"IYC" (space) message & send to 7575

کپتان‘ ادارے اور اعتماد کا ووٹ

3 مارچ کو سینیٹ کے انتخابات میں پی ڈی ایم کے مشترکہ امیدوار اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی جیت اور حکومتی امیدوار عبدالحفیظ شیخ کی ہار تو جیسے ملکی سیاست میں ایک بھونچال سا لے آئی۔ پی ڈی ایم نے جہاں اس جیت کو ایوان کا وزیراعظم پر عدم اعتماد ثابت کرنے کی کوشش کی وہیں اس سے استعفا دینے کامطالبہ بھی کردیا۔ دوسری جانب وزیراعظم عمران خان نے اس سارے معاملے سے جارحانہ طریقہ کار سے نمٹنے کا فیصلہ کیا اور یہ اعلان کر دیاکہ وہ فوری طور پر قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لیں گے۔
وزیراعظم کی طرف سے طے شدہ پالیسی کے مطابق صدر مملکت عارف علوی کو ایک ایڈوائس بھجوائی گئی کہ وہ وزیر اعظم کے اعتماد کا ووٹ لینے کا قانونی عمل پورا کریں، چنانچہ صدر پاکستان کی طرف سے آئین کے آرٹیکل 91 کی شق7 کے تحت وزیراعظم سے یہ کہا گیا کہ وہ ایک بار پھر ایوان سے اعتماد کا ووٹ لیں۔ پی ڈی ایم کی طرف سے اس سارے عمل کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ناصرف شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا بلکہ قومی اسمبلی کے خصوصی اجلاس سے ایک دن پہلے یعنی جمعہ کے روز اجلاس کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا گیا۔ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے سکھر میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس اجلاس کی کوئی بھی سیاسی اور قانونی حیثیت نہیں اس لئے پی ڈی ایم کا کوئی بھی ممبر اسمبلی اس میں شرکت نہیں کرے گا۔
خیر اپوزیشن کے بائیکاٹ کے باوجود 6 مارچ دوپہر 12 بجکر 15 منٹ پر شروع ہونے والے قومی اسمبلی کے اس خصوصی اجلاس میں وزیراعظم عمران خان کی جماعت تحریک انصاف اور ان کی اتحادی جماعتوں کے تمام ممبران موجود تھے اور اس موقع پر 178 ممبران نے وزیراعظم پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا۔ یاد رہے کہ جب عمران خان 2018ء کے الیکشن جیت کر وزیراعظم کے منصب پرفائز ہوئے تھے تو اس وقت اعتماد کا ووٹ لیتے ہوئے قومی اسمبلی کے 176 ممبران نے ان کو ووٹ دیا تھا‘ یوں دوسری مرتبہ اعتماد کا ووٹ لیتے ہوئے خان صاحب کے ووٹوں میں ''دو‘‘ کا اضافہ ہوا ہے۔
اب تھوڑی سی بات کرتے ہیں کہ اس سارے عمل کا عمران خان اور ان کی حکومت کو کیا فائدہ ہو گا اور کیا نقصان۔ پہلے اگر ہم فائدے کی بات کریں تو وزیراعظم آج قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد سیاسی طور پر مضبوط ہوں گے کیونکہ اس سارے عمل سے انہوں نے ناصرف اپنے ووٹرز اور سپورٹرز کو چارج کیا ہے بلکہ سینیٹ الیکشن میں عبدالحفیظ شیخ کی ہار اور یوسف رضا گیلانی کی جیت سے پارٹی کے اندر پھیلنے والی ایک مایوسی اور بے یقینی کی صورتحال کو بھی زائل کردیا گیا ہے۔ اب وہ پہلے سے زیادہ پُراعتماد نظر آئیں گے‘ جس کا اندازہ اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد آج ایوان میں ان کی تقریر سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ وزیراعظم نے ایوان سے خطاب میں کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کیا اور اپنے مخالفین پر کھل کر وار بھی کئے۔ ان کی آج کی تقریر میں اگرچہ کوئی نئی بات نہیں تھی‘ پھر بھی یہ تقریر پی ٹی آئی کے ووٹرز اورسپورٹرز کو چارج کرنے کیلئے کافی ہے۔
اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد قومی اسمبلی کے اس خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان اپنی اتحادی جماعتوں کا تہ دل سے شکریہ ادا کیا اور پھر اپنی ٹیم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ''کل آپ کو پریشان دیکھا تو اچھا لگا، آپ میں ایک ٹیم نظر آئی اب ہماری ٹیم مزید مضبوط ہوتی جائے گی‘‘۔ اپنے حریفوں کو لتاڑتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا '' آصف زرداری دنیا کا کرپٹ ترین انسان ہے جس پر فلمیں اور مضامین لکھے گئے‘ اس کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ ایک زرداری سب پر بھاری۔ دوسرے کہتے ہیں ہمارا لیڈر نواز شریف، وہ ڈاکو جو پیسہ لوٹ کر باہر سے تقریریں کر رہا ہے۔ یوسف رضا گیلانی جو پاکستان کا کرپٹ ترین شخص ہے، یہ سمجھتے ہیں کہ میں ان کے دبائو میں آ کر ان کو این آر او دے دوں گا، یہ سمجھتے تھے کہ میں ان کے دام میں آ گیا، ان کا ون پوائنٹ ایجنڈا ہے کہ کرپشن کے کیسز ختم کروائو، ان سب نے مل کر کوشش کی کہ حفیظ شیخ کو ہرائیں اور کرپٹ ترین شخص کو جتوائیں‘‘۔
وزیر اعظم نے ایک بار پھر الیکشن کمیشن کے بیان پر دکھ کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا ''الیکشن کمیشن سیکرٹ ایجنسی سے معلومات لے‘ اس سے آپ کو پتا چل جائے گا کہ کیا میں آپ کی آزادی ختم کر رہا ہوں‘‘۔
آج کے اجلاس کی اہم بات اس کی ٹائمنگ بھی تھی۔ قومی اسمبلی کے اس خصوصی اجلاس کے لیے 12 بج کر 15 منٹ کا وقت مقرر کرنا بھی ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ ''واقفانِ حال‘‘ کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کو اس اجلاس کی ٹائمنگ کے حوالے سے خصوصی طور پر کہا گیا تھا کہ یہ اجلاس ٹھیک اسی وقت شروع ہونا چاہیے‘ اگر یہ اجلاس اپنے مقررہ وقت پر شروع ہو گا تو حکومت اور خود عمران خان کے لیے بہت مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
اب آتے ہیں تصویر کے دوسرے رخ یعنی پی ڈی ایم کی سیاست کی جانب۔ اپوزیشن کی جانب سے قومی اسمبلی کے اجلاس کا بائیکاٹ کرکے اصل میں وزیر اعظم کے اعتماد کے ووٹ کی اہمیت کو کم کر دیا گیا‘ یعنی اخلاقی طور پر اس سارے عمل پر ایک سوالیہ نشان لگانے کی کوشش کی گئی۔ سیاسی مبصرین کے مطابق وزیر اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کبھی بھی پی ڈی ایم کا ہدف نہیں تھی بلکہ وہ اصل معرکہ پنجاب کے میدان میں لگانا چاہتے ہیں اور وزیراعظم سے بار بار استعفے کا مطالبہ کرکے دراصل وہ ان کو دبائو میں لانا چاہتی ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور ملک کے جاری معاشی حالات میں اپوزیشن کی کوئی بھی جماعت فوری طور پر حکومت حاصل کرنا نہیں چاہتی۔
وزیر اعظم کے اتحادی اور قریبی ساتھی شیخ رشید احمد ایک تجربہ کار سیاستدان ہیں۔ اعتماد کا ووٹ ملنے کے بعد اتحادیوں کی تہنیتی تقریروں میں اپنی باری آنے پر انہوں نے وزیراعظم کی روایتی تعریفیں کیں‘ لیکن ان کی توجہ عوامی غیظ و غضب کی جانب بھی دلائی، اور انہیں بتایا کہ مہنگائی کی وجہ سے عام آدی کا جینا دوبھر ہو چکا ہے۔ ایسی صورتحال میں اڑھائی سال بعد الیکشن کے میدان میں اترنا سیاسی خود کشی کے مترادف ہو گا‘ اس لیے آنے والے دو بجٹوں میں عوام کو ریلیف دیں۔
اب بات کر لیتے ہیں پارلیمنٹ ہائوس کے باہر کے منظر کی۔ آج دن دس بجے پارلیمنٹ لاجز کے سامنے مسلم لیگ ن کے رہنمائوں نے پریس کانفرنس کرنے کا اعلان کیا تو دوسری جانب ڈی چوک پر پی ٹی آئی کے کارکن جمع تھے۔ جیسے ہی مسلم لیگ ن کے رہنما شاہد خاقان عباسی، مریم اورنگزیب، ڈاکٹر مصدق ملک اور احسن اقبال پریس کانفرنس کے لیے ڈائس پر پہنچے پی ٹی آئی کے کارکنوں نے انہیں گھیر لیا اور نعرے بازی شروع کر دی۔ مسلم لیگ ن کے رہنمائوں کی پریس کانفرنس پی ٹی آئی کے کارکنوں کے شور میں جاری رہی۔15 سے 20 منٹ کی پریس کانفرنس کے بعد لیگی رہنما پارلیمنٹ لاجز کو جانے لگے تو پی ٹی آئی کے کارکنوں نے ہاتھا پائی شروع کر دی۔ مریم اورنگزیب کو بھی دھکے لگے۔ پھر شاہد خاقان عباسی کے ساتھ ہاتھا پائی ہوئی‘ ان کو گردن پر تھپڑ مارا گیا۔ مصدق ملک کے سر کے پچھلی سائیڈ پر تھپڑ پڑا تو شاہد خاقان عباسی نے مڑ کر دو تین احتجاجیوں کو تھپڑ مارے اور مصدق ملک نے ایک احتجاجی کے پیچھے بھاگ کر فلائنگ کک ماری۔ بعد ازاں احسن اقبال نے اونچی جگہ پر کھڑے ہوکر نعرے بازی شروع کر دی۔ اس دوران مریم اورنگزیب‘ مصدق ملک اور شاہد خاقان عباسی میڈیا سے بات چیت کرتے رہے۔ دوسری جانب احسن اقبال اور مرتضیٰ جاوید عباسی نعرے بازی میں مصروف تھے کہ احتجاجیوں میں سے کسی نے ان کی طرف جوتا پھینکا‘ جو مرتضیٰ جاوید عباسی کو لگا۔ یہ ہنگامہ ایک گھنٹے تک جاری رہا۔
آج کا یہ واقعہ تمام سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنمائوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ کیا ہماری سیاست کا اگلا چلن یہی عدم برداشت ہو گا؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں