سندھ ایک کے بعد دوسرے قحط کا سامنا کرنے پر مجبور ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ قحط نے سندھ کا راستہ دیکھ لیا ہے یا اسے زبردستی یہ راستہ دکھایا جارہا ہے ۔تھر کا قحط ختم نہیں ہوا کہ چینی کا بحران دہانے پر کھڑا ہے۔۔۔۔۔ لگتا ہے کہ جلد ہی سندھ بھر میں چینی کا قحط پڑ جائے گا کیونکہ یکم نومبر 2014ء سے گنے کی کرشنگ کا کام شروع ہونا تھا تاکہ چینی کی تیاری اورمارکیٹوں میں سپلائی کی جاسکے ،لیکن ''شوگر ملزمافیا‘‘ نے گنا سرکاری نرخ 182روپے فی من کے حساب سے خریدنے سے انکار کردیا اور کہا کہ ہم صرف 150روپے فی من کے حساب سے گنا خریدیں گے ۔ ابھی اُن کے خلاف دبائو بڑھایا جا رہا تھا کہ تمام ملز مالکان نے شکر سازی کے کارخانے بند کرنے کا اعلان کردیا اور آباد کاروں کو مالی نقصان کی طرف دھکیل دیا کیونکہ شکر سازی کے کارخانوں کی بندش سے وہ 29 لاکھ ٹن تیار گنے کی فصل اپنی آنکھوں کے سامنے تباہ ہوتی دیکھ رہے ہیںاوربڑے نقصان کا اندیشہ سرپر گِدھوں کی طرح منڈلا رہا ہے ۔گنے کی ''بے قصورفصل‘‘دو ماہ سے کٹائی کا انتظارکررہی ہے،عوام کو چینی نہیں مل رہی لیکن کیڑے گنے کو بھرپور''انجوائے‘‘کر کے چوس رہے ہیں ، تیار فصل سوکھ رہی ہے۔ سندھ میں چینی کاجو قحط خطرے کی گھنٹی بجا رہا ہے وہ اس وجہ سے بھی خطرناک ہے کہ سرحدوں کی تمیز ختم کرتے ہوئے یہ قحط اگر پنجاب میں بھی داخل ہو گیا تو پورا ملک ماضی کی طرح ایک بار پھر چینی کے بحران کی زد میں آجائے گا۔ پاکستانی تاجرتو ''بلیک مارکیٹنگ‘‘کے ماہرسمجھے جاتے ہیں،
اُنہیں چینی کی قلت کی پیش گوئی کی ہوا بھی لگ جائے تو ذخیرہ اندوزی شروع ہوجاتی ہے اورگوداموں میں چیونٹیاں اس وقت تک چینی کے مزے لیتی ہیں جب تک ریٹ نہیں بڑھ جاتے ۔ یہ ایک ایسی تباہی ہوتی ہے کہ ہزاروں ٹن مال گوداموں میںتو موجود ہوتا ہے لیکن عوام ایک کلوچینی کے لیے قطار میں کھڑے اپنی بے بسی پر روتے نظر آتے ہیں ۔ذخیرہ اندوز ریٹ بڑھنے کے انتظار میں مال کی سپلائی روک دیتا ہے اورملک بھرمیں خوشی کی تقریبات میں استعمال ہونے والی تمام اشیاء کے ریٹ آسمان کی بلندیوں تک پہنچ جاتے ہیں۔ حالت یہ ہوتی ہے کہ ایک کپ چائے،ایک گلاس شربت اورجمعرات کی جلیبیاں تک غریبوں کی پہنچ سے اُڑ کر ذخیرہ اندوزوں کی جیبوں میں چلی جاتی ہیں ۔ہمارے حکمرانوں کی حالت انقلاب ِفرانس کے دنوں کی خاتونِ اول سے مختلف نہیں جس نے محل کے باہر بھوکے عوام کے روٹی مانگنے کے جواب میں کہا تھا کہ ''ان لوگوں سے کہو شور نہ مچائیں، اگر روٹی نہیں ملتی تو کیک کھا لیں‘‘۔ ہمارے حکمرانوں کا ممکنہ جواب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ''پاکستان میں شوگر کے مریضوں کی تعداد 2کروڑ سے زائد ہے اور کُل مریضوں کا دس فیصد ہیں لہٰذا آپ چینی استعمال نہ کرکے ذیابیطس کے مرض سے بچ سکتے ہیں‘‘۔ اب اگردنیا میں گنا پیدا
کرنے والے چھٹے بڑے ملک کے باشندوں کو چینی بھی نہ ملے تو بے چارے ''پھیکے عوام‘‘ کہاں جائیں۔ سندھ کے مقابلے میں پنجاب کے لیے چینی کی ضرورت تین گنازیادہ ہوتی ہے۔ جس ملک میں 82شوگر ملیں سیاستدانوں کی ہوں وہاں چینی کا بحران سیاسی بحران کی طرح پیدا ہونا فطری عمل ہے۔ اگر پنجاب کی کُل پیداوار کی پندرہ فیصد چینی سندھ میں بھیج دی جائے تو پنجاب میں 20 روپے فی کلو چینی کے نرخ بڑھ سکتے ہیں۔
اب آئیے سندھ میں چینی کے بحران کا ایک جائزہ لیتے ہیں۔۔۔۔۔ سندھ میں چینی تیار کرنے کے32کارخانے کام کررہے ہیں جس میں سے17کارخانے آصف علی زرداری اور ان کے دوستوں کے ہیں۔ عام خیال یہ ہے کہ یہ 17کارخانے گنے کے نرخ میںاضافے کو روک رہے ہیں۔ جب حکومت اپنی ہو ،پولیس اپنی ہو، بدمعاش اپنے ہوں ، طاقت موجود ہو تو پھر کس کی مجال ہے کہ وہ گنے کی قیمت مقرر کرتا پھرے۔ سندھ میں گنے کی خریداری بند ہونے کا نتیجہ جلد سیاسی ایجی ٹیشن کی صورت میں نکل رہا ہے۔ حیدر آباد میں دو سابق وزرائے اعلیٰ نے مگسی ہاؤس میں ایک احتجاجی اجتماع منعقد کیا جس میں یہ مطالبہ کیا گیا کہ شوگر ملز سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کے مطابق 182 روپے فی من کے حساب سے گنا خریدیں لیکن یہاں ایک مسئلہ یہ پیدا کر دیا گیا کہ سندھ حکومت نے گنا خریدنے کے155 روپے کا نرخ نامہ نوٹیفکیشن کے ذریعے جاری کردیا۔ مگسی ہاؤس کے اجتماع میں کہا گیا کہ سندھ حکوت نے اس اعلان کے ذریعہ اپنے ''ڈیتھ وارنٹ‘‘ پر دستخط کر دیئے ہیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ وزیراعلیٰ صاحب شاید سندھ میں گنے کی بجائے بھنگ کی کاشت کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ اس اجلاس کی اہم ترین خصوصیت یہ تھی کہ سندھ کے دو سابق وزرائے اعلیٰ لیاقت جتوئی اور ارباب غلام رحیم کے علاوہ ایم کیو ایم کا ایک پانچ رکنی وفد بھی مدعو کیا گیا تھا جس کی قیادت غازی صلاح الدین نے کی جو ایک جوشیلے لیڈر ہیں اور سندھ کی سیاست کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ اجلاس میں سندھ میں پیپلزپارٹی کے خلاف اتحاد بنانے کا بھی اعلان کیا گیا، اسی لیے اس اجتماع میں نصرت سحر عباسی‘ ڈاکٹر قادر مگسی‘ راحیلہ مگسی‘ اورایاز لطیف پلیجو بھی شامل تھے جبکہ سندھ میں گنا پیدا کرنے والے ایک زرخیز علاقے سجاول میں سندھ آباد کار بورڈ نے ایک عوامی عدالت لگائی جو سجاول پریس کلب کے بے نظیر بھٹو آڈیٹوریم میں منعقد ہوئی اور اس میں دس سے زائد کاشت کار تنظیموں کے پانچ سو نمائندوں نے شرکت کی۔ عوامی عدالت نے فیصلہ کیا کہ گنے کی قیمت 182 روپے فی من مقرر نہ کی گئی تو پنجاب جانے والی قومی شاہراہ بند کردی جائے گی۔ سندھ چیمبر آف ایگریکلچرکے سیکرٹری جنرل نبی بخش سہتو نے کہا ہے کہ صوبائی سیکرٹری زراعت سندھ اور سندھ کین کمیشن پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ شوگر ملز بند کرنے والے کارخانوں کے خلاف مقدمات درج کریں۔ سندھ کی اس صورت حال نے زرعی معیشت سے وابستہ لاکھوں افراد کو ''گم سم‘‘ کررکھا ہے اور سندھ حکومت‘ انتظامیہ‘ سیاسی جماعتیں حقائق سے آنکھیں بند کرکے شتر مرغ کی طرح ریت میں منہ چھپا کر لاتعلق ہوگئے ہیں۔ فیض نے ٹھیک کہا تھا :
یہ فصل اُمیدوں کی ہمدم
اس بار بھی غارت جائے گی
سب محنت صبحوں‘ شاموں کی
اب کے بھی اکارت جائے گی
کھیتی کے کونوں‘ کھدروں میں
پھر اپنے لہو کی کھاد بھرو
پھر مٹی سینچو اشکوں سے
پھر اگلی رُت کی فکر کرو