جون 1978ء میں بی بی سی کو انٹرویو میں اے این پی کے رہنما ولی خان صاحب نے کہا تھا ''جب تک پنجاب مقامی لیڈر پیدا نہیں کرلیتا پاکستان کی سیاست میں توازن پیدا نہیں ہو سکتا، پنجاب کی اپنی قیادت ہوگی تو نہ وہ کسی آمر کو پنجاب کی طاقت استعمال کرنے دے گی اور نہ ہی کسی آمر کو ایسی اجازت دے گی جس سے پنجاب کی جمہوری قیادت کو کمزور کیا جا سکے، ظاہر ہے جب جمہوریت مضبوط ہوگی تواس سے چھوٹے صوبوں کے ان حقوق کا تحفظ ممکن ہو سکے گا جو شخصی آمریتوں میں پامال ہوتے رہے ہیں‘‘۔
ولی خان صاحب کی اس خواہش یا پیشگوئی کو کیپٹن (ر) صفدر اپنے الفاظ میں بیان کرتے پائے جاتے ہیں اور ان کے خیال میں ولی خان نے نواز شریف کے متعلق یہ پیشگوئی کی تھی۔ یہ سب باتیں مجھے اے این پی کی پی ڈی ایم سے علیحدگی کے اعلان پر یاد آئیں۔ اے این پی کی طرف سے یہ اعلان امیر حیدر ہوتی نے کیا۔ ان کے ساتھ خان عبدالولی خان کے پوتے ایمل ولی خان بھی موجود تھے۔ اے این پی کی اپوزیشن اتحاد سے علیحدگی پر سب کی اپنی اپنی رائے ہے اور ہو سکتا ہے سیاسی اعتبار سے دوسروں کی رائے مجھ سے بہتر ہو؛ تاہم میں اس معاملے کو ایک اور نظر سے دیکھ رہا ہوں۔ اے این پی بائیں بازو کی سیاست کرتی ہے اور اس کا پی ڈی ایم سے علیحدگی کا اعلان بظاہر بائیں بازو کی اپوزیشن جماعت پیپلز پارٹی سے قربت کی بنا پر ہے لیکن یہ اقدام شاید اے این پی کو پختونخوا کی سیاست میں فائدہ نہ دے اور ممکن ہے اسے اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے۔ میری اس بات کو مسلم لیگ ن کی حمایت تصور کرنے سے پہلے پچھلے الیکشن کے نتائج پر نظر ضرور دوڑا لی جائے اور اس وقت کی سیاسی تصویر کو بھی ذہن میں رکھا جائے۔
پچھلے الیکشن میں بھی مسلم لیگ ن کا یہی بیانیہ تھا جو اب ہے اور اس وقت اے این پی نے مسلم لیگ ن کے بیانیہ سے اختلاف کرتے ہوئے موقف اپنایا تھاکہ اداروں کے درمیان تصادم کی فضا پیدا نہ کی جائے۔ اس بیانیے کا ثمر یہ نکلا کہ مسلم لیگ ن نے خیبرپختونخوا میں اے این پی کے مقابلے میں 4 لاکھ ووٹ زیادہ لیے۔ مسلم لیگ ن اور اے این پی کی راہیں جدا کیوں ہوئیں؟ سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کے تقرر پر پی ڈی ایم میں اختلاف پیدا ہوا اور ایک خصوصی طور پر بنائے گئے گروپ نے یوسف رضا گیلانی کو اپوزیشن لیڈر مقررکرانے میں کردار ادا کیا۔ یہ وہ نکتہ تھا جس پر اختلاف نے اتحاد میں دراڑیں ڈالیں اور پھر اے این پی اور پیپلز پارٹی کو ملنے والے شوکاز نوٹس نے آخری تنکے کا کردار ادا کیا۔ مقتدر قوتوں کے قریب ہونے کی خواہشمند اے این پی کی قیادت اپنے بڑوں کی راہ سے ہٹ گئی۔
اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ جے یو آئی (ف) اور اے این پی خیبر پختونخوا میں حریف جماعتیں ہیں‘ اس لیے اتحاد میں رہنا مناسب نہیں تھا اور سیاسی نقصان کا باعث تھا تو اسے ماضی میں جھانکنا چاہئے۔ ولی خان نے 70 کی دہائی میں جمعیت علمائے اسلام جیسی مذہبی جماعت سے مل کر اپنے سیکولر خیالات کے باوجود صوبہ سرحد میں مفتی محمود کی حکومت بنوائی تھی۔ 80 کی دہائی میں انہوں نے کمیونسٹوں کے ساتھ مل کر عوامی نیشنل پارٹی کی بنیاد رکھی۔ 90 کی دہائی میں انہوں نے نوازشریف سے ہاتھ ملایا جو ایک پنجابی سیاستدان کے طور پر ابھرے تھے۔
پی ڈی ایم شروع دن سے بھان متی کا کنبہ تھی جس میں مختلف النوع پارٹیاں شامل تھیں لیکن سب کا مقصد ایک ہی تھا جس کی بنا پر یہ اتحاد وجود میں آ گیا لیکن پاکستان کے سیاسی اتحادوں کی تاریخ میں شاید ہی کسی اتحاد کا انجام ایسا ہوا ہو گا جیسا اس پی ڈی ایم کا ہوا۔ وجہ یہ بنی کہ اس اتحاد نے ایک اجتماعی مقصد کے بجائے انفرادی فوائد حاصل کرنے پر زور لگانا شروع کیا۔ انجام یہی ہونا تھا۔ یہ سوچ تو تمام جماعتوں میں موجود تھی اور اس کا پرچار بھی کیا جا رہا تھا کہ یہ کوئی سیاسی پارٹی نہیں ہے بلکہ ایک اتحاد ہے جس میں ایک دوسرے کے خلاف الیکشن لڑنے والی پارٹیاں جمع ہیں لیکن آخر ایسا کیا ہواکہ دو چار قدم اٹھانے کے بعد ہی یہ لڑکھڑا گیا۔
اے پی سی کی 26 نکاتی قرارداد جو اس اتحاد کے بنیادی اصول وضع کرتی تھی اور جس کی بنیاد پر اس اتحاد کو کھڑا کیا گیا تھا‘ اس کا صرف ایک نکتہ موجودہ حکومت کا خاتمہ تھا جبکہ باقی 25 نکات عوامی‘ آئینی اور مملکت کو درپیش مسائل کے حل سے متعلق تھے۔ پی ڈی ایم نے اپنی تمام توجہ اور طاقت صرف اور صرف حکومت کے خاتمے اور اقتدار کی لالچ پر صرف کردی۔ پی ڈی ایم میں شامل کچھ جماعتوں نے مقتدرہ سے اپنا معاملہ سیدھا کر لیا یعنی ''لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا‘‘ والا معاملہ تھا‘ اگرچہ یہ عقد برضاورغبت انجام پذیر ہوا کیونکہ ایک صوبے کی حکومت اور قومی اسمبلی میں ایک اچھی خاصی تعداد سے ہاتھ دھو لینا وہ بھی اس لئے کہ باقی جماعتیں زیادہ فائدہ حاصل کرلیں‘ کہاں کی سیاسی دانش تھی اور جب رہنما کی سوچ یہ ہوکہ معاہدے کون سا قرآن و حدیث ہوتے ہیں پھر تو اس اتحاد سے جو فائدہ پیپلزپارٹی نے اٹھایا وہ بالکل جائز نظر آتا ہے۔ ن لیگ بھی پیپلزپارٹی سے سندھ میں قربانی تو مانگ رہی تھی لیکن پنجاب میں تحریک عدم اعتماد لانے پر راضی نہیں تھی کیونکہ یہاں اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو جاتی‘ جس کا امکان زیادہ تھا‘ تو انہیں سیاسی نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا اور طاقتوروں سے لڑائی بھی تھی لیکن محبوب سے وصال کی موہوم سی امید بھی تھی۔ نہیں بھائی ایسا نہیں ہو سکتا دو کشتیوں کا سوار دریا میں ہی گرتا ہے اور وہی ہوا۔ ادھر مولانا فضل الرحمن کیلئے یہ سیاسی اتحاد کم اور ذاتی مخاصمت زیادہ بن گیا تھا۔
دوسرا‘ سبھی جماعتوں کو شاید یہ نظر آ گیا تھاکہ یہ حکومت کہیں جانے والی نہیں‘ اس لئے اس اتحاد کو اگلے الیکشن کی تیاری کیلئے استعمال کیا جائے اور اب شاید ایسا ہی ہو‘ آپ نے دیکھاکہ اب پی ڈی ایم میں کم و بیش وہ جماعتیں رہ گئی ہیں جو 2013ء میں ن لیگ حکومت کی اتحادی تھیں‘ اس لئے اب یہ کہا جاسکتا ہے کہ نون لیگ اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر اگلے الیکشن کیلئے کمر کس رہی ہے۔
خان عبدالولی خان جب حیدرآباد جیل میں تھے تو ایک دن کمرے کی مرمت کیلئے آدمی آئے۔ انہوں نے پوچھاکہ خان صاحب آپ کی اس چکی کو کون سا رنگ دیا جائے، جو آپ کو پسند ہو، تو ولی خان نے کہاکہ یہ تو بھٹو سے پوچھا جائے کہ اسے کون سا رنگ دیا جائے کیونکہ میں تو یہاں چند دنوں کا مہمان ہوں‘ البتہ بھٹو صاحب یہاں مستقل طور پر رہیں گے اور جب بھٹو گرفتار ہوئے اور اسی کمرے میں قید ہو گئے تو ایک دن وہی ملازم ولی خان کے پاس آئے اور پوچھا کہ خان صاحب آپ کو پہلے سے کیسے معلوم تھاکہ بھٹو اسی کمرے میں آئیں گے جبکہ اس وقت بھٹو وزیراعظم تھے۔ ولی خان نے ازراہ مذاق کہا '' لوگ مرے ہوئے ولیوں اور پیروں پر یقین رکھتے ہیں تو زندہ 'ولی‘پر کیوں یقین نہیں کرتے‘‘۔ اب خان عبدالولی خان بھی دنیا سے جا چکے ہیں‘ لیکن ان کی سیاسی پیشگوئیاں اور سیاسی بصیرت کے واقعات انہیں ابھی تک سیاست میں زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ اگر ان کے سیاسی وارثوں نے ان کے نقش قدم پر چلنے کے بجائے وقتی مفادات کی سیاست کو ترجیح دی تو نہ صرف اپنا بلکہ قومی سیاست کا بھی نقصان کریں گے، ایک جماعت جو قیام پاکستان کی مخالف ہونے کا طعنہ جھیلتی آئی لیکن پاکستان بننے کے بعد ہمیشہ آئین پاکستان کی وفادار رہی اور پاکستان کے فریم ورک کے اندر جدوجہد کرتی رہی، اس کی موجودہ قیادت اس جماعت کو خیبر پختونخوا میں اپنے اقدامات سے غیرمقبول بنا رہی ہے۔