"IYC" (space) message & send to 7575

آر یا پار…

لاہور میں 13 دسمبر کو پی ڈی ایم کے جلسے کی میزبانی مسلم لیگ ن نے باقاعدہ چیلنج کے طور لے رکھی ہے۔ مریم نواز کے سوشل میڈیا کنونشن اور ریلیوں سے دھواں دھار خطاب دراصل لاہوریوں کے دلوں کو گرمانے کیلئے ہیں۔ پے در پے واقعات کا شکار اور مقدمات میں پھنسی نون لیگی قیادت میں مریم نواز کا ماضی میں پارٹی کارکنوں سے بہت زیادہ رابطہ نہیں رہا۔ چیدہ رہنماؤں کے علاوہ پارٹی کے اکثریتی قائدین سے بھی ان کا براہ راست قریبی تعلق نہیں ہے۔ شریف فیملی میں دو لوگ میاں نواز شریف اور حمزہ شہباز پارٹی میں گہرے رسوخ کے حامل افراد سمجھے جاتے ہیں۔ نواز شریف پارٹی لیڈرشپ جبکہ حمزہ شہباز کارکنوں کی سطح پر مضبوط رابطوں میں رہتے ہیں۔ حمزہ شہباز کو اپنے تایا کے بعد یہ رسوخ حاصل کرنے کیلئے حالات نے ایسا موقع فراہم کیا کہ وہ پارٹی کی نچلی سطحوں تک اتر گئے۔ اب دو دہائیوں سے زائد عرصے بعد وہ پارٹی کا ایسا اثاثہ بن چکے ہیں جسے نظر انداز کر کے نواز شریف بھی آگے نہیں بڑھنا چاہیں گے۔ 1999ء میں شریف فیملی کو جیل میں قید و بند کی صعوبتوں سے نکل کر سیاست بچانے کیلئے ڈکٹیٹر کے ساتھ معاہدہ کر کے جلا وطن ہونا پڑا تھا۔ ایسے میں شریف فیملی کے جس فرد کو بطور ضمانت پاکستان میں رہنا پڑا وہ کوئی اور نہیں حمزہ شہباز ہی تھے۔ شریف فیملی پر مشرف دور کی پابندیاں، سختیاں اور خاندان کی میتوں کو تنہا کندھا دینے والے کم عمر حمزہ شہباز کو وقت نے وہ سب کچھ سکھا دیا جسے سیکھنے کیلئے دہائیاں درکار ہوتی ہیں۔ اب مریم نواز جس دور سے گزر رہی ہیں وہ بالکل ویسا ہی ہے جس سے دو دہائیاں پہلے حمزہ شہباز گزر چکے ہیں۔ اس بار وہ یہاں پاکستان میں اپنے والد کی ضمانت کے طور پر موجود ہیں۔ اس بات کا اظہار تحریک انصاف کے وزرا کی جانب سے بارہا کیا گیا کہ نواز شریف مبینہ لوٹی رقم واپس کریں اور اپنی بیٹی کو لے جائیں‘ لیکن نواز شریف نے بیٹی کو حالات کے سپرد کر دیا ہے۔ مریم نواز قدم قدم پر ثابت کر رہی ہیں کہ حالات جیسے بھی ہوں وہ ثابت قدم رہنے کی ہمت جُٹا کر میدان میں اتری ہیں۔ وہ اپنے خاندان کی سیاست کو بچانے کیلئے اس آخری حد تک جانے کے جرأت رکھتی ہیں جو شاید بڑے سے بڑا مرد بھی نہیں رکھتا۔ مریم نواز کے لب و لہجے اور اندازِ تکلم پر بہت سے لوگوں کو اعتراض ہے۔ مروجہ سیاست، رکھ رکھائو، مروت اور خاص حلقوں سے بنا کر رکھنے کی نصیحتیں مریم نواز پر بے اثر ہو چکی ہیں۔ ان کے انداز اور بیانیے نے مسلم لیگ ن کو نئی زندگی دی ہے۔ پارٹی کے اندر بھی نہایت احترام کے ساتھ وہ اپنے چچا کے مفاہمتی طرزِ سیاست کے مقابل ڈٹ کر کھڑی ہو گئی ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ نواز شریف بھی اپنی سیاست کا وزن مریم نواز کے پلڑے میں ڈال چکے ہیں۔ مریم نواز کا 'آر یا پار‘ کا نعرہ باہر سے زیادہ اندر والوں کیلئے بھی پیغام ہے‘ اس لیے مسلم لیگ ن کے اندر موجود جو لوگ وکٹ کے دونوں طرف سے کھیلنا چاہتے ہیں انہیں اب بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جو لوگ یہ گمان کرتے ہوں کہ پارٹی لیڈرشپ آپس میں تقسیم ہے تو شریف فیملی کے سٹرکچر کو ذاتی طور پر جانتے ہوئے یہ بات میں بڑے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ رائے کا اختلاف ذاتی اختلاف میں تبدیل نہیں ہو سکتا۔ میاں محمد نواز شریف اپنا سیاسی وزن مریم نواز کے پلڑے میں ڈال چکے ہیں تو ایسے میں سب کو ان کی تقلید کرنا ہو گی۔ جو اس مشکل دور سے پارٹی کو باہر نکالے گا وہی لیڈر ہوگا۔
تحریک انصاف کے چیئرمین کی حیثیت سے جناب عمران خان کی 2014ء سے شریف خاندان کے خلاف جاری مہم کے باعث ان کی پارٹی اور ان کے ووٹرز میں یہ تاثر گہرا ہو چکا ہے کہ شاید کرپشن سمیت دنیا جہان کی تمام برائیاں اسی ایک خاندان میں ہیں۔ شریف خاندان کی سیاست میں یقینی طور پر غلطیاں بھی شامل ہیں لیکن اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ پچھلی 3 دہائیوں میں انفراسٹرکچر اوریئنٹڈ جتنے منصوبے مسلم لیگ ن کے ادوار میں شروع کئے گئے وہ دیگر حکومتوں کے حصے میں نہیں آتے۔ یہی وجہ ہے کہ الزامات بھی سب سے زیادہ انہی ادوار میں کئے جانے والے کاموں پر لگائے جاتے ہیں۔ بطور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف منصوبوں کو تیز رفتاری سے مکمل کرنے کا سٹینڈرڈ بن چکے ہیں‘ جسے شہباز سپیڈ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ تحریک انصاف کو پنجاب حکومت ملے ڈھائی برس ہونے کو ہیں لیکن اپوزیشن سے الجھے حکمرانوں کو فرصت ہی نہیں کہ سمجھ سکیں کہ شہباز سپیڈ اس صوبے کا سٹینڈرڈ بن چکا ہے۔ اگر پنجاب میں اپنا ووٹ بینک بڑھانا ہے اور اقتدار کو مضبوط کرنا ہے تو اس کیلئے آپ کو اس سٹینڈرڈ سے اوپر جاکر کام کرنا ہو گا۔ فی الحال معاملات اس کے برعکس ہیں۔ آنے والے دنوں میں بزدار حکومت کوئی معجزہ دکھا دے تو کچھ کہا نہیں جا سکتا‘ لیکن یاد رکھیں کہ صوبائی حکومت عوام کے دل میں گھر بنانے کے ڈھائی سال ضائع کر چکی ہے‘ لہٰذا اب دوگنا کے بجائے تین گنا محنت کرنا پڑے گی۔ وہ جو کہتے ہیں‘ وقت کم ہے اور مقابلہ سخت۔ دوسری صورت میں بزدار سپیڈ کا فائدہ دراصل مسلم لیگ ن کو ہورہا ہے۔ الیکشن جب بھی ہوں، حکومتی کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بنانے کیلئے انہیں زیادہ محنت نہیں کرنا پڑے گی۔ 
اپوزیشن جماعتیں پی ڈی ایم کی صورت میں حکومت کو مزید ڈھائی برس دینے کو تیار نظر نہیں آتیں۔ پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتیں کم و بیش اس بات متفق ہیں کہ موجودہ حکومت کو ہر صورت جانا ہوگا۔ اس کیلئے جو بھی حکمت عملی اختیار کرنا پڑے کی جائے گی۔ مسلم لیگ ن اور جمعیت علمائے اسلام‘ دونوں کی لیڈرشپ ہر قدم اٹھانے کو تیار نظر آتی ہے۔ اس میں شاید مشکل مرحلہ پیپلزپارٹی کو اس بات پر راضی کرنا ہے کہ وہ سندھ حکومت کی قربانی دینے کیلئے تیار ہوجائے۔ اسی لیے پیپلزپارٹی کی جانب سے مریم نواز کے نعرے 'آر یا پار‘ کو پی ڈی ایم کے بجائے نون لیگ کی سوچ کہا جا رہا ہے۔ بطور سیاست کے ایک طالب علم، میں یہ سمجھتا ہوں کہ سیاسی تحریکوں کو صرف مصلحت کے تحت کیے جانے والے فیصلوں کے ذریعے کامیاب نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لئے 'آر یا پار‘ کا نظریہ ہی اکسیر نسخۂ شفا ہوتا ہے۔ اسی لئے پی ڈی ایم اجلاس کے بعد صحافیوں کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے سختیوں، مشکلات اور گرفتاریوں کے سوالات کو مذاق میں اڑا دیا جیسے وہ انہیں کچھ نہیں سمجھتے‘ لیکن یہ واضح ہے کہ جب تک پی ڈی ایم کی تمام جماعتیں مکمل طور پر اس سوچ اور نظریے کی حامی نہیں ہو جاتیں تب تک مقتدر حلقے ان کو سنجیدگی سے نہیں لیں گے۔ استعفوں کے معاملے پر پی ڈی ایم کے اندر موجود اختلاف رائے کو مکمل طور پر اتفاق رائے میں بدلے بغیر حکومت کو سوچنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ مخالفین کی پوری کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح اپوزیشن کو تقسیم کرنے کی حکمت عملی پر کاربند رہے۔ ایسے سوراخ ڈھونڈے جائیں جن کو استعمال کرتے ہوئے مستقل طور پر رائے عامہ کو یہ تاثر دیا جائے کہ اپوزیشن منقسم ہے۔ عملی طور پر مختلف الخیال جماعتوں کا ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر ساتھ چلنا آسان کام نہیں ہوتا۔ ہر جماعت کو پی ڈی ایم کے اہداف کے ساتھ ساتھ اپنے ووٹ بینک کو بھی مطمئن رکھنا ہے۔ مختلف الآرا ہونا دراصل پی ڈی ایم کا سب سے بڑا سوراخ ہے۔ ایسے میں صرف ایک سوچ ہی آگے لے کر جا سکتی ہے۔ 'آر یا پار‘... پی ڈی ایم میں سوائے پیپلز پارٹی کے باقی جماعتوں کے پاس کھونے کیلئے کچھ نہیں ہے۔ بلاول ہاؤس کے قریبی حلقوں کے مطابق پیپلز پارٹی اصولی طور پر تو استعفے دینے پر راضی ہے مگر وہ آگے کا لائحہ عمل بھی طے کرنا چاہتی ہے۔ اب یہ فیصلہ پیپلزپارٹی نے کرنا ہے کہ وہ بنا تذبذب 'آر یا پار‘ کرے گی یا راہ فرار اختیار کرے گی؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں