اسلام آباد میں دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے قومی کانفرنس منعقد کی گئی جس میں پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن ‘ کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز‘ آل پاکستان نیوز پیپر سوسائٹی ‘ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس اور سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے شرکت کی۔ کانفرنس میں دہشت گردی کے خلاف قومی جنگ میں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے کردار کو مو ثربنانے کے لیے تجاویز کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس کی صدارت کی ذمہ داری وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی نے قبول کرلی تھی۔ چونکہ وزیر اعظم نے اپنے دورہ سعودی عرب میں ایک دن کی توسیع کردی تھی اس لیے کاروانِ زندگی کو رواں رکھنے کے فرائض انجام دیتے ہوئے چودھری نثار نے معاملات اور نظامت کے امورسنبھالے اور کہا کہ ہمیں میڈیا کے ساتھ مل کر دہشت گردوں کو یہ پیغام دینا ہے کہ ہم لڑنا جانتے ہیں۔ اجلاس کی خوبی یہ تھی کہ اِس میں اتنی سنجیدگی نظر نہیں آئی جس کا ملکی حالات تقاضا کرتے تھے۔چودھری نثار نے ابتدا میں کہا کہ دہشت گردوں کی خبروں کا بائیکاٹ کیا جائے، لیکن میڈیا کے ایک نمائندے نے سوال کر ڈالا کہ ''کیا خبر یا واقعہ غائب کردیں‘‘ تو جواباً انہوں نے کہا کہ ''اس طرح خبردی جائے کہ دہشت گرد جومقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں اُس میں کامیاب نہ ہوپائیں‘‘۔ چودھری نثار وہی باتیں دہراتے رہے جو اس سے پہلے کئی بار کر چکے ہیں ۔
اجلاس کا آغاز بغیر کسی تحریری ایجنڈے کے ہوا اور آخر تک یہ معلوم نہ ہوسکا کہ اس اجلاس سے ''پاکستان ‘‘کیا حاصل کرنا چاہتا ہے۔ کئی مندوبین تو یہ سرگوشی بھی کرتے رہے کہ '' اِس وقت پٹرول کی آگ میں پورا ملک جل رہا ہے ، اجلاس صرف دہشت گردی پر کیوں؟‘‘ چودھری نثار نے خوشنود علی خان (سابق صدرسی پی این ای)کی گفتگو کے جواب میں کہا: '' نہ تو میں ٹی وی دیکھتا ہوں اور نہ اخبار۔۔۔! آپ جو چاہے فرماتے رہیں‘‘۔ سب حیران بھی ہوئے کہ ایسے اجلاس کا کیا فائدہ جس کی صدارت کرنے والاخود ہی ٹی وی اور اخبار سے دور رہنے پر مجبور ہے، اُسے کیسے پتہ چلے گا کہ کونسا ٹی وی یا اخبار کس کی خبر کس طرح شائع یا نشر کررہا ہے اور یہ کیسی میڈیا کانفرنس تھی جس کی صدارت میڈیا سے دوررہنے والا شخص کررہا تھا؟ لیکن خوشنود علی خان نے بھی ایک جملے میں پورے میڈیا کی ترجمانی کرڈالی : '' وہ جانبدار صحافی ہیں ، مطلب پاکستان کی بقا اور سلامتی کے لیے جانبدار ہیںاور رہیں گے ‘‘۔ سب نے اُن کو سراہا اور اجلاس میں جان آگئی۔
پی بی اے (پاکستان براڈکاسٹرز ایسوسی ایشن )کے چیئرمین میر ابراہیم نے دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کے لیے حساس نوعیت کی اہم تجاویز دیں لیکن سیاستدان اِس اجلاس کو بحث مباحثہ میں تبدیل نہ کرسکے اور اجلاس باری باری تقاریر کے بعد اچانک اختتام پذیر ہو گیا۔ ویسے تو میڈیا میں اچانک کو ''بریکنگ نیوز‘‘ کہا جاتا ہے لیکن اجلاس کو ختم کرنے کی ''اچانک ‘‘خبر سامنے آئی کہ صدر ِاجلاس چودھری نثار کو ایک پرچہ لکھ کربھیجا گیا جس کے بعد چودھری نثار نے اجلاس کو طوالت سے بچانے کا یہ نسخہ بتایا، کیونکہ کچھ مندوبین کو واپس اپنے شہروں کو جانا ہے، کہیں ان کی فلائٹ نہ نکل جائے۔ اسی دوران دو سرکاری اہلکار باری باری ہر مندوب کے پاس آئے اور پوچھا کہ '' آپ کی فلائٹ کب ہے؟‘‘ اور تھوڑی ہی دیر میں کانفرنس روم ایئرپورٹ لائونج کا منظر پیش کرنے لگا۔۔۔۔ صرف ٹکٹ چیک کرنا باقی رہ گیا اور لگتا تھا کہ ابھی بورڈنگ پاس جاری ہونے والے ہیں۔اس صورت حال نے بے روح اجلاس کی بچی کھچی جان بھی نکال لی اور تقاریر کی گھن گرج کافی حد تک کم ہوگئی ۔۔۔۔ شرکا سامان سمیٹنے لگ گئے۔
میڈیا ایکشن پلان کے لیے منعقدہ اجلاس ختم ہوا توگفتگو کا آغاز ہوا۔ آف دی ریکارڈ (سچ) اور آن دی ریکارڈ (جھوٹ)۔۔۔۔ بات چیت کے پٹاخے بھی چل پڑے ۔ کچھ سرکاری افسران نے دائیں بائیں دیکھ کر وہ راز بھی اُگلے کہ ڈر لگنے لگا ہے کہ ہم کہاں جا رہے ہیں ؟ ہمیں کونسی قوتیں نوچنے اور دبوچنے کی تیاری کررہی ہیں ؟ کثیر سرمایہ خرچ کرکے بلائے جانے والے اس اجلاس میںنہ تو کسی بڑے پلان پر اتفاق ہوانہ کوئی انقلابی فیصلہ آیا، حسب معمول ایک کمیٹی ضرور بنادی گئی۔ سرکار نے پوری کوششیں کیں کہ پریس کے لیے نیا ضابطہ اخلاق بنایا جائے لیکن میڈیا کی تینوں نمائندہ تنظیموں نے وزیر اطلاعات کو اطلاع دی کہ میڈیا کو قومی امور میں ذمہ دار بنانے کے لیے کئی قوانین اور ضابطہ اخلاق موجود ہیں، مزید کسی قانون کو بنانے کی ضرورت نہیں۔ اس کے بعد سرکاری بنچ سے زیادہ بحث نہیں کی گئی۔ بعد میں حوالہ دے کر اسلام آباد کے ''پاور کوری ڈور‘‘ میں گردش کرنے والی افواہوں کو سچ کہا گیا اور بعض ذمہ دار اہلکاروں نے بھی اعتراف کیا کہ حکومت اب ''ویک‘‘ہوگئی ہے، اس حکومت کی طاقت ''وردی والوں‘‘کی طرف ہوگئی ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ برطانیہ نے اسٹیٹ گیسٹ کے ہم پلہ گارڈ آف آنر دے کر ''چیف صاحب‘‘کو ''سُپر پرائم منسٹر‘‘ تسلیم کرلیا ہے ، اب سویلین حکومت صرف نمائشی رہ گئی ہے ۔ بیشتر حکومتی پاورز '' دوسری طرف‘‘چلی گئی ہیں۔ کچھ نے یہ بھی کہا کہ سول مارشل لاء عملاً نافذ ہوچکاہے اور آنے والے دنوں میں عبوری سول/ قومی حکومت آئے گی جس کی پشت پراسٹیبلشمنٹ ہوگی۔ ذوالفقار علی بھٹو بھی تو سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر رہ چکے ہیں۔ ایک واقف کار نے کہا کہ ''شاید سینیٹ کا الیکشن نہ ہو سکے۔‘‘ ایسی افواہیں ہم نے تو ہر سینیٹ کے الیکشن کے موقع پر سنی ہیں لیکن آج تک کوئی صحیح ثابت نہیں ہوئی ۔ اسلام آباد کے ٹھنڈے موسم میں اِن گرم خبروں نے بڑی ہلچل مچارکھی ہے ۔ بہت سے لوگوں کو اِس موضوع میں دلچسپی ہے ، لیکن کوئی اشاروں میں بات کرتا ہے ، کوئی کھل کر کہتا ہے۔۔۔۔۔ کوئی ڈرتا ہے اور کوئی ڈراتا ہے، لیکن کسی کو بھی سمجھ نہیں آرہا کہ ایک با اختیار اور طاقتور ادارے کو انصاف فراہم کرنے والے ادارے سے کیوں لڑانے کی بات کی جارہی ہے؟ کیا ہمارا ملک اِسی طرح کے جھگڑوں کا شکار رہے گا؟ اس وقت پورا ملک حالت ِجنگ میں ہے اور اگر ہم اِن محاذوں پر بھی لڑ پڑے تو ہمارے قومی سطح کے اِس قدر مضبوط اتحاد کو بکھرنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی اور خدانخواستہ نقصان پورے ملک کا ہوگا۔ اسلام آباد میں ایک باخبر شخص نے کہا: ''اطلاعات یہی ہیں کہ دہشت گرد تخریب کاری کا بڑ ا پروگرام بنا رہے ہیں لیکن قوم کے اتحاد اور مسلح افواج کی چوکسی کی وجہ سے اُن کو ہمت نہیں ہورہی‘‘۔