میاں نواز شریف کی صاحبزادی اور مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کی ناراضی بجا ہے۔ تازہ سرویز کے مطابق گلگت بلتستان کے پچھلے الیکشن میں مقبولیت کے اعتبار سے نمبر ون جماعت مسلم لیگ ن اس بار تیسرے نمبر پر آچکی ہے۔ اس صورتحال کا تعلق بظاہر اسلام آباد میں موجود مرکزی حکومت سے نظر آتا ہے۔ گلگت بلتستان کو نیم صوبائی خود مختاری دینے والی پیپلز پارٹی جب مرکز میں برسر اقتدار تھی تو 2009ء میں وہاں پیپلزپارٹی کی حکومت بنی۔ 2015ء میں نواز شریف کی حکومت کے دوران گلگت بلتستان میں ہونے والے انتخابات میں ن لیگ بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی۔ آج 15نومبر کو جی بی میں عام انتخابات ہو رہے ہیں۔ وفاق میں تحریک انصاف کی حکومت ہے تو کیا حسب سابق اس مرتبہ بھی گلگت بلتستان میں تبدیلی سرکار ہی بنے گی؟ عام تاثر یہی ہے لیکن پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کی انتھک محنت کے باعث کسی اپ سیٹ کی توقع بھی کی جاسکتی ہے۔
کشمیر کی طرح گلگت بلتستان میں بھی یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ صوبے میں وہ حکومت ہو جو مرکز سے ترقیاتی پیکیج لا سکے۔ اس بار گلگت بلتستان کے الیکشن ماضی کی نسبت غیر معمولی ہیں۔ ان انتخابات سے قبل پوری اپوزیشن جماعتیں پی ڈی ایم کی چھتری تلے عمران حکومت اور بقول ان کے ان کو لانے والوں کے خلاف تحریک شروع کر چکی تھیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے اسی تحریک کا بہائو گلگت بلتستان انتخابات کی طرف موڑ دیا۔ دونوں جماعتوں کی مرکزی قیادت کی موجودگی نے ان انتخابات کو قومی توجہ دلا دی۔ ماضی میں یہ انتخابات، وزیرِ امور کشمیر کی مرہون منت ہوتے تھے۔ پچھلے انتخابات کے سیاسی جوڑ توڑ کا کریڈٹ مسلم لیگ ن کے وفاقی وزیرامور کشمیر برجیس طاہر کو دیا گیا۔ اس بار بھی تحریک انصاف کے امور کشمیر کے وفاقی وزیر علی امین گنڈا پور، وفاقی وزیر مواصلات مراد سعید اور مشیر سیاحت زلفی بخاری کے ہمراہ میدان میں اترے ہیں۔ تحریک انصاف کی قیادت نے میدان میں اترنے سے پہلے ہی میدان صاف کردیا۔ تحریک انصاف کو سابقہ نظریاتی تجربات کے بعد الیکٹیبلز کی سیاست سمجھ آچکی ہے جس کی سب سے بڑی مثال فدا محمد ناشاد ہیں، جو گزشتہ انتخابات میں ن لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑے اور کامیاب ہوئے، اور سپیکر بھی بنے، اس بار وہ پی ٹی آئی کے امیدوار ہیں۔ تحریک انصاف کے ٹکٹ کے اعلان تک سابق سپیکر فدا محمد ناشاد نے ن لیگ چھوڑنے یا تحریک انصاف میں شامل ہونے کا کوئی اعلان نہیں کیا تھا؛ تاہم پی ٹی آئی نے پارٹی میں شامل ہونے سے پہلے ہی فدا ناشاد کو ٹکٹ جاری کردیا۔ ایسے ہی وہ لوگ جنہوں نے پیپلز پارٹی کا ٹکٹ اپلائی کیا ہوا تھا‘ انہیں بھی تحریک انصاف کا ٹکٹ مل گیا۔ اس لئے یہ کہاجا سکتا ہے کہ تحریک انصاف نے جیت کیلئے اچھا گرائونڈ سیٹ کرلیا ہے۔ وفاقی وزرا کے واضح اعلانات ''جتنے ووٹ اتنے فنڈز‘‘کی مہم دراصل ووٹرز کی سوچ پر اثرانداز ہونے کی شعوری کوشش ہے۔
مسلم لیگ ن گلگت بلتستان انتخابات کو رد کرنے کی تیاری کرچکی ہے۔ مریم نواز اور پارٹی ترجمانوں کی جانب سے پری پول رگنگ اور طاقت کے بل پر ووٹ حاصل کرنے کے الزامات سامنے آنا شروع ہو چکے ہیں۔ ایسی ہی شکست کا سامنا 2015ء میں پیپلز پارٹی کوبھی کرنا پڑا تھا جب وہ صرف 2 سیٹیں حاصل سکی تھی‘ جس کے بعد سابق وزیر اعلیٰ سید مہدی کو ہٹا کر صوبائی صدارت امجد حسین ایڈووکیٹ کو دی گئی۔ امجد حسین ایڈووکیٹ نے بڑی محنت سے پارٹی کی تنظیم نوکی۔ گلگت بلتستان میں بلاول بھٹو کی طویل ترین موجودگی نے پیپلز پارٹی کے اندر نئی روح پھونک دی ہے۔ جی بی میں پیپلزپارٹی کا ووٹر بہت چارجڈ نظر آرہا ہے۔ پیپلز پارٹی کو موجودہ الیکشن میں ایک طرح سے نفسیاتی برتری حاصل ہو چکی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ن لیگ کے برعکس حکومت پیپلزپارٹی کے سارے الیکٹ ایبلز کو نہیں توڑ سکی۔ گلگت بلتستان میں تحریک اسلامی اور مجلس وحدت المسملین کا بھی اچھا خاصا ووٹ بینک ہے۔ ایم ڈبلیو ایم اس وقت تحریک انصاف کی اتحادی جماعت ہے۔ دونوں جماعتیں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے تحت میدان میں اتری ہیں۔ مجلس وحدت المسلمین کے صرف 3 امیدوار میدان میں ہیں۔ باقی حلقوں میں مجلس کا ووٹ تحریک انصاف کو ملے گا۔ تحریک انصاف نے بڑی سمجھداری سے گلگت بلتستان کے شیعہ ووٹ بینک کو اپنے ساتھ ملا لیا ہے جس کا نقصان پیپلز پارٹی کو ہوگا۔ جی بی کی دوسری بڑی جماعت تحریک اسلامی، پی ٹی آئی کی اتحادی نہ بن سکنے کے بعد ق لیگ کی اتحادی بن گئی، جو کہ مر کز میں تحریک انصاف کی اتحادی ہے۔ یوں ممکنہ طور پر اگر ضرورت پڑی تو حکومت بنانے کیلئے پی ٹی آئی کو تحریک اسلامی کے کامیاب امیدواروں کا ووٹ بھی مل جائے گا‘ لیکن اس وقت اصل مقابلہ تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کے مابین ہے۔ وفاقی حکومت کے تمام تر انتظامات کے باوجود مجموعی طور پر رائے عامہ تحریک انصاف کے حق میں ہموار ہوتی نظر نہیں آرہی۔
منقسم رائے عامہ کی وجہ سے وفاق کی جماعت کو خلاف توقع جی بی کے الیکشن میں غیر متوقع نتائج کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ تحریک انصاف گلگت بلتستان میں کامیاب ہوتی ہے تو اس کا کریڈٹ صرف اور صرف تبدیلی کے نعرے کو ہی نہیں بلکہ امیدواروں کی ذاتی کوششوں کو بھی جائے گا۔ اس سارے منظرنامے میں ''ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ بلند کرنے والی جماعت مسلم لیگ ن بہت پیچھے رہ گئی ہے۔ گلگت بلتستان کے سابق وزیر اعلیٰ حفیظ الرحمن کی حکومت ختم ہوتے ہی پارٹی بکھر گئی اور ایک ایک کرکے اہم ترین پارٹی عہدیداروں اور سابق وزیروں نے سیاسی قبلہ تبدیل کرلیا۔ ایک ماہ قبل حفیظ الرحمن کی سابق وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ ہونے والی ایک ویڈیو کال وائرل ہوئی، جس میں وہ نواز شریف سے شکوہ کررہے تھے کہ ایجنسیوں نے ہماری پارٹی کے ارکان اسمبلی کو توڑ کر پی ٹی آئی میں شامل کروا دیا ہے۔ حفیظ الرحمان کے تخفظات اپنی جگہ، مگر ان کے متعلق مقامی افراد کی رائے یہ ہے کہ اپنے 5 سالہ دور حکومت میں حفیظ الرحمن نے پارٹی پر بالکل توجہ نہیں دی جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ حکومت ختم ہوتے ہی گلگت بلتستان میں ن لیگ کا شیرازہ بکھر گیا۔ الیکٹ ایبلز کے چلے جانے سے اکثر حلقوں میں صرف خانہ پری کے لئے ٹکٹ جاری کیے گئے ہیں۔ ناقدین کی رائے میں پارٹی چھوڑ کرجانے والوں کو ن لیگ کے ساتھ مستقبل محفوظ نہیں لگ رہا تھا۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ مرکزی قیادت خود اپنا سیاسی کیریئر بچانے کیلئے ہاتھ پائوں مار رہی ہے، نواز شریف لندن جبکہ شہباز شریف جیل میں ہیں۔ مریم نواز پی ڈی ایم کے محاذ پر بچی کھچی قیادت کی جنگ لڑنے میں مصروف ہیں۔ بادی النظر میں گلگت بلتستان میں مسلم لیگ ن 2 سے 3 سیٹوں کے علاوہ کوئی بڑی کامیابی سمیٹتی نظر نہیں آتی۔ مسلم لیگ ن کا اصل قلعہ پنجاب ہے جو ابھی کسی نہ کسی طرح بچا ہوا ہے۔ موجودہ صورتحال میں مریم نواز تن تنہا اس کو زیادہ دیر ہولڈ نہیں کر سکیں گی۔ اس کے لئے انہیں ن لیگ میں پنجاب کی سیاست کو سب سے زیادہ سمجھنے والے بازو اور اپنے چچا زاد بھائی حمزہ شہباز کی اشد ضرورت ہے‘ لیکن یہ ساتھ مریم نواز کو ان کی اپنی شرائط پر نہیں مل سکتا۔ اس کے لئے دونوں کو برابر کا سٹیک ہولڈر بننا پڑے گا۔ ورنہ پنجاب میں بھی اگلا مقابلہ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے درمیان ہو سکتا ہے۔