اپوزیشن کی تحریک نے دھیرے دھیرے انگڑائی لینا شروع کر دی ہے۔ اگلا ویک اینڈ حکومت کے لئے کافی چیلنجنگ ہو گا؛ چنانچہ حکومت نے ابھی سے اینٹی اپوزیشن کمپین شروع کر دی ہے اور ہر لیول سے کائونٹر سٹریٹیجی فعال ہوتی نظر آ رہی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان بذات خود میدانِ عمل میں اتر چکے ہیں۔ اسلام آباد کنونشن سنٹر میں انصاف لائرز فورم سے ان کا جارحانہ خطاب اور اپوزیشن دور کی پرانی ٹون کے ساتھ مخالفوں کو للکارنے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ وزیر اعظم کی اس تقریر سے قبل سکرین پر وہ بڑے بڑے جلسے بھی دکھائے گئے جن میں عمران خان عوام کے دکھ درد اور اپوزیشن کی کرپشن کے بیانیے کو لے کر تقریریں کرتے تھے۔ جب پاکستان کے عوام کو یہ بتایا جاتا تھا کہ ان کے مسائل کی اصل جڑ یہ حکمران (موجودہ اپوزیشن) ہیں۔ ان کی لوٹ مار کی وجہ سے عام آدمی پر زندگی کا دائرہ تنگ ہو چکا ہے۔ ایسے میں سول نا فرمانی کی تحریک، تھرڈ امپائر کی آشیرباد، مذہب کارڈ، سیاسی لاک ڈائون، استعفے، پی ٹی وی اور دوسری سرکاری عمارتوں پر حملے، الیکشن چرانے کی باتیں، دھرنے، جلسوں، ریلیوں سمیت کیا کچھ نہیں کیا گیا۔ اس سب کا ایک ہی محور و مقصد تھا، عوام کی رائے بدلنا‘ خود کو ایک نجات دہندہ کے طور پر پیش کرنا، ایک ایسے انقلابی کے طور پر جو آئے گا تو سب کچھ بدل جائے گا۔ اس کے نتیجے میں مافیاز سے نجات ملے گی اور وسائل عام آدمی کی دسترس میں ہوں گے‘ لیکن پھر لوگوں نے دیکھا کہ 22 برس پہلے عمران خان نے جن حلقوں کے خلاف جدوجہد شروع کی، مسند اقتدار تک پہنچنے کے لئے دھیرے دھیرے ان سے ہاتھ ملاتے گئے۔ انہیں ایک بات سمجھ میں آ چکی تھی کہ عوامی سیاست اور اقتدار کی سیاست الگ الگ کھیل ہیں۔ عوامی سیاست کا راستہ لمبا ہو یا چھوٹا، مسندِ اقتدار مقتدر حلقوں سے ہاتھ ملا کر ہی ملتی ہے۔ اسی لئے کل مِلا کر اس کھیل کو ''پاور پالیٹکس‘‘کہا جاتا ہے۔ اب جیسے ہی اپوزیشن نے متحدہ جھنڈ بنا کر حکومت کو للکارنا شروع کیا تو پاور کوریڈور میں بیٹھے ہوئوں کو ایک بار پھر عوام کی یاد ستانے لگی ۔ پچھلے دو برسوں میں تبدیلی کے نام پر عوام کو بے روزگاری، مہنگائی، عدم تحفظ اور مایوسی میں اضافے کے تحفے دینے کے بعد یہ یاد بڑی بے معنی سی ہو کر رہ گئی ہے۔ عوام کی ایسی ہی یاد اپوزیشن کو بھی بہت ستا رہی ہے۔ افسوس 3 دہائیوں سے زائد اقتدار میں رہنے والی مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور ان کے موجودہ اتحادی عوامی مسائل کا حل اور لوگوں کے درد کا درماں نہ کر سکے۔ ماضی میں حکومت اور اپوزیشن کے ''اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے‘‘ کے کھیل میں عوام کی حیثیت خاموش تماشائی کی سی تھی بلکہ اب بھی ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ آج حکومت اور فوج ایک پیج پر ہیں۔ لندن میں بیٹھے میاں نواز شریف صاحب کو اچانک یاد آیا ہے کہ حکومت کی طے کردہ مزدور کی کم از کم تنخواہ یعنی ساڑھے 17 ہزار روپے میں زندگی گزارنا بہت مشکل ہے۔ ایک عام آدمی کس طرح بجلی گیس کے بل پورے کرے؟ کیسے اپنے بچوں کو تعلیم دلائے؟ کیسے گھر کا کچن چلائے اور کیسے مکان کا کرایہ دے؟ کروڑوں روپے کی گاڑیوں میں گھومنے اور اربوں روپے کے گھروں میں رہنے والوں کو عوام کی یاد تبھی ستاتی ہے جب وہ خود مشکل میں ہوتے ہیں۔ 50 برس پہلے روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آنے والی پیپلز پارٹی کے سندھ کی حالت عدالتِ عظمیٰ سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ بھوک سے ایڑیاں رگڑتے، بنا چھت کے تپتی دھوپ میں جھلستے عوام کے پاس تن ڈھانپنے کے وسائل تو درکنار پینے کا صاف پانی تک بھی میسر نہیں‘ لیکن منرل واٹر کا گھونٹ بھر کر نعرہ مستانہ بلند ہوتا ہے ''مرسوں مرسوں سندھ نا ڈیوسوں‘‘۔ لندن، دبئی میں جائیدادوں اور اربوں کے اکائونٹس رکھنے والے حکمران بھوک کا درد کیسے سمجھ سکتے ہیں؟ مجھے اس بادشاہ کے وزیر کا قصہ یاد آ گیا جس کا کام صرف بادشاہ کو خوش رکھنا اور اس کی ہاں میں ہاں ملانا تھا۔ جب بھی بادشاہ وزیر سے عوام کے متعلق سوال کرتا، ان کا حال احوال پوچھتا تو وہ کہتا حضور کی کرم نوازی ہے عوام آپ کو دعائیں دیتے ہیں، خوشحال ہیں کھانے پینے کو خوب میسّر ہے کاروبار ٹھیک ٹھاک چل رہے ہیں اس لئے خزانے میں بھی خوب پیسے جمع ہو رہے ہیں، جبکہ حقیقت حال بڑی مختلف تھی جبری ٹیکسوں اور کاروبار کی غیر موزوں صورتحال سے عوام تنگ تھے، نا کام زرعی پالیسیوں کی وجہ سے کسان بد حال تھے، لوگ بے روزگاری، بھوک اور مہنگائی کے ہاتھوں تنگ تھے۔ ایک دن بادشاہ کو خیال آیا کہ وزیر کی رپورٹس کو چیک کیا جائے لہٰذا بادشاہ بھیس بدل کر عوام کا حال معلوم کرنے نکلا تو پتہ چلا کہ لوگوں کا تو نہایت برا حال ہے، کاروبار تباہ حال ہیں، کھیتیاں اجڑ چکی ہیں، ٹیکسوں کی بھرمار ہے‘ لوگ بادشاہ کو کوستے ہیں۔ بادشاہ کو بڑا رنج ہوا۔ اس نے وزیر کو طلب کیا اور اپنا سوال دہرایا، وزیر نے پرانا رٹا رٹایا قصہ سنا دیا۔ بادشاہ کو بہت غصہ آیا اس نے وزیر کو جیل میں ڈال دیا۔ سخت موسموں، بھوک اور قید نے کچھ عرصے میں ہی وزیر کا حلیہ بدل دیا۔ ایک دن بادشاہ کو خیال آیا کہ معتوب وزیر کا احوال معلوم کیا جائے تو اس کو طلب کیا اور پوچھا: سناؤ کیا حال ہیں تمہارے اور عوام کے تو سابق وزیر روتے ہوئے بولا: حضور عوام بڑے برے حال میں ہیں‘ پہننے کو ہے نہ کھانے کو کچھ ہے، رحم کیا جائے۔
ہمارے حکمرانوں کو بھی عوام کا درد شاید تبھی یاد آتا ہے جب وہ خود مشکل میں ہوتے ہیں۔ اس لئے متحدہ اپوزیشن نے وہ تمام حربے آزمانے کا فیصلہ کیا ہے جو انہیں جیل کی سلاخوں سے اقتدار کے ایوانوں تک رسائی دلا سکیں۔ اس لئے اسٹیبلشمنٹ کو اصل قصور وار قرار دینے کے بعد اب حکومتی پالیسیوں پر تنقید اور وزیر اعظم کی وکٹ گرانے کی پالیسی بھی ترتیب دی جا رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کی انٹری بھی ہو چکی ہے۔ نواز شریف کی 20 ستمبر کی تقریر سے لے کر اب تک اپوزیشن رہنماؤں کے بیانات کا تجزیہ کریں تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے جیسے تحریک آگے بڑھ رہی ہے ویسے ویسے اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے سے پسپائی کا عمل بھی شروع ہو چکا ہے۔ نواز شریف کے ''ہماری لڑائی عمران خان سے نہیں بلکہ ان کو لانے والوں سے ہے‘‘ سے لے کر ''اب حکومت نا اہل اور نا کام ہے ہم انہیں گھر بھیج کے رہیں گے اور ہمیں اپنی فوج سے پیار ہے‘‘ تک جبکہ مولانا کے ''اگر ہمیں چھیڑا گیا تو جو حال امریکی فوج کا افغانستان میں کیا گیا وہی حال ہم تمہارا کریں گے‘‘ سے لے کر ''ہمیں فوج اور اس کی لیڈرشپ سے کوئی مسئلہ نہیں ہے‘‘ تک کے بیانات اس پسپائی کی مثالیں ہیں۔ پیپلز پارٹی بھی اینٹ سے اینٹ بجانے کے بیان کے بعد سے کچھ محتاط ہے‘ لہٰذا آنے والے دنوں میں اپوزیشن کی تحریک کا رخ بتدریج حکومت گرانے کی پالیسی پر ہو گا‘ جو پہلے مرحلے میں بھرپور اصلی عوامی حمایت کے بغیر ناممکن ہے لہٰذا اس وقت فیصلہ کن طاقت ایک بار پھر عوام ہیں۔ اس لئے حکومت اور عوام دونوں ہی یہ کہتے نظر آئیں گے: حضور عوام بڑے برے حال میں ہیں رحم کیا جائے!!