتمل ہے لیکن ان کی ایسو سی ایشن نے عمران خان کی کال کو مسترد کردیا تھا۔ کراچی ٹرانسپورٹ اتحاد کے صدر ارشاد بخاری ہڑتال والی رات مختلف ٹی چینلز پر انٹرویو دیتے رہے کہ ٹرانسپورٹ چلتی رہے گی ، اس کے بعد وہ خود تو سوگئے لیکن صبح دفاتر اور کاروبار پر جانے والے شہریوں کی اکثریت بس اسٹاپ پر گاڑیوں کا انتظارکرتے کرتے واپس گھروں کو چلی گئی، لیکن صبح 12بجے تک ارشاد بخاری صاحب کا ٹیلی وژن چینلز پررات والا ٹکرہی چلتا رہا کہ ''صورت حال دیکھ کر ٹرانسپورٹ سڑکوں پر لائیں گے‘‘ اور پھر وہ شام 5بجے تک ''صورت حال‘‘ہی دیکھتے رہے۔ یہی حال تاجربرادری کا ہوا۔کراچی تاجر اتحاد کے رہنما عتیق میر نے بھی ہڑتال سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے کہا: ''کاروباری مراکز معمول کے مطابق کھلے رہیں گے‘‘۔
انہوں نے ایڈیشنل آئی جی سے سکیورٹی کے حوالے سے بات بھی کی، ان کا خیال تھا کہ شاید پولیس والے ان کی دکانوں سے خریداری کریں گے۔ صبح دکان کھولنے والے بھی گاڑیاں اور راستے ڈھونڈتے رہے ، کسی کو گاڑی نہ ملی تو کسی کو راستہ۔
شہر میں 40 مقامات پر دھرنے دیے گئے۔ بولٹن مارکیٹ سے کچھ فاصلے پر نیٹی جیٹی پل پر بھی تحریک انصاف کا دھرنا تھا۔۔۔۔۔ اِسی سڑک سے کراچی بندرگاہ سے اندرون ملک سامان کی نقل و حرکت ہوتی ہے لیکن وہ بھی معطل رہی۔ ڈھائی کروڑ آبادی کے شہر میں احتجاجی دھرنوں میں شہریوں کی بہت بڑی تعداد تو نظر نہیں آئی تاہم تحریک انصاف معمولاتِ زندگی اور تجارتی سرگرمیاں مفلوج بنانے میں ضرور کامیاب ہوئی۔
سندھ حکومت کی بات کی جائے تو اِس میں بھی رانا ثناء اللہ ٹائپ کے کچھ '' شرارتی وزراء ‘‘ نے تحریک انصاف کو ناکام کرنے کی کوشش کی لیکن اُس کے نتیجے میں اسکول مالکان ، طلباء ، اساتذہ اور والدین ضرور پریشان ہوئے ۔ پہلے سے دودھڑوں میں تقسیم اسکول ایسوسی ایشنز ہڑتال کے معاملے پر بھی تقسیم نظر آئیں ۔ انہوں نے بھی مشہور زمانہ جملہ ''صورت حال دیکھ کر فیصلہ کریں گے‘‘اپنایا لیکن صبح تک انہوں نے یہ ''بھاری‘‘ ذمہ داری اپنے کاندھوں سے اتار کر اسکول مالکان پر ڈال دی لیکن تب تک بہت دیر ہوچکی تھی۔
آصف زرداری کی مفاہمتی پالیسی نے ثابت کردیا کہ بھلے ان میں سو خامیاں ہوں لیکن مفاہمت کے معاملے میں پاکستان
میں اُن کا کوئی ثانی نہیں ۔ اِس کا عملی ثبوت کراچی میں نظر بھی آیا لیکن کچھ ناقدین یہ بھی کہتے ہیں کہ آصف زرداری نے '' دودھ ‘‘ کا جلا فیصل آباد دیکھ کر کراچی کو '' چھاچھ ‘‘سمجھنے میں عافیت جانی ۔ پیپلز پارٹی تو سرخرو ہوگئی لیکن اس نے کراچی میں مداخلت نہ کرکے مسلم لیگ ن کو '' لاہور ٹیسٹ ‘‘کے لیے بڑے امتحان میں ڈال دیا۔ پیپلز پارٹی کے بعد دوسرا کردار متحدہ قومی موومنٹ کا تھا جس نے ماضی کی طرح ایک بار پھر ہڑتال میں '' دخل اندازی ‘‘ نہیں کی اور کراچی کے شہریوں کو ان کے '' ضمیر ‘‘ کے حوالے کردیا۔
اہلیانِ کراچی نے جمعرات کی شام '' لنگڑی لولی ‘‘ کہلانے والی ہڑتال کو جمعہ کی صبح کامیاب ہڑتال کی شکل دے دی۔ جمعرات کی رات تک شہری دو آراء میں تقسیم تھے۔۔۔۔۔ ایک ہڑتال نہ ہونے کے دعوے پرشرطیں لگارہے تھے تو دوسری جانب ''ہڑتال ہر حال میں ہوگی‘‘کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ کراچی نے اتنی ہڑتالیں دیکھی ہیں کہ شاید ہی کوئی گنتی کر پائے ۔۔۔۔۔۔پورے ملک میں کراچی ہڑتالوں کے حوالے سے ''سینئر سٹی‘‘کا درجہ رکھتا ہے لیکن کراچی کی ہڑتالوں کے ''عینی شاہدین‘‘ کا کہنا ہے کہ ''ایسی ہڑتال پہلے نہیں دیکھی جس میں ایک گاڑی نہیں جلی ، کوئی دکان زبردستی بند نہیں کرائی گئی ، سیدھی گولی تو دور کی بات ہوا میں بھی کوئی
گولی نہیں چلی ، خوف کی فضا کے بجائے خوشگوار ماحول اورکئی دھرنوں میں تو گانا بجانا جاری تھا۔
ایمبولینس سمیت کسی ایمرجنسی اور نماز جمعہ کے لیے جانے والوں کوراستہ دیا جارہا تھا تو کسی کو متبادل راہ کی آگہی مہم بھی جاری تھی۔
کراچی کی یہ کامیاب ہڑتال عمران خان کے لیے باعث فخر بن گئی ۔ عمران خان نے کراچی کی سرزمین پر قدم رکھتے ہی پہلا جملہ یہی کہا ''میں کراچی والوں کا شکریہ ادا کرنے آیا ہوں ‘‘ ۔ عمران خان نے تین سے زائد بار کہا کہ '' میں معذرت چاہتا ہوںکہ آپ کا ایک دن ضائع ہوا ‘‘۔ اہلیانِ کراچی کے لیے عمران خان کا یہ جملہ انتہائی حیرت انگیز تھا۔ آج تک ہڑتال کی کامیابی کے بعد کسی نے بھی اس طرح '' معذرتی شکریہ ‘‘ادا نہیں کیا ، یہاں تو درجنوں شہریوں کی ہنگاموں میں ہلاکت اور بھاری مالی نقصان پربھی معافی نہیں مانگی جاتی۔۔۔۔۔ کراچی والے اس'' حسنِ سُلوک ‘‘ پر حیران ہیں ۔ عمران خان طبعاً عاجزانہ طرز زندگی نہیں رکھتے اور روکھے سوکھے انسان ہیں، مزاج میں کچھ کچھ عاجزی کی کمی بھی محسوس ہوتی ہے لیکن کراچی کی خوش خبریوں نے انہیں بہت نرم مزاج بنادیا۔
کراچی میں عمران خان کے '' گڈشو ‘‘ کے بعد کراچی کی سیاست میںایک نئے ''شیئر ہولڈر‘‘کا اضافہ ہوگیا ہے ، لیکن کراچی آمد کے بعد عمران خان کے پروگرام میں جلد بازی کا شکوہ ہر جگہ سننے میںآیا اور یہ بھی کہا گیا کہ کراچی کو اسلام آباد اور فیصل آباد جتنا نہ سہی اس سے آدھا وقت تو ملنا چاہیے تھا۔