لاہور سیالکوٹ موٹروے پر ڈکیتی اور گینگ ریپ کی واردات نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ زیادہ تر لوگ اسے سانحہ سیالکوٹ موٹر وے کے نام سے پکار رہے ہیں، لیکن تکنیکی اعتبار سے یہ لاہور کے تھانہ گجر پورہ کی حدود میں پیش آنے والا اندوہناک سانحہ ہے۔ واقعے کی تفصیلات پوری قوم جان چکی ہے کہ کس طرح ایک تنہا عورت سے اس کے بچوں کے سامنے ریپ کیا گیا اور تمام عمرکے لئے پورے خاندان کو ایک ایسے ذہنی کرب اور اذیت کے صحرا میں تڑپنے کے لئے چھوڑ دیا گیا جو ان درندوں کو سخت سزائیں دینے اور عبرت کا نشان بنانے سے بھی ختم نہیں ہو گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ دردناک واقعہ ہمارے معاشرے میں پہلی بار وقوع پذیر ہوا ہے؟ کیا ہم ننھی زینب کا غم بھلا پائے ہیں؟ اس وقت بھی ہم نے ایسا ہی واویلا کیا تھا‘ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم بہت جلدی سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ ننھی زینب اور ایسی کئی معصوم بچیوں کے قاتل کو تو ہم نے سزا دلوا دی‘ لیکن اس حوالے سے جو قانون سازی ہوئی وہ صرف اسلام آباد تک ہی کیوں محدود ہے؟ سندھ کو چھوڑ کر باقی تین صوبوں میں تحریک انصاف کی حکومت ہے تو پھر ان صوبوں میں زینب الرٹ بل پر ایمرجنسی بنیادوں پر قانون سازی کی کوشش کیوں نہیں کی گئی؟ صوبہ پنجاب میں بچوں سے زیادتی کے واقعات کی روک تھام کیلئے پارلیمنٹ میں زینب الرٹ بل کی منظوری کے 6 ماہ بعد بھی پنجاب میں اس پر قانون سازی نہیں کی جا سکی، صوبائی حکومت نے مرکزی قانون سازی کو کافی سمجھ کر صوبے کی سطح پر قانون سازی کا عمل شروع ہی نہیں کیا۔ پنجاب کی وزارت قانون اس بات پر اکتفا کئے بیٹھی ہے کہ کریمنل لاز کنکرنٹ لسٹ میں آتے ہیں اور آئین کے آرٹیکل 142 کے تحت مرکزی حکومت اپنا کوئی بھی قانون تمام صوبوں میں ازخود لاگو کر سکتی ہے‘ اس لئے وفاقی حکومت کے اس صوابدیدی اختیار کے پیش نظر پنجاب میں محکمہ قانون نے اس پر قانون سازی روک دی تھی۔ اب یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ وفاق اس صوابدیدی اختیار کا استعمال کب کرے گا کیونکہ پنجاب میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے سنگین واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ تبدیلی کی علامت خیبر پختونخوا حکومت باتوں سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ صوبائی اسمبلی میں پاس ہونے والے چائلڈ پروٹیکشن اینڈ سوشل ویلفیئر بل میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات پر سزائوں میں ترامیم کے حوالے سے قائمہ کمیٹی کو بل کا ترمیمی ڈرافت بھی تیار کرنے کی ہدایت کی گئی تھی، لیکن معاملہ زبانی تجاویز سے آگے نہیں گیا اور اب تک ڈرافٹ تیار نہیں ہو سکا۔ یہ ہے کے پی حکومت کی سنجیدگی کا عالم۔ اور یہی حال بلوچستان حکومت کا ہے جسے شاید اس معاملے میں کوئی دلچسپی ہی نہیں۔ اور 18ویں ترمیم پر اپنا سب کچھ وارنے والی سندھ حکومت کے پاس تو شاید وقت ہی نہیں کہ وہ ان خرافات میں پڑے۔ پاکستان تحریک انصاف کی رکن سندھ اسمبلی رابعہ اظفر نظامی نے بچوں کو جنسی تشدد سے بچانے کے لیے تیار کیے جانے والے زینب الرٹ بل کا مسودہ رواں برس 22 جنوری کو سندھ اسمبلی میں جمع کرایا، مسودے پر پرائیویٹ ممبر ڈے پر بات ہونا تھی‘ لیکن کورونا کے بعد کسی بھی اسمبلی اجلاس میں اب تک نوبت نہیں آئی کہ اس 'غیر اہم‘ بل پر بات کی جائے کیونکہ دیگر کئی اہم ایشوز پر سندھ حکومت اور اپوزیشن کے لڑائی جھگڑے اتنے زیادہ اہم ہیں کہ زینب الرٹ بل غالباً پہلی ترجیح نہیں رہا۔ سانحہ سیالکوٹ موٹروے کے بعد اب ایک بار پھر ریپ اور گینگ ریپ کے مجرموں کو سخت سزائیں دینے کی بات کی جا رہی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے قانون سازی کا عندیہ دیا ہے۔ اس حوالے سے گینگ ریپ کے مجرموں کی مردانہ صلاحیت کو ختم کرنے اور سرعام پھانسی دینے کی تجاویز سامنے آئی ہیں۔ اس بارے میں شرعی، قانونی اور ہماری سوسائٹی کا رد عمل کیا ہوگا یہ تو علم نہیں لیکن سرعام پھانسی کے مشورے پر پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے کہہ دیا ہے کہ ان کی پارٹی ریپ یا گینگ ریپ کے مجرموں کی سرعام پھانسی کے خلاف ہے۔ ان کی منطق تھی کہ ایسا ضیا دور میں کیا گیا‘ لیکن ایسا کرنے سے واقعات میں کمی نہیں ہوئی تھی؛ البتہ دوسری تجویز پر ان کی طرف سے کوئی بیان نہیں آیا۔
بچوں سے زیادتی، خواتین کے ساتھ زنا بالجبر یا اجتماعی زیادتی پر کئی ممالک میں نہ صرف نامرد کرنے اور موت کی سزائیں موجود ہیں بلکہ ان پر عمل درآمد بھی کیا جاتا ہے۔ 2010ء میں آسٹریلیا میں بچوں کو جنسی ہراساں کرنے اور ان کے ساتھ زیادتی کے مرتکب مجرم کو نامرد بنانے کی سزا سنائی گئی تھی۔ انڈونیشیا کی پارلیمنٹ نے اکتوبر 2016ء میں بچوں سے جنسی زیادتی کرنے والوں کی کیمیائی تھراپی کے ذریعے جنسی خواہش ختم یا کم کرنے کی سزا کا قانون منظور کیا تھا۔ جمہوریہ چیک ری پبلک میں جنسی مجرموں کو سرجیکل کاسٹریشن کی سزا کا قانون 1966ء سے لاگو ہے۔ یوکرائن کی پارلیمنٹ نے جولائی 2019ء میں زیادتی کے کرنے والوں کو کیمیائی طور پر جنسی صلاحیت سے محروم کرنے کا قانون منظور کیا تھا۔ سعودی عرب میں زیادتی کرنے والے کا سر سرِعام قلم کرنے کی سزا ہے۔ چین میں عصمت دری کرنے والوں کے اعضا کاٹنے اور موت کی سزا دی جاتی ہے۔ ایران میں سرعام پھانسی یا گولی مار دی جاتی ہے۔ 2010ء سے پولینڈ میں 15 سال سے کم عمر بچوں سے زیادتی کے مجرموں کو قید کے ساتھ نامرد بنانے کی سزا بھی دی جاتی ہے۔ اسی طرح برطانیہ، مالدووا، ایسٹونیا میں نامرد کرنے کے قوانین پر عملدرآمد کیا گیا۔ امریکی ریاست کیلیفورنیا میں سب سے پہلے بچوں سے زیادتی کرنے والے عادی مجرموں کو قید کے بجائے نامرد بنانے کا قانون منظور کیا گیا تھا۔ کیلیفورنیا کے بعد 7 دیگر ریاستوں نے بھی ایسا ہی قانون منظور کیا۔ روسی پارلیمنٹ نے 2011ء میں 14 سال سے کم عمر بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنانے والے مجرموں کے لئے نامرد بنانے کی سزا کی منظوری دی تھی۔ 2011ء میں جنوبی کوریا میں ایک قانون منظور کیا گیا جس کے تحت ججوں کو اختیار دیا گیا کہ وہ 16 سال سے کم عمر بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنانے والے مجرموں کو نامرد بنانے کی سزا دے سکیں گے اور بعد میں یہ سزا ہر قسم کی زیادتی کے جرائم کیلئے منظور کی گئی۔ شمالی کوریا میں زیادتی کے مجرموں کو فائرنگ سکواڈ کے ذریعے سزائے موت دی جاتی ہے۔ افغانستان میں مجرم کو 4 دن کے اندر سر میں گولی مار دی جاتی ہے جبکہ مصر میں پھانسی دے دی جاتی ہے‘ لیکن یہاں مسئلہ صرف سزائیں مقرر کرنے سے حل نہیں ہوتا۔ پاکستان میں مجرموں کو ان سزاؤں تک پہنچانے کیلئے تفتیش کا عمل اتنا کمزور ہے کہ مجرم سزا سے صاف بچ نکلتے ہیں۔ اس کی بڑی مثال ریپ کیسز میں انصاف کے لئے دھکے کھاتی خواتین ہیں‘ جنہیں انصاف نہیں ملتا۔ پہلے تو 50 فیصد سے زائد کیسز رپورٹ ہی نہیں ہوتے اور جو رپورٹ ہوتے ہیں ان پر ہمارے تھانہ کلچر میں خواتین اور ان کے ورثا پر صلح کے لیے دباؤ ڈالا جاتا ہے تاکہ معاملہ رفع دفع کیا جا سکے۔ اگر کوئی سخت قانون منظور کرا بھی لیا جائے تو کیا پولیس کلچر کو تبدیل کیا جا سکے گا؟
وفاقی وزیر فواد چودھری‘ جو پیشہ کے لحاظ سے ایک ماہر قانون ہیں‘ نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوے کہا ''پاکستان میں مسئلہ سزا کا موجود ہونا نہیں، بروقت انصاف نہ ملنا ہے صرف 5 فیصد کیسز میں سزا ہوتی ہے‘ وقت کی ضرورت ہے کہ نظام عدل یعنی کریمنل جسٹس سسٹم میں اصلاحات ہوں جس میں چار چیزیں شامل ہیں: پولیس، میڈیکل‘ عدالت، جیل‘‘۔ فواد چودھری نے یہ نشاندہی تو کر دی لیکن کیا یہ اچھا ہوتا کہ وہ قوم کو یہ بھی بتا دیتے کہ یہ قانون سازی یا اصلاحات خود انہوں نے اور ان کی حکومت نے ہی کرنا ہیں، عوام بیچارے تو 72 سالوں سے اصلاحات کے منتظر ہیں۔