وزیر اعظم عمران خان نے وفاقی کابینہ میں ایک بار پھر تبدیلی کرتے ہوئے معروف بینک کار شوکت ترین کو وزارتِ خزانہ اور ریونیو کا قلمدان سونپ دیا ہے۔ 3 سال سے کم عرصے میں یہ چوتھا وزیر خزانہ تبدیل کیا گیا ہے اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ جب عبدالحفیظ شیخ کو ہٹایا گیا تو وزارت خزانہ کا چارج حماد اظہر کو دیا گیا تھا‘ اس طرح صرف 18 دن بعد ہی نیا وزیر خزانہ لایا گیا ہے جو ایک ریکارڈ ہے۔ حماد اظہرکو وزارتِ توانائی تفویض کی گئی ہے جبکہ عمر ایوب کو اکنامک افیئرز کا قلم دان دیا گیا ہے۔ خسرو بختیار کوصنعت و پیداوار کا وزیر بنایا گیا ہے۔ فواد چوہدری کو سائنس و ٹیکنالوجی کی خشک وزارت سے نجات دلاکر اطلاعات و نشریات کا قلمدان دے دیا گیا ہے جبکہ شبلی فراز کو وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کی ذمہ داری سونپ دی گئی ہے۔
ٹیم میں تبدیلیاں کپتان کا حق سمجھا جاتا ہے۔ کپتان خواہ کرکٹ کا ہو یا سیاست کا، اپنی ٹیم میں تبدیلیاں کرنے میں حق بجانب ہوتاہے لیکن اس بار کی تبدیلیاں کرکٹ کے ایسے کپتان کا گیم پلان لگتی ہیں جسے کھیل ہاتھ سے نکلتا دکھائی دیتا ہے اور وہ باؤلنگ درست کرنے کے بجائے فیلڈرز کو سخت سست کہہ کر اور کوس کر، فرسٹریشن کی حالت میں کبھی انہیں ایک پوزیشن پر بھیجتا ہے تو کبھی دوسری پوزیشن پر، لیکن میچ پر گرفت کمزور پڑتی چلی جا رہی ہے۔
کپتان جب اپوزیشن میں تھے تو ہر شعبے کے 200 ماہرین پر مشتمل ٹیم پاس ہونے کے دعویدار تھے لیکن جب اگست 2018ء میں 21 رکنی پہلی ٹیم بنائی تو اس میں 12 کھلاڑی مانگے تانگے کے تھے۔ یہ 12 کھلاڑی وہ تھے جو سابق صدر پرویز مشرف کی ٹیم کی طرف سے کھیل چکے تھے۔ مشرف الیون سے لئے گئے کھلاڑی یہ تھے: شیخ رشید، فواد چوہدری، ڈاکٹر فروغ نسیم، طارق بشیر چیمہ، غلام سرور خان، زبیدہ جلال خان، خالد مقبول صدیقی، شفقت محمود، مخدوم خسرو بختیار، عبدالرزاق داؤد، ڈاکٹر عشرت حسین اور ملک امین اسلم۔ اس ٹیم میں کپتان نے معیشت کے میدان کیلئے اپنا خود کا کھلاڑی چنا تھا۔ کپتان اور ان کی ٹیم کی طرف سے اپنے اس کھلاڑی اسد عمر کو اپوزیشن کے دنوں سے ہی معاشی جادوگر کے طور پر پیش کیا جاتا رہا تھا لیکن 8 ماہ بعد ہی انہیں اپنا کھلاڑی ریٹائرڈ ہرٹ قرار دے کر واپس بلانا پڑ گیا تھا۔
معیشت کی بہتری کے لیے زرداری الیون سے کھلاڑی ادھار لینا پڑا لیکن وہ کھلاڑی بھی بالآخر کپتان کو مایو س کرکے چلتا بنا۔ انصاف الیون سے کیریئر شروع کرنے والے حماد اظہر خزانے کے نگران بٹھائے گئے لیکن 18 دن بعد ہی انہیں بھی ہٹا دیا گیا اور ایک بار پھر مشرف الیون کا کھلاڑی میدان میں اتار دیا گیا۔ کپتان کی ٹیم کو صرف معاشی چیلنجز ہی درپیش نہیں بلکہ انہیں ٹیم کی نالائقیوں کو بھی چھپانا پڑ رہا ہے۔ کبھی ان کے کسی کھلاڑی کی سنگین نااہلی اور کرپشن سامنے آئی تو وقتی طور اسے منظر سے دور کر دیا گیا‘ لیکن پھر کچھ عرصے بعد چپکے سے اسے ٹیم میں جگہ دے دی گئی۔ اس کی کئی مثالیں ہیں، سابق وزیر صحت عامر کیانی کی رخصتی سب کو یاد ہوگی، فردوس عاشق اعوان صاحبہ کو مرکز کی ٹیم سے نکالا گیا لیکن کچھ وقت گزرنے کے بعد انہیں بزدار الیون میں جگہ دی گئی۔ بریگیڈیئر(ر) اعجاز شاہ سے وزارت داخلہ واپس لی گئی۔ اعظم سواتی اختیارات کے ناجائز استعمال پر باہر ہوئے لیکن پھر گیم میں ان ہو گئے۔ کئی وزیروں کو ٹیم سے نکالنے کے بجائے ان کی پوزیشن بار بار بدلی گئی۔
کپتان کے کھلاڑیوں میں ایک کھلاڑی ایسا بھی تھا جس کو نائب کپتان کا درجہ حاصل تھا، پارٹی کی تنظیم سازی سے لے کر عام انتخابات میں جیت کیلئے الیکٹیبلز کو شامل کروانے تک اور پھر 2018ء کے انتخابات میں آزاد حیثیت سے کامیاب ہونے والے اراکین قومی و صوبائی اسمبلیوں کو اپنے جہاز میں بٹھا کر کپتان کے کیمپ میں لا بٹھانے تک، اس نائب کپتان کے رول کو کسی طور بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اسی فضائی آمدورفت سے ''مسٹر ٹرانسپورٹر‘‘ کا لقب پانے والے کھلاڑی جہانگیر خان ترین بھی اس کپتان کی ''گڈبک‘‘ میں نہیں رہے۔ اپنے اس کھلاڑی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کپتان کا کہنا ہے ''میں کیا کرتا‘ سوا سال میں چینی 26 روپے اوپر چلی گئی‘ آپ نے کارٹل بناکر عوام کو لوٹا ہے سب کی بات سننے کو تیار ہوں‘ یہ نہیں ہو سکتاکہ غریب کے لئے قانون اور جبکہ امیر کیلئے الگ ہو۔ اب آپ کو حساب بھی دینا ہوگا‘‘۔
کپتان اور نائب کپتان کے درمیان بڑھتی ہوئی دوری کو دیکھ کر کپتان کے کچھ کھلاڑی جا کر نائب کپتان کے ساتھ کھڑے ہو گئے ہیں۔ اور تو اور کسی دور میں کپتان کے انتہائی بااعتماد کھلاڑی عون چودھری کے علاوہ نعمان احمد لنگڑیال اور اجمل چیمہ جیسے صوبائی وزرا بھی اسی صف میں کھڑے ہیں۔ زرداری الیون چھوڑ کر انصاف الیون میں آنے والے رکن قومی اسمبلی راجہ ریاض نے تو عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کپتان کو للکار بھی دیا۔ راجہ ریاض نے کہا ''خان صاحب! ہمیں انصاف چاہئے، ریاستِ مدینہ میں تحریک انصاف کے 40 ارکان انصاف مانگ رہے ہیں‘ اس بات کو اور آگے نہ بڑھائیں، ابھی تک بہت سوچ سمجھ کر تحریک انصاف کے پرچم تلے کھڑے ہیں، جہانگیر ترین کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے، کچھ دوستوں کے کہنے پر یہی رویہ رہا تو پھرہم بھی کوئی قدم اٹھا سکتے ہیں‘‘۔
کرکٹ اور سیاست دونوں ہی میدان ایسے ہیں کہ جس میں کیا گیا کوئی ایک بھی غلط فیصلہ کبھی کبھی آپ کو بہت دور لے جاتا ہے۔ کپتان اگرچہ اپنے کرکٹ دور میں بھی ''بولڈ‘‘ فیصلے کرنے کیلئے مشہور تھے اور پھر قسمت کی دیوی بھی ہمیشہ ان پر مہربان رہی ہے‘ لیکن کیا کریں کہ سیاست اور کرکٹ دو مختلف میدان ہیں۔ کرکٹ میچ میں ایک چھکا آپ کو شارجہ میچ جتوا سکتا ہے لیکن اس ایک چھکے سے پہلے اگر توصیف احمد جیسا کھلاڑی ایک رن لے کر جاوید میانداد کو کھیلنے کا موقع فراہم نہ کرے تو دنیا کا بڑے سے بڑا کھلاڑی بھی کریز کے دوسری طرف رہ کر میچ کو جتوا نہیں سکتا۔ سیاست میں کپتان کو توصیف احمد جیسے ایسے ہی کھلاڑیوں کی ضرورت ہے جو ہر وقت صرف اپنے انفرادی کھیل کو بہتر بنانے کے چکرمیں چھکے مارنے کیلئے ہی کریز سے باہر نہ نکلتے پھریں بلکہ اپنے کپتان اور پوری ٹیم کو کامیاب بنانے کیلئے دل وجان سے ڈلیورکریں۔ وہ ڈلیور کریں گے تو ہی کپتان کو باربار فیلڈنگ اور پوزیشننگ بدلنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
کرکٹ میں سب سے اہم چیز ہوتی ہے گیم پلان، عمران خان ورلڈ کپ کے فاتح ہیں، ہم انہیں گیم پلان کی اہمیت یا افادیت نہیں بتا سکتے لیکن ان کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو لگتا ہے کہ اقتدار میں آکر یا آنے سے پہلے ان کے پاس گیم پلان نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ اگر ہم مان لیں کہ ان کے پاس گیم پلان تھا تو بہت ہی پراسرار تھا جس پر شاید عمل نہیں ہو پایا اور اگر عمل ہو بھی رہا ہے تو ہم جیسے کمزور ایمان والوں کو سپر سائنس پر یقین رکھنے والے کپتان کی روحانی حکمت عملی کا ادراک نہیں ہو پایا۔
گیم پلان اکیلا کپتان نہیں بناتا بلکہ اس کپتان کو لانے والے بھی اس کا حصہ ہوتے ہیں، سیاسی میدان میں کپتان کی پہلی اننگز تھی لیکن ان کے گیم پلانر کیا کرتے رہے؟ یہ ایک اہم سوال ہے اور اس سوال کے جواب کی کھوج جس قدر تیز ہوتی جا رہی ہے، گیم پلانر بھی اس کھیل کو اپنانے سے انکاری نظر آتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ یہ کھیل بغیر کسی پلاننگ کے شروع ہوا تھا۔ کپتان کی قسمت یہاں پھر کام دکھا گئی اور ان کی مخالف ٹیم یعنی اپوزیشن بھی اس وقت ان فٹ یا نااہل ہے، اسی لیے یہ کھیل اب ٹیسٹ میچ میں بدل چکا ہے۔ محسوس ایسا ہوتا ہے کہ یہ میچ وقت سے پہلے ختم ہو گا اور نہ ہی اس کا کوئی نتیجہ نکلے گا۔