"IYC" (space) message & send to 7575

سپہ سالار کی سوچ

یوں تو پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات کشیدہ رہتے ہیں اور بھارت پہلے بھی کئی بار پاکستان کی جانب سے مذاکرات کی میز پر آنے کی دعوت ٹھکرا چکا ہے‘ اس کے باوجود پہلے وزیر اعظم عمران خان اور اب پاک فوج کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے دونوں ممالک کے مابین اچھے تعلقات کے قیام پر زور دیا ہے۔
جمعرات کے روز اسلام آباد میں سکیورٹی ڈائیلاگ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ دونوں ممالک کے مابین کشیدگی خطے کو غربت کی جانب دھکیل رہی ہے‘ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ایک دوسرے سے لڑنے کی جگہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر پُرامن طریقے سے جنوبی ایشیا میں بھوک، ناخواندگی اور بیماریوں کا مقابلہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ ماضی دفن کریں اور آگے بڑھیں‘ بھارت اور پاکستان کے مستحکم تعلقات ترقی کی ''چابی‘‘ہیں، بامعنی مذاکرات کیلئے مقبوضہ کشمیر میں ماحول سازگار بنانا ہوگا، جب تک اپنا گھر ٹھیک نہیں کریں گے باہر سے بہتری نہیں آئے گی۔ آرمی چیف کے اس بیان نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو ایک نئی جہت سے روشناس کرایا ہے جس میں اپنے گریبان میں جھانک کر اپنی غلطیوں کا ادراک بھی ہے اور ترقی کے لئے عزم بھی۔ بھارت سے بہتر تعلقات کے لئے پاکستان کی ہر حکومت کوشش کرتی رہی ہے لیکن بھارت ہر بار ہاتھ آگے بڑھا کر پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ پاکستان نے پھر ہاتھ بڑھایا ہے اور اہم بات یہ ہے کہ اس بار یہ ہاتھ ریاست پاکستان کی جانب سے بڑھا ہے کیونکہ حکومت کے ساتھ ساتھ تمام ریاستی اداروں میں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ بھارت سے تعلقات درست کیے بغیر پاکستان کے لئے دنیا میں اپنا مقام بنانا اور ترقی کی وہ بلندی حاصل کرنا ممکن نہیں جو ہماری 22 کروڑ کی آبادی کو خوشحالی کی راہ پر ڈال سکے۔
اس موقع پر مسئلہ کشمیر کے بہترین حل پر بھی خاصا زور دیا گیا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا تھا کہ اب ماضی کو دبا کر آگے بڑھنے کا وقت ہے لیکن قیامِ امن اور مذاکرات کے آغاز کیلئے بھارت کو خاص طور پر مقبوضہ کشمیر میں صورتحال سازگار بنانا ہوگی۔ آرمی چیف کے اس بیان نے نہ صرف بھارت بلکہ تمام بین الاقوامی میڈیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرلی۔ بھارتی میڈیا سے لیکر عرب اور امریکی میڈیا تک‘ ان کے بیان کو خاصی اہمیت دی گئی۔ امریکی میڈیا نے جنرل قمر جاوید باجوہ کے بیان کو انتہائی اہم قرار دیا۔
عالمی منظرنامے میں تبدیلی بھی اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی متقاضی ہے۔ امریکہ میں جوبائیڈن کے دور صدارت کے آغاز سے ہی یہ امید کی جا رہی تھی کہ امریکہ بھارت پر انسانی حقوق کے حوالے سے اپنا دباؤ بڑھائے گا جس کا لازمی نتیجہ مقبوضہ کشمیر میں کیے گئے بھارتی اقدام پر کوئی ہل جل ہونا تھی۔ آرمی چیف نے یہ بیان ایک ایسے موقع پر دیا جب دنیا کورونا وائرس سے لڑنے میں مصروف ہے اور دنیا بھر میں مل جل کر مسائل حل کرنے کی سوچ پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ ابھر رہی ہے۔ بھارت کے ساتھ تعلقات کی بحالی پاکستانی معیشت کیلئے بھی خوش آئند ہو گی۔ بھارت سے اپنے دیرینہ مسائل بات چیت کے ذریعے حل کرنے کیلئے ضروری تھا کہ بھارت کے ساتھ ہمارے معاشی تعلقات بہتر ہوں۔ ہمارے سامنے چین کی مثال بھی موجود ہے جو بھارت کے ساتھ کشیدہ تعلقات کے باوجود 77 ارب ڈالر تک کی باہمی تجارت کرتا ہے۔
امریکی نشریاتی ادارے وائس آف امریکہ نے اپنی رپورٹ میں آرمی چیف کے اس بیان کو امن کی جانب اشارہ قرار دیا۔ وائس آف امریکہ کے مطابق ان کا بیان اس جانب اشارہ کر رہا ہے کہ دونوں ممالک مذاکرات کی میز پر آنے کیلئے تیار ہیں۔ یہی نہیں بلکہ کثیر جہتی فورمز پر بھی ایک ساتھ کھڑے ہونے کی تیاری کر رہے ہیں‘ جس کا آغاز دونوں ممالک کے افسروں کے درمیان سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے آئندہ ہفتے ہونے والی ملاقات سے ہوگا۔
رواں ماہ کے اختتام پر افغانستان کے حوالے سے تاجکستان میں ہونے والی کانفرنس میں بھی پاکستان اور بھارت‘ دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کو مدعو کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے دونوں ممالک کے وزرا ایسے کسی ماحول میں ملاقات سے اجتناب کرتے رہے ہیں۔ دونوں ممالک کے مابین آخری بار 2015ء میں باقاعدہ طور پر بات چیت ہوئی تھی۔
امریکی میڈیا کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے اس بیان کے بعد بھارت کے لہجے میں روایتی سختی کم ہوئی ہے۔ رواں ہفتے کے آغاز پر بھارتی وزیرخارجہ ہرش سرینگلا نے بھی پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کرنے کی خواہش ظاہرکی تھی۔ بھارتی اخبار 'دی ہندو‘ نے اپنے ایک آرٹیکل میں بھارتی وزیرخارجہ کا بیان جاری کرتے ہوئے کہاکہ بھارت پاکستان کے ساتھ تمام مسائل کا باہمی اور پُرامن حل چاہتا ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق وزیر خارجہ کا یہ بیان بھارت کا سرکاری موقف بھی ہے لیکن بھارتی وزیر خارجہ نے بھارت کو اچھا دکھانے کیلئے دہشتگردوں کی پشت پناہی کے بے بنیاد الزامات دہراتے ہوئے پاکستان کو مذاکرات کے آغاز کیلئے سازگار ماحول فراہم کرنے کا بھی کہا تھا؛ تاہم ابھی تک بھارت کی جانب سے سرکاری سطح پر اس حوالے سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔
دوسری جانب بھارتی میڈیا میں اس حوالے سے وزیراعظم نریندر مودی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ''فورس میگزین‘‘کے ایڈیٹر پروین ساہنی کا کہنا ہے کہ نریندر مودی نے 2014ء میں پہلی بار وزیراعظم بننے کے بعد ہی بھارتی فوج کو سیاست میں گھسیٹنا شروع کر دیا اور فوج کو سیاسی مفاد کیلئے استعمال کیا گیا۔ نریندر مودی نے اپنے اقتدار میں آنے کے بعد ہونے والی پہلی کمبائنڈ سکیورٹی کانفرنس میں ہی یہ کہہ دیا تھا کہ بڑی لڑائی نہیں ہو گی‘ ہمیں چھوٹی لڑائی کیلئے تیار رہنا ہے اور پھر اس بات کو بنیاد بنا کر کسی بھی قوم یا فرد کو دہشت گرد قرار دے کر ختم کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا اور اس سارے عمل کی ریٹائرڈ آرمی افسروں نے نہ صرف شدید مخالفت کی بلکہ یہاں تک کہا کہ بھارتی فوج کے اعلیٰ افسروں کا کام اب صرف یہ رہ گیا ہے کہ وہ جا کر نریندر مودی کے سامنے کھڑے ہوں اور پوچھیں کہ ہمارے لیے کیا ''حکم‘‘ہے۔ ساہنی کے مطابق بھارتی فوج جب اپنا اصل کام ہی چھوڑ چکی تو آپ اب کہاں کے پروفیشنل ہیں؟ امریکی میڈیا نے اس معاملے میں ملوث ایک افسر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کی جانب سے بھارت کو ان تمام شرائط کی فہرست بھی تھما دی گئی جس کے بغیر دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات ممکن نہیں۔ اس فہرست میں آرٹیکل 370 کی بحالی اور مقبوضہ کشمیر کے کشمیریوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ فوری بند کیا جائے‘ جیسے اقدامات شامل ہیں۔
وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے سکیورٹی ڈاکٹر معید یوسف کے مطابق اسلام آباد میں دو روز تک جاری رہنے والی یہ تقریب محض ایک سکیورٹی ڈائیلاگ یا کانفرنس نہیں تھی بلکہ یہ پاکستان کی نئی پالیسی بیان کی جا رہی تھی۔ وزیراعظم اقتصادی سکیورٹی اور انسانی بہبود کا جوعزم رکھتے ہیں وہ ایک مثبت سمت ہے۔ بدقسمتی سے خطے میں کچھ دوسرے ممالک اس سوچ کے حامل نہیں۔ ایف اے ٹی ایف اور آئی ایم ایف کے ساتھ جاری ہمارے پروگرام‘ افغانستان میں امن پروسیس، ایران اور بھارت کے ساتھ ہمارے مذاکرات اس کا عملی ثبوت ہیں۔ پوری دنیا کی نظریں اس سکیورٹی ڈائیلاگ کانفرنس پر لگی ہوئی تھیں۔ یہ پاکستان میں اپنی نوعیت کی پہلی کانفرنس ہے۔ کشمیر کا پُرامن حل اور مستحکم پاکستان خطے کی قسمت بدل سکتا ہے۔ بھارت نے بھی اگر اپنی غربت کو دور کرنا ہے تو اسے ''امن‘‘کی طرف آنا پڑے گا۔ اس سارے عمل میں رکاوٹیں تو آئیں گی لیکن ہم نے یہ پروسیس جاری رکھنا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں