"ISC" (space) message & send to 7575

قائم علی شاہ اورتحریک عدم اعتماد !

سندھ کی سیاست میں ایک بار پھر ہلچل مچی ہوئی ہے۔ قائم علی شاہ کی وزارت اعلیٰ ایک اور خطرے سے دوچار ہے۔ تنکوں کی طرح بکھری سندھ کی اپوزیشن اچانک انتہائی تیزی کے ساتھ متحد ہوکر بزرگ وزیر اعلیٰ کی کرسی کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے منہ کے بل گرانا چاہتی ہے ۔ قائم علی شاہ پر بلاول بھٹو زرداری بھی ایک ''سیاسی حملہ‘‘کرچکے ہیں جس میں شکست ِفاش نے انہیں آصف زرداری سے دور کردیا۔ واقفانِ حال کہتے ہیں کہ بلاول نے اپنی ممانی غنویٰ بھٹو ‘کزن ذوالفقارجونیئراور فاطمہ بھٹو سے بھی رابطے کیے ہیں ۔ وہ ماضی میں ممتاز علی بھٹو سے بھی بات چیت کرچکے ہیں ۔ شاید اسی لیے آصف زرداری کوزرداری قبیلے کی یاد ستائی اور انہوں نے اپنے والد کی سرداری کا بار اپنے کاندھوں پر اٹھالیا ۔ کچھ ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ آصف زرداری باقی تمام زرداریوں کے سردارتو بن گئے لیکن اپنے بیٹے کو زرداری نہ بنا سکے اور وہ بھٹوخاندان کے سردار بننے کی کوششوں میں مصروف ہیں ۔ یہ وقت ہی بتائے گا کہ پیپلز پارٹی ایک بار پھر بھٹوئوں کے پاس آتی ہے یا پھر بھٹو‘ زرداری کنٹراسٹ کا شکار رہے گی۔
کراچی میں اس وقت سب سے زیادہ سیاسی رونق سابق صدر پرویز مشرف کی ڈیفنس میں واقع رہائش گا ہ پر نظر آتی ہے جہاں ایک کے بعد ایک ''اہم ملاقات‘‘ہورہی ہے اور سب سے اہم ملاقات سندھ اسمبلی میںمسلم لیگ فنکشنل سے تعلق رکھنے والے اپوزیشن لیڈر شہر یار مہر نے گزشتہ دنوں کی جس میں پرویز مشرف نے انہیں اپنا گھر سندھ حکومت کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت بھی دی ۔ اسی حوالے سے پیر پگارا اور ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ بھی ہوا اور مسلم لیگ فنکشنل کے رہنما لندن جاکر ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین سے ملاقات بھی کریں گے۔ سندھ کی صورت حال پر گہری نظر رکھنے والوں کا یہ کہنا ہے کہ تحریک سندھ حکومت پر دبائو ضرور بڑھاسکتی ہے لیکن یہ کامیاب نہیں ہوگی۔
سندھ اسمبلی میں نمبر گیم کے حوالے سے بات کی جائے تو نشستوں کی کل تعداد 168ہے جس میں 130منتخب ارکان جبکہ 29 خواتین اور9 اقلیتی ارکان مخصوص نشستوں پر اسمبلی کا حصہ بنے ۔ پیپلز پارٹی نے 91 ارکان کی بدولت حکومت بنا رکھی ہے جبکہ ایم کیو ایم 51 ‘مسلم لیگ فنکشنل 11‘ مسلم لیگ ن 8 ‘ تحریک انصاف 4 اور نیشنل پیپلز پارٹی دو نشستوں کے ساتھ اپوزیشن کی 78 سیٹوں پر براجمان ہیں ۔ پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے صدر مخدوم امین فہیم کی پرویز مشرف سے ملاقات کے بعد ''باخبر ‘‘ لوگوں کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی میں فارورڈ بلاک تیار ہے اور مخدوم امین فہیم کو منانے کی کوششیں ناکام ہونے کا ٹھوس سبب یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ وہ خورشید شاہ سے ملاقات کے بعد پریس کانفرنس کے لیے باہر تشریف نہیں لائے جس کا غصہ خورشید شاہ نے ایک صحافی پر اتارا۔ ایسی صورت حال میں'' نمبر گیم‘‘ کسی بھی وقت بدل سکتی ہے۔ مسلم لیگ ن وفاق میں ''مسائل‘‘ سے بچنے کے لیے اگر ''مفاہمتی پالیسی‘‘ پر بھی عمل پیرا رہے تب بھی اپوزیشن ارکان کی تعداد 68 بنتی ہے۔ اِس طرح انہیں تحریک عدم اعتماد کامیاب کرنے کے لیے صرف 17ارکان کی ضرورت ہوگی جو فارورڈ بلاک کے ارکان کی تعداد سے کہیں کم ہے۔
پیپلز پارٹی کی سندھ میں حکومت پر سب سے بڑا ''داغ‘‘ تھر کے بھوک سے بلکتے بچوں کا ہے جہاں میڈیکل اسٹورز پر روٹی کا '' نسخہ‘‘ کارآمد ہو وہاں ادویات کی کیا اہمیت ہوگی۔۔۔۔ بھوک سے بڑی بیماری کیا ہوگی ۔۔۔۔اس کے صرف دو علاج ہیں یا روٹی مل جائے یا پھرپیٹ پر باندھنے کے لیے پتھر۔۔۔۔لیکن تھرباسیوں کو تو پتھر باندھے بھی عرصہ بیت گیا۔۔۔۔ رہی سہی کسر سندھ میں کرپشن نے پوری کردی۔ پرویز مشرف دور میں کراچی میں بے تحاشا ترقیاتی کا م ہوئے۔ پہلے نعمت اللہ خان اور پھر مصطفی کمال نے کراچی کی سڑکوں پر انڈر پاس اور فلائی اوورزکا جال بچھا دیا ۔۔۔۔ دو درجن کے قریب فلائی اوورز تعمیر ہوئے۔ پیپلز پارٹی حکومت کے حصے میں صرف دو فلائی اوورز آئے ۔۔۔۔ پہلا ملیر ہالٹ اور دوسرا ملیرسٹی پر اپنی مقررہ مدت مکمل ہوجانے کے باوجود تعمیر کے نصف مراحل بھی طے نہیں کرسکا۔۔۔۔وجہ صرف ایک ہی بتائی جاتی ہے کہ ''فنڈز نہیں ہیں‘‘ ۔ اٹھارویں ترمیم سے پہلے تو وفاق سے شکوہ کیا جاتا تھا کہ وہ فنڈز جاری نہیں کررہا لیکن اب تمام فنڈز وزیر اعلیٰ ہائوس میں ''جمع‘‘ ہوجاتے ہیں تو شکوہ کس سے کیا جائے؟
کراچی کے علاقے لیاری میں جاری گینگ وار کے اہم کردار عزیر بلوچ کی دبئی میں گرفتاری کے بعد حوالگی کا معاملہ پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے ۔ خلیج اور پاکستانی اخبارات میں گرفتاری کی خبریں شائع ہوئیں ۔ پاکستان کی حکومت نے اس کی حوالگی کے لیے دبئی کی حکومت کو خط ضرورلکھا ہے لیکن اسی دوران ایران بھی عزیر کی حوالگی کے لیے سرگرم ہوگیا ہے اور ایران کے لیے یہ بات انتہائی تشویش ناک ہے کہ کوئی ان کے ملک کا جعلی پاسپورٹ بنوا کر دبئی یا کسی دوسرے ملک پہنچ جائے۔ ایران اس نیٹ ورک کو بھی پکڑنا چاہتا ہے جو جعلی پاسپورٹ بنا کر لوگوں کو ایرانی شہری ظاہر کررہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عزیر بلوچ کے بارے میں ابتدائی خبریں یہ تھیں کہ اُسے انٹرپول نے گرفتار کیا ہے لیکن بعد میں یہ راز کھلا کہ وہ اپنی غلطی سے گرفتار ہوا کیونکہ دبئی امیگریشن حکام کے 
پاس اس کے اصل نام سے دبئی آمدکے تصایر ‘ فنگر پرنٹس‘ آنکھوں کی تصاویر اور پاکستانی پاسپورٹ کا ریکارڈ موجود تھا جس کے نتیجے میں عبد الغنی ولد خدا بخش کے نام سے شناخت کرنے سے انکارکردیا گیا تھا۔ ایران کے مقابلے میں پاکستان کے پاس عزیر کی حوالگی کے جواز انتہائی کم ہیں۔۔۔۔ ایف آئی اے کا صرف اتنا کام ہوگا کہ وہ کراچی پولیس کے رابطے انٹرپول سے کرائے اور انہیں یہ یقین دلائے کہ عزیر بلوچ پاکستانی شہری ہے کیونکہ اُس کے ایرانی پاسپورٹ پرعزیر بلوچ کے بجائے عبدالغنی ولد خدابخش تحریر ہے ۔ عزیر نے دبئی کی سرحد پر خود کو ایرانی شہری کہا ہے اور ایرانی پاسپورٹ پیش کیا ہے اس لیے عزیر بلوچ کو ایران حکومت کے حوالے کیے جانے کے امکانات زیادہ ہیں اور کراچی پولیس کو ''پکی پکائی ‘‘روٹی کھانے کے بجائے خود محنت کرنی پڑے گی ۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ عزیر بلوچ کا مقدمہ منفرد نوعیت کا ہے ، وہ بیک وقت دبئی ‘ ایران اور پاکستان کے حکام کو مطلوب ہے۔ دبئی حکومت امیگریشن قوانین کے تحت غلط نام ظاہر کرنے اور اس کام کے لیے نام تبدیل کرکے ایرانی پاسپورٹ پر دبئی آنے کا خطاکار ہے جبکہ ایرانی حکومت جعلی پاسپورٹ بنانے والے نیٹ ورک کو توڑنے کے لیے عزیر بلوچ کو مانگ رہی ہے اور پاکستان کے شہر کراچی کی پولیس نے عزیر بلوچ پر کئی مقدمات بنا رکھے ہیں اور اس کے سر کی قیمت بھی مقرر ہے۔ تینوں ممالک اسے سزا بھی دینا چاہتے ہیں لیکن ابھی تک یہ فیصلہ نہیں ہوسکا کہ پہلی باری دبئی کی ہوگی یا ایران کی ، پاکستان کا نمبر تو آخر میں ہی آئے گا۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں