"IYC" (space) message & send to 7575

ریڈ لائن!!

26 فروری 2019ء کو رات کی تاریکی میں بھارت نے پاکستان پر سرجیکل سٹرائیک کے نام پر بزدلانہ کارروائی کی فضائی کوشش کی۔ کسی ہدف اور نشانے کے بجائے پاکستان کے معصوم عوام نشانے پر تھے۔ پاک فضائیہ کے چوکس ہونے کے باعث بھارتی طیارے بد حواسی میں بالا کوٹ کے مقام پر اپنا بارود درختوں میں ہی پھینک کر چلے گئے۔ بھارتی میڈیا نے اس بزدلانہ کارروائی کو لے کر سرجیکل سٹرائیک کا راگ الاپنا شروع کر دیا۔ پورا بھارت جنگی جنون میں مبتلا دکھائی دیا۔ اس کو پاکستان کے خلاف بھارت کی بڑی کارروائی قرار دیا گیا۔ لیکن پاکستان نہ تو گھبرایا نہ پریشان ہوا کیونکہ ہم جانتے تھے کہ اصل میں بھارت گھبرایا ہوا ہے اور دشمن کتنا بزدل ہے۔ اسی لئے اس وقت کے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور انٹرنیشنل اور نیشنل میڈیا کو اس مقام پر لے گئے جہاں بھارتی طیارے، پاک فضائیہ کے خوف سے اپنا پے لوڈ پھینک کر فرار ہو گئے تھے۔ یوں بھارتی میڈیا کے بیانیے سے ہوا نکل گئی۔ اگلے ہی روز 2 بھارتیمگ 21 طیاروں نے آزاد کشمیر میں داخل ہونے کی کوشش کی۔ پاکستانی جے ایف تھنڈر پہلے سے تیار تھے۔ سکواڈرن لیڈر حسن محمود صدیقی اور ونگ کمانڈر نعمان علی خان نے بھارتی طیاروں کو انگیج کیا اور دونوں کو مار گرایا۔ ایک طیارہ بھارتی حدود میں جا گرا جبکہ ایک طیارہ پاکستان میں گرا، بوکھلاہٹ میں بھارت نے اپنا ایک ہیلی کاپٹر خود مار گرایا۔ بھارتی پائلٹ ونگ کمانڈر ابھی نندن کو پاکستان کے عوام نے پکڑ لیا۔ پاک فوج کے جوانوں نے ابھی نندن کو عوام کے نرغے سے نکالا اور گرفتار کر لیا۔ بھارتی نیچ عزائم کے باوجود پاک فوج نے ابھی نندن کے ساتھ بین الاقوامی معاہدوں کے تحت جنگی قیدی جیسا سلوک کیا۔ دنیا نے پاکستان کی فتح کا نظارہ اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ اس کی فوج کتنی پروفیشنل ہے۔ بھارت کی ساری گیدڑ بھبھکیاں نکل چکیں تھیں۔ پورے بھارت میں سراسیمگی کا عالم تھا۔ حالت یہ تھی کہ کاٹو تو لہو نہیں۔ پھر پوری دنیا نے دیکھا کہ ابھی نندن پاکستان میں چائے پی رہا ہے اور چائے کی تعریف بھی کر رہا ہے۔ مودی سرکار اپنے عوام کے سامنے گھٹنوں کے بل آ چکی تھی۔ سوشل میڈیا پر طوفان برپا تھا۔ پاکستانی فتح اور خوشی کے شادیانے بجا رہے تھے۔ یہ وہ لمحہ تھا جب ہم نے فیصلہ کرنا تھا کہ ہم ایک مغرور ریاست کے طور پر برتائو کریں گے یا پھر ایک ذمہ دار ریاست کا رویہ اختیار کریں گے۔ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت سر جوڑ کر بیٹھی، حکومت نے اپوزیشن کو بھی مشاورت میں شامل کیا۔ جب پوری دنیا نے پاکستان کی واضح فتح کو دیکھ لیا بلکہ تسلیم بھی کر لیا تو فیصلہ یہ کیا گیا کہ ریاست پاکستان ایک ہوش مند اور ذمہ دار ریاست کے طور پر خطے کے امن کو ترجیح دے گی۔ اس وقت کے ڈی جی آئی ایس پی آر بتا چکے تھے کہ پاکستان بھارت کے برعکس کن کن عسکری اہداف کو نشانے پر لے چکا ہے اور کسی بھی جارحیت کی صورت میں بھارت کو کتنا نقصان ہو گا۔ پاکستان ایٹمی جنگ کے آخری آپشن کے لئے بھی تیار تھا۔ تحریک انصاف کی سیاسی حکومت کو فوج کی پوری سپورٹ اور حمایت حاصل تھی۔ پوری قوم کے حوصلے بلند تھے۔ پاکستان کا بچہ بچہ جذبۂ ایمانی سے سرشار تھا۔ لہٰذا ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر ابھی نندن کو واپس کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ پوری دنیا اس خوف میں مبتلا تھی کہ دو ایٹمی طاقتوں کے ٹکرائو کے بعد کیا یہ جنگ صرف بر صغیر تک محدود رہے گی؟
پاکستان کے ہوش مندانہ فیصلے نے پوری دنیا کو سکھ کا سانس دیا۔ تمام عالم نے پاکستان کے حوصلے اور بردباری کی داد دی۔ بھارت اپنی شرمناک شکست کے زخم چاٹنے پر مجبور تھا۔ مودی بھارتی قوم کے سامنے شرمندہ کھسیانی بلی بن چکا تھا۔ بھارت کا جنگی بیانیہ دم توڑ گیا‘ پاکستان کی سبقت اور صلاحیت بدرجہ اتم ٹھہری۔ لیکن یکایک کیا ہوا کہ ہماری اپنی ہی صفوں سے ایک خود کش حملہ ہوا۔ تاریخ مسخ کرنے کی کوشش کی گئی۔ مسلم لیگ ن کی قیادت سیاسی لڑائی میں اس قدر آگے نکل گئی کہ قومی حمیت اور غیرت کو قربان کرنے کی ٹھان لی گئی۔ مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کا بیانیہ اب ان کی جماعت کی جانب سے ریاست مخالف بیانیے میں تبدیلی ہو رہا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ سیاسی لڑائی میں ریاستی ریڈ لائن عبور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مسلم لیگ ن کے ایم این اے اور سابق سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق، جن کے بارے میں عمومی تاثر یہی ہے کہ وہ ایک ذمہ دار اور معاملہ فہم شخص ہیں‘ کی جانب سے قومی اسمبلی کے فلور پر ایک ایسا بیان دیا گیا جس نے مردہ بھارتی جنگی بیانیے میں نئی روح پھونک دی‘ مودی کی سیاست کو ایک نئی زندگی عطا کر دی۔ سب سے پہلے تو ایک ان کیمرہ اجلاس جس میں قومی معاملے پر بات کی گئی ایک قومی راز کا درجہ رکھتا ہے کہ اس میں کیا بات کی گئی، معاملے کے کن دیگر آپشنز پر غور کیا گیا۔ ماسوائے اس کے کہ جو قومی فیصلہ ہوا اور اس کو سامنے لایا گیا۔ اس اجلاس کی اندرونی باتیں باہر لانا آئین کے آرٹیکل 5 اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ 23 کی سخت خلاف ورزی ہے۔ اس پر یہ کہ چیزوں کو غلط انداز میں پیش کیا جائے۔ یہ تمام امور ریاست کے خلاف جرم تصور ہوتے ہیں اور ان پر اسی انداز میں کارروائی کرنا ہی ریاستی مفاد ہے۔
جناب ایاز صادق نے جو گفتگو قومی اسمبلی کے فورم پر کی وہ تاریخی حقائق کے تناظر میں کسی طرح سے بھی مناسب اور درست نہیں۔ ایاز صادق نے اس گفتگو نما بیان میں اصل حقائق کو اپنی متعصبانہ آبزرویشن سے مسخ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ ان کیمرہ اجلاس میں وزیر خارجہ گھبرائے ہوئے تھے‘ ماتھے سے پسینہ بہہ رہا تھا، ٹانگیں کانپ رہی تھیں، دراصل حقیقی قومی بیانیے اور اداروں کی توہین ہے۔ یہ دراصل ان کی اپنی قومی ذمہ داریوں کی بھی توہین ہے جن کا اہل سمجھ کر انہیں اس اجلاس میں شریک کیا گیا۔ حقائق وہی ہیں جو ہم پہلے بیان کر چکے ہیں۔ ایاز صادق صاحب نے ابھی نندن والے معاملے پر بہت بڑا بلنڈر کیا ہے۔ ہر نازک قومی فیصلے کی پس منظر مشاورت میں بہت کچھ کہا سنا جاتا ہے۔ وہ ایک امانت ہوتی ہے جسے اس طرح سے کھلے بندوں فاش نہیں کیا جا سکتا، نہ سیاست کے لیے نہ اپنی ذات کے لئے۔ یہ اصول واضح ہے، اور سب کے لیے یکساں ہے۔ اس ضمن میں سوائے حکومت اور فوج کے سرکاری مؤقف کے، باقی ہر بات جھوٹ اور بد نیتی پر مبنی سمجھی جاتی ہے۔
یہ بات زیادہ اہم ہے کہ ایک سال اور آٹھ ماہ بعد ان کو اس وضاحت کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ صرف اس لئے کہ مسلم لیگ ن اداروں کے خلاف بیانیہ لے کر میدان میں اتر چکی ہے۔ لیکن ایک قومی سطح کی جماعت کے لیڈر سے اس حد تک جانے کی توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ دشمن کے مردہ بیانیے کو زندہ کر دیں گے۔ ہماری فوج ہمارا فخر ہے‘ پاکستان کی سر بلندی کی حفاظت پاک فوج کے ذمہ ہے۔ جو شخص جو جماعت بھی قومی سلامتی کی ریڈ لائن عبور کرے گی قوم اسے مسترد کر دے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں