"IYC" (space) message & send to 7575

اک جھوٹ جھٹلانے کو سو سو جھوٹ

کرپشن کے خلاف حکومت کی مہم، نیب کے غیر معمولی متحرک کردار اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی فعالیت کے باوجود پاکستان عالمی کرپشن انڈیکس میں چار درجے اوپر (120 سے 124) آ گیا ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ آنے پر اپوزیشن نے حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا تو وزیر اعظم عمران خان کا موقف سامنے آیا کہ ہم ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کا خیر مقدم کرتے ہیں، ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے سال 18-2017 کا ڈیٹا حاصل کیا، جب یہ اردو ترجمہ کروائیں گے تو انہیں پتا چل جائے گا۔ وزیر اعظم نے پہلے دن جو کہا اس کے برعکس لاہور میں میڈیا سے ملاقات میں فرمانے لگے کہ ابھی ٹرانسپیرنسی کی رپورٹ پڑھی ہی نہیں۔ رپورٹ کی تیاری کے لیے ڈیٹا کس سال کا استعمال ہوا؟ رپورٹ انگلش میں ہے‘ کس کو سمجھ آئی اور کس کو نہ آئی؟ یہ سب کج بحثی ہے۔ اصل مدعا یہ ہے کہ 90 دن میں کرپشن کے خاتمے کے دعوے اور وعدے کے ساتھ اقتدار میں آنے والوں کی کارکردگی کیا رہی؟ اس کارکردگی کو جانچنے کے لیے کسی ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی ضرورت ہے‘ نہ سائنسی بنیادوں پر ڈیٹا کا تجزیہ کرنے کی۔ یہ سب سامنے کی بات ہے۔
بات کو مزید آسان بنانے کے لیے چند سوالات قارئین کے سامنے رکھتے ہیں۔ پارٹی وابستگی سے بلند ہو کر اور صدق دل سے ان کے جواب اپنے ذہن میں تلاش کرنے کی کوشش کریں تو کوئی ابہام باقی نہیں رہے گا۔ یہ وہ سوالات ہیں جو ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے مختلف اداروں سے سروے میں پوچھے اور ان سوالوں کے جوابات کی بنیاد پر رپورٹ تیار کی۔
پہلا سوال: عہدوں کا غلط استعمال کرنے والے سرکاری عہدیداروں کو کس حد تک سزا دی جاتی ہے یا ان کے خلاف کارروائی ہوتی ہے؟ حکومت کس حد تک کرپشن کی روک تھام میں کامیاب ہوئی ہے؟ اس سوال کا جواب ملک میں آٹے اور چینی کے سکینڈل میں ملوث اعلیٰ عہدیداروں کے خلاف کبھی نہ ہونے والی کارروائی سے بہ آسانی مل جاتا ہے، دواؤں کے سکینڈل میں ایک عہدیدار کرسی چھوڑ گیا‘ لیکن کہیں مقدمہ چلا نہ اس سے کسی نہ کوئی سوال پوچھا۔ کابینہ کے چند ارکان کے نام آٹا‘ چینی سکینڈل میں آئے لیکن کوئی تفتیشی اور تحقیقاتی کمیٹی بناکر ان کے کردار کی چھان بین کرائی گئی نہ انہیں عہدوں سے ہٹایا گیا۔ ایک وزیر کے اقدام نے قومی ایئرلائن اور اس کے پائلٹوں کی ساکھ برباد کردی لیکن کسی نے اس سے بازپرس کی زحمت نہ کی۔
دوسرا سوال: کیا وزرا سیاسی یا پارٹی کے مقاصد کیلئے یا نجی مقاصد کیلئے فنڈز میں خورد برد کرتے ہیں؟ اس کا جواب ہم خود سے نہیں دیتے صرف چند اخباری خبروں اور زمینی حقائق کو دہرائے دیتے ہیں، اندازہ خود ہو جائے گا۔ تحریک انصاف جب اپوزیشن میں تھی تو ہر رکن اسمبلی کو ملنے والے ترقیاتی فنڈز کو رشوت تصور کرتی تھی، کیا یہ تصور بدل گیا ہے؟
تیسرا سوال:کیا سرکاری وسائل کا غلط استعمال ہوتا ہے؟ اس کا جواب تو گورنر ہاؤس کی گاڑی میں سفر کرتے کتے کی ویڈیو سے مل چکا ہے، ماضی میں حکمرانوں کے گھوڑوں کی خوراک کے متعلق دعوے ہوتے تھے، حکومت میں آنے کے بعد ان گھوڑوں پر خرچ کی تفصیل تو جاری نہ کی گئی لیکن کتے کو پروٹوکول کے ساتھ سفر کرتے سب نے دیکھا۔
چوتھا سوال: کیا نظام عدل آزاد ہے‘ اس کے پاس اتنی طاقت ہے کہ وہ وزیروں اور سرکاری عہدیداروں کی غلط کاریوں پر ان احتساب کر سکے؟ اس سوال کا جواب توہین عدالت کے زمرے میں آ سکتا ہے اس لیے لب کشائی کی جرأت کوئی نہیں کر سکتا۔
پانچواں سوال: کیا ٹھیکے دینے یا فوائد حاصل کرنے کیلئے رشوت کی ادائیگی کی روایات موجود ہیں؟ اس کا جواب کاروبار سے وابستہ ہر شخص کو معلوم ہے جس کا واسطہ سرکاری اداروں سے پڑتا ہے۔
چھٹا سوال: کیا حکومت نے انسداد بدعنوانی کیلئے موثر اقدامات کیے؟ اس کا جواب اگر نیب کی کارکردگی دکھا کر دیا جانا ہے تو پیشگی معذرت چاہتا ہوں۔
ساتواں سوال: کیا راز افشا کرنے والوں، کرپشن مخالف سرگرم کارکنوں اور صحافیوں کو قانونی تحفظ حاصل ہے؟ اور کیا رشوت اور کرپشن کے متعلق رپورٹنگ کرنا خطرے سے پاک ہے؟ کیا کرپشن کے الزامات کو میڈیا میں وسیع کوریج ملتی ہے؟ کیا سرکاری سطح پر ہونے والی کرپشن کے خلاف عوام میں عدم برداشت پایا جاتا ہے؟ یہ ایک سوال دراصل کئی سوالوں کا مجموعہ ہے۔ ان سب سوالوں کے جواب میں پچھلے سال وزیراعظم کے نام لکھا گیا صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم کا خط پیش کیاجا سکتا ہے جس میں وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ حالیہ دورہ امریکہ کے دوران جب آپ سے پریس پر پابندیوں کے حوالے سے سوال کیا گیا تو آپ نے جواب دیا کہ پاکستانی پریس دنیا کا آزاد ترین پریس ہے اور یہ کہنا کہ پاکستانی پریس پر پابندیاں ہیں، ایک مذاق ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یا تو آپ کی معلومات انتہائی ناقص ہیں، اس صورت میں آپ کو اپنے اردگرد موجود لوگوں کو فوراً تبدیل کرلینا چاہیے، یا پھر آپ جان بوجھ کر حقائق چھپا رہے ہیں، جو کہ ایک انتہائی سنجیدہ بات ہے۔
عالمی یومِ آزادیٔ صحافت کے موقع پر جاری کی جانے والی پاکستان پریس فریڈم رپورٹ 2020ء کے مطابق پاکستان میں صحافیوں کو قتل، تشدد، دھمکیوں، اغوا اور حملوں کے واقعات کا سامنا ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ صحافیوں پر حملوں کے سب سے زیادہ واقعات اسلام آباد میں رونما ہوتے ہیں، جو ملک بھر میں صحافیوں پر ہونے والے حملوں کا 34 فیصد بنتے ہیں۔ فریڈم نیٹ ورک نامی تنظیم کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ پچھلے ایک برس میں پاکستان میں صحافیوں پر حملوں کے 91 واقعات رونما ہوئے، جن میں سے 24 سندھ میں، 20 پنجاب میں، 13 خیبر پختونخوا میں اور 3 بلوچستان میں پیش آئے۔ ان واقعات میں 7 صحافی اور بلاگر قتل ہوئے تھے۔ فریڈم نیٹ ورک کی اس رپورٹ میں کہا گیا تھاکہ ایسے حملوں کے ذریعے پاکستانی صحافیوں کو 'سیلف سینسرشپ‘ پر مجبور کیا جاتا ہے۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے بڑے کاروبار، مالیاتی نظام کے متعلق بھی کئی سوالوں کے جواب شامل کرکے رپورٹ تیار کی۔ مالیاتی نظام پر گفتگو ہماشما کا کام نہیں، کاروبار کے حوالے سے مشکلات کا اندازہ مجھے عام بازار میں کام کرتے پھل فروشوں اور دیگر خوانچہ فروشوں کی حالت سے ہوتا ہے۔ ایک خوانچہ فروش کو، جس کے بارے میں عام تاثر ہے کہ اس نے دکان کا کرایہ ادا کرنا ہوتا ہے‘ نہ اس کو یوٹیلٹی بلز بھرنا پڑتے ہیں، سر راہ بیٹھ کر کاروبار کرنے کیلئے کارپوریشن، پولیس، ٹریفک اہلکاروں اور مارکیٹ کمیٹی کو کل ملا کر ہزاروں روپے ماہانہ بھتہ ادا کرنا پڑتا ہے‘ اور کبھی کوئی قسط ادا کرنے میں تاخیر ہو تو ادائیگی تک اسے کاروبار سے ہی روک دیا جاتا ہے۔
ہم ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کو حکومت کے خلاف سازش سمجھتے ہیں‘ یہ بھی مانتے ہیں کہ نواز دور کا ڈیٹا استعمال کرکے اس حکومت کو بدنام کرنے کی کوشش ہوئی‘ یہ بھی سچ ہے کہ پٹواریوں کو انگریزی سمجھ نہیں آتی اس لیے وہ رپورٹ کا درست ترجمہ کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے‘ لیکن کیا کریں رشوت اور کرپشن کے متعلق ہر عام شہری کا وہی موقف ہے جو اس 'جھوٹی‘ رپورٹ سے اخذ ہو رہا ہے۔ اب ایک ہی حل ہے کہ عوام کو بھی وہی چشمے مہیا کر دیئے جائیں جن سے حکمرانوں کو سب اچھا دکھائی دیتا ہے۔ یہاں بھی ایک مشکل ہوگی، اگر یہ چشمے حکمران مفت بانٹنا چاہیں گے تب بھی ان کے اہلکار اس کو کمائی کا ذریعہ بنا لیں گے اور کرپشن کا نیا ایشو بن سکتا ہے؛ البتہ اطمینان کی ایک بات یہ ہے کہ میڈیا اب سیلف سنسر پر آچکا ہے کوئی بھی کچھ نہیں بولے گا۔ حکومت ہو یا اپوزیشن، اب سیاست کا چلن اس بے وفا محبوبہ جیسا ہے جس کے بارے میں شاعر نے کہا تھا:
وہ اک اک جھوٹ جھٹلانے کو سو سو جھوٹ بولے گی
وہ خود سے جھوٹ بولے گی خدا سے جھوٹ بولے گی

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں