قانون سازی کے وقت اپوزیشن اورحکومت کے مابین لین دین کوئی نئی بات نہیں اور جہاں معاملہ ایسا ہو جس میں اپوزیشن اور حکومت‘ دونوں ممکنہ قانون سازی کے متاثرین ہو سکتے ہوں‘ وہاں صورتحال مزید دلچسپ ہو جاتی ہے۔ نیب کے لیے ہونے والی قانون سازی کا بھی کچھ ایسا ہی مسئلہ ہے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں جماعتوں کے کیسز نیب میں موجود ہیں؛ اگرچہ کچھ کیسز پر ''حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ‘‘سا معاملہ ہے۔ حکومتی صفوں میں پرویز خٹک، غلام سرور خان، علیم خان اور حلیم عادل شیخ وغیرہ کے کیسز نیب کی میز پر موجود ہیں۔
حکومت اور اپوزیشن کے درمیان نیب ترامیم کو لے کر ڈیڈ لاک برقرارہے۔ اپوزیشن کا یہ الزام ہے کہ حکومت کی نیت درست نہیں اس لیے اپوزیشن کی جماعتوں بالخصوص مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی نے حکومت کی تجویز کردہ ترامیم کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ مجوزہ ترامیم کی رو سے نیب قوانین کا اطلاق کاروباری طبقے، سرکاری افسران کی جانب سے نیک نیتی پر مبنی اقدامات اور ضابطہ کار کی خلاف ورزیوں اور وفاقی یا صوبائی ٹیکس معاملات پر نہیں ہو گا۔ یعنی اس کا ہدف پبلک آفس ہولڈر (موجودہ یا سابقہ) سیاستدان ہوں گے؛ البتہ نیب ترمیمی آرڈیننس 2019ء میں اختیارات کے ناجائز استعمال کے جرم دفعہ 9(اے)(6) کی تعریف بدل کر اس جرم کا ثابت کرنا تقریباً ناممکن بنا دیا گیا تھا لیکن حالیہ مجوزہ بل میں اس سقم کو دور کرکے 'اختیارات کے ناجائز استعمال کو ثابت کرنے کے لیے 'اثاثوں میں آمدن سے زائد اضافے کو ثابت‘ کرنے کی اضافی شرط ختم کر دی گئی ہے۔ اب صر ف یہ ثابت کرنا کافی ہوگا کہ بالواسطہ یا بلاواسطہ مالی فائدہ اٹھایا گیا جو کہ عالمی قوانین کے عین مطابق ہے۔ نیب کے لیے لازم ہو گا کہ محض ضابطہ کار کی بے ضابطگی کی بنیاد پر سرکاری افسروں پر مقدمہ بنانے کے بجائے ان پر مالی فوائد کے حصول کے جرم کو ثابت کرے۔ اس مجوزہ ترمیم سے نیب کے بہت سے غیر ضروری مقدمات ختم ہونے کا امکان ہے لیکن ان مجوزہ ترامیم میں ایک اختلافی امر دفعات چھ، سات اور آٹھ میں ترامیم ہیں، جن کے مطابق احتسابی ادارے سے متعلق عہدوں پر اگلی مدت کے لیے 'توسیع پر پابندی‘ کو ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ نیب قوانین کے مطابق چیئرمین نیب، ڈپٹی چیئرمین نیب اور پراسیکیوٹر جنرل نیب کے عہدوں کی مقررہ میعاد بالترتیب چار سال اور تین سال متعین ہے، جس میں توسیع ممکن نہیں۔ اس مجوزہ ترمیم کو لے کر حزب اختلاف سخت نالاں ہے اور اس کا موقف ہے کہ 'سپریم کورٹ نے جس نیب چیئرمین کے حوالے سے فیصلے میں لکھا ہے کہ وہ سیاسی انجینئرنگ کر رہے ہیں‘ حکومت اس کی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے پر تول رہی ہے جو عدالتی فیصلے کی بھی توہین ہو گی۔ اسی شق کو لے کر اپوزیشن نیب ترمیمی بل کی زیادہ مخالف ہے کیونکہ موجودہ چیئرمین نیب کے دور میں جس طرح سے اپوزیشن رہنمائوں پر کیسز بنائے گئے اور انہیں قیدوبند میں رکھا گیا‘ اس کی ماضی میں کم مثال ملتی ہے۔ اس لئے اپوزیشن کی جانب سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ نیب کے ادارے کو آئین، قانون اور عدالتی فیصلوں سے ہم آہنگ کریں۔ اپوزیشن اس حکومتی مسودے کو تحریک انصاف کا اپنے لوگوں کے لیے این آر او قرار دے رہی ہے کہ ان ترامیم کے ذریعے حکومت اپنے وزرا اور مشیروں کو مالم جبہ جیسے بدعنوانی کے مقدمات سے بچانے کی کوششیں کر رہی ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق حکومتی مجوزہ ترمیمی بل کے ذریعے قانون کی ان متعلقہ شقوں سے 'ناقابل توسیع‘ کے الفاظ حذف کرکے اس مدت ملازمت کو توسیع دینے کے اختیار کی سفارش کی گئی ہے۔ یہ اقدام احتساب قانون کی منشا کے خلاف ہو گا جس سے ان عہدوں پر تعینات اشخاص کی غیر جانبداری متاثر ہو گی اور ان عہدوں پر موجود افراد مدت ملازمت میں توسیع کی فطری خواہش کی بنیاد پر اپنے فرائض منصبی کو آزادانہ انداز سے ادا کرنے سے قاصر رہیں گے۔ دنیا بھر میں ریگولیٹری اتھارٹیز تین بنیادی اصولوں یعنی خود مختاری، غیر جانبداری اور شفافیت کے اصول پر بنائی جاتی ہیں، لیکن اس شق کے اضافے سے اہم عہدوں پر براجمان افراد پر ذاتی مفاد اور حکومتی اثرودباؤ کے تاثر کو تقویت ملے گی۔ حکومتی مجوزہ ترامیم میں ان پہلوؤں پر قانون سازی کی کوشش نہیں کی گئی جو دراصل تشویش کا باعث ہیں۔ ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ ریفرنس دائر کرنے سے متعلق بھی وضاحت درکار ہے کہ اس کی منظوری کس فورم پر لینا مناسب ہے اور کس طرح کے معیار کے بعد ریفرنس دائر کیا جا سکتا ہے۔ حکومت کے مجوزہ مسودے کے تحت چیئرمین اب بھی نیب قانون کے سیکشن 24 کے تحت سیاستدانوں کو جیل بھیج سکیں گے۔ نیب کی کارکردگی بڑھانے کیلئے حکومت کو سپریم کورٹ کی جانب سے دیئے گئے احکامات پر عملدرآمد ضروری بنانا ہو گا۔ 120 نئی عدالتوں کا قیام اور مقدمات کو جلد از جلد نمٹانے کی صلاحیت میں اضافہ خصوصی اہمیت رکھتا ہے۔ ماہرین قانون کے مطابق حزب اختلاف کی اس رائے میں وزن ہے کہ جب سنگین جرائم میں صرف 14 دن تک کا ریمانڈ ہوتا ہے تو پھر نیب کے مقدمت میں ملزمان کو 90 دن کا ریمانڈ کیوں دیا جاتا ہے۔ اس مدت کو جہاں کم کرنے کی ضرورت ہے وہیں نیب عدالتوں کو یہ اختیارات دینے کی ضرورت ہے کہ وہ خود ضمانت دے سکیں تاکہ عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ نہ بڑھے۔ اسی ضمن میں کچھ روز قبل سپریم کورٹ میں چیئرمین نیب نے اپنے جمع کروائے گئے جواب میں کہا کہ احتساب میں تاخیر کا ذمہ دار عدالتی نظام ہے۔ عدالتیں نیب قانون کے بجائے ضابطہ فوجداری پر عمل کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 30 روز میں کرپشن مقدمات کا فیصلہ ممکن نہیں۔ خود سپریم کورٹ نے خواجہ سعد رفیق اور خواجہ سلمان رفیق کے مقدمے میں نیب عدالتوں کے ضمانت جیسے اختیارات پر بات کی ہے۔ اس سے قبل متعدد مقدمات میں عدالتیں اس سقم پر بات کر چکی ہیں کہ آخر نیب مقدمات میں ضمانت کا اختیار احتساب عدالتوں کو کیوں نہیں دیا جاتا۔ گرفتاری کے لامحدود اختیارات اور پھر ضمانت کا مناسب قانون نہ ہونے کے باعث اس عمل سے انسانی حقوق، شہریوں کی آزادی اور عزت نفس مجروح ہونے کا اندیشہ بڑھ جاتا ہے۔ اسی طرح بہت سے مقدمات میں اعلیٰ عدلیہ نے نیب کے اس اختیار پر بھی سوال اٹھائے کہ نیب کس قسم اور کتنی مالیت کے کیسوں کی تحقیقات کر سکتا ہے اور اس حوالے سے واضح ہدایات بھی دیں کہ نیب صرف میگا کرپشن کے مقدمات کی چھان بین کے لیے بنایا گیا ہے۔ ایک اور معاملہ پلی بارگین کا ہے جس میں دس ارب کی کرپشن کرنے والا دو ارب دے کر کلین چٹ حاصل کر لیتا ہے۔ نیب کی تحقیق و تفتیش کے معیار کو بہتر بنانے اور مقدمات کے جلد فیصلوں کے لیے قابل عمل طریقہ کار وضع کرنے کے بارے میں سپریم کورٹ کی جانب سے تحفظات کا بارہا اظہار کیا گیا، لیکن واضح ہدایات کے باوجود حکومت نے کسی سقم کو دور کرنے کی کوئی تجویز پیش نہیں کی بلکہ بادی النظر میں یہ عندیہ دیا ہے کہ غیر قانونی گرفتاریوں اور یکطرفہ احتساب کا عمل جاری رہے گا جو غیر سنجیدہ حکومتی رویے کا عکاس ہے۔
لگتا یہ ہے کہ حکمران کوئی ایسی قانون سازی نہیں کریں گے جس سے نیب سیاستدانوں کے اثر سے نکل جائے اور جو آج اپوزیشن کے ساتھ ہو رہا ہے وہ کل ان کے ساتھ بھی ہو۔ سو ابھی دھواں دھار پریس کانفرنسز ہوں گی‘ آستینیں چڑھائی جائیں گی مکے دکھائے جائیں گے لیکن پھر قانون وہی ہوگا جو دونوں جماعتوں کے ماضی اور مستقبل کے لئے باد صبا ثابت ہو کیونکہ ایک آزاد خود مختار احتسابی ادارہ حکومت اور اپوزیشن‘ دونوں کو'وارا نہیں کھاتا‘۔