گزشتہ جمعرات کو کراچی میں ہونے والے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 249 کے انتخابی نتیجے کو لے کر حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف سے لے کر پاکستان مسلم لیگ (ن) تک‘ اور پھر مصطفیٰ کمال کی پی ایس پی سے لے کر ایم کیو ایم پاکستان تک تقریباً سبھی جماعتیں سندھ کی صوبائی حکومت اور الیکشن میں کامیاب ہونے والی پاکستان پیپلز پارٹی سے نالاں نظر آتی ہیں۔ این اے 249 میں بسنے والے ووٹرز پہ نظر ڈالیں تو اس حلقے کی خوبی سمجھیں یا پھر خامی‘ مگر سچ یہی ہے کہ یہاں پر پختون، اردو سپیلنگ، بوہری اور ہزارہ وال سمیت مختلف برادریاں بستی ہیں، شاید اسی لئے ماضی میں ہونے والے انتخابات میں مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے امیدوار یہاں سے کامیاب ہوتے رہے ہیں۔ اس حلقہ کے عوام نے 2018ء کے انتخابات میں تحریک انصاف کے امیدوار فیصل واوڈا کو کامیاب کروایا تو اس سے پہلے ایم کیو ایم بھی یہاں سے کامیاب ہوتی رہی تھی۔ اسی حلقہ کے عوام نے مسلم لیگ(ن) کے امیدوار کے سر پر فتح کا تاج سجایا اور پیپلزپارٹی کے امیدوار کو بھی منتخب کرکے قومی اسمبلی تک پہنچایا۔ سب نے اسمبلی میں جاکر پہلا کام یہ کیا کہ اپنے ووٹرز کو بھلا دیا۔ عوام کے ووٹوں سے ممبر قومی اسمبلی منتخب ہونے والے ہر ایم این اے نے ذاتی ترقی اور پارٹی فنڈز میں اضافے کیلئے تو شاید بہت کچھ کیا ہو گا لیکن اس حلقے میں بسنے والوں کو کوئی خاص لفٹ نہیں کرائی۔
29 اپریل کو ہونے والے قومی اسمبلی کے اس ضمنی الیکشن میں ووٹنگ کی شرح سرکاری اعدادوشمار کے مطابق21.64 فیصد رہی۔ تمام سیاسی جماعتیں اور سیاسی مبصرین عوام کی انتخابی عمل سے اس دوری کی مختلف وجوہات بیان کررہے ہیں۔ کسی کی نظرمیں سبب رمضان المبارک کا مہینہ ہے تو کوئی وجہ گرمی بتا رہا ہے۔ کچھ سمجھداروں کے مطابق کورونا کی پھیلتی وبا بنیادی طور پر ووٹرزکی اس عدم توجہی کی وجہ بنی ہے۔ ہو سکتا ہے تینوں وجوہات ہی درست ہوں اور واقعی ان میں سے کسی ایک یا تینوں وجوہات کی بنا پر ہی ووٹر اتنی کم تعداد میں گھروں سے نکل کر ووٹنگ سٹیشنز تک آئے ہوں لیکن میرے نزدیک اس کی ایک اور وجہ بھی ہے۔ مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ شاید ہمارے عوام بالعموم اور کراچی والے بالخصوص سیاسی جماعتوں کے دعووں، نعروں اور کارکردگی سے مایوس ہو چکے ہیں۔ اب ان کا نہ تو ان کھوکھلے نعروں پر اعتبار رہا ہے اور نہ ہی وہ کوئی مزید سبز باغ دیکھنا چاہتے ہیں۔
میں سب سے پہلے کراچی ہی کی بات کر لیتا ہوں۔ میں جو سوچ رہا ہوں اگر وہ واقعی درست ہے تو کراچی والوں کا اعتماد جمہوریت سے اٹھ تو نہیں گیا؟ وہ جذباتی ہو کر تو کوئی ایسا کام نہیں کر رہے؟ کیا یہ صرف عام انتخابات اور ضمنی انتخابات کے فرق کی وجہ سے ہوا ہے یا پھر آئندہ عام انتخابات میں بھی ہمیں اس طرح کی عدم دلچسپی دیکھنے کو مل سکتی ہے؟ ان تمام سوالوں کا جواب جاننے کیلئے پہلے ہمیں کراچی کا ''کیس‘‘ سمجھنا ہوگا۔
ایف بی آر کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کے مجموعی طور پر جمع کیے گئے انکم ٹیکس میں سب سے زیادہ حصہ کراچی کا ہے‘ جو سالانہ انکم ٹیکس آمدن میں 41.39 فیصد حصہ ڈالتا ہے‘ لیکن کراچی کو کئی بڑے مسائل کا سامنا ہے جن میں کوڑا کرکٹ، نکاسیٔ آب، صاف پانی کی فراہمی اور ٹرانسپورٹ کے مسائل شامل ہیں۔ وفاقی و صوبائی حکومتوں کی جانب سے کراچی ٹرانس فارمیشن پلان پر تقریباً 1100 ارب روپے خرچ کیے جانے ہیں۔ جن بڑے بڑے منصوبوں پر کام کیا جانا ہے ان میں کے 4 پراجیکٹ‘ کراچی سرکلر ریلوے، ریلوے فریٹ کوریڈور، گرین لائن بی آر ٹی پراجیکٹ، ندی نالوں کی صفائی اور ان کے رہائشیوں کی آباد کاری شامل ہے۔
اس پیکج سے قبل گزشتہ 5 برسوں میں تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کی وفاقی و صوبائی حکومتوں کی جانب سے کراچی کیلئے اربوں روپے کے پیکیجز کا اعلان کیا گیا لیکن پاکستان کے معاشی حب کے مسائل جوں کے توں رہے ہیں۔ 2015 میں بلاول بھٹوکی جانب سے کراچی کیلئے 150 ارب کے ترقیاتی پیکیج کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس کے بعد سابق وزیراعظم نواز شریف نے فروری 2016 میں گرین لائن بس کا سنگ بنیاد رکھا تھا اور اس کے ساتھ لیاری ایکسپریس وے، سرکلر ریلوے اور پانی کے منصوبوں کے حوالے سے بھی بڑے اعلانات کیے تھے۔ اگست 2017 میں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی جانب سے کراچی کیلئے 25 ارب روپے کے ترقیاتی پیکیج کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس کے بعد 30 مارچ 2019 کو وزیراعظم عمران خان نے کراچی ٹرانسفارمیشن کمیٹی کے تحت کراچی کیلئے 162 ارب کے پیکیج کا اعلان کیا تھا جبکہ پچھلے سال مارچ میں وفاقی حکومت نے ترقیاتی فنڈز کے نام پر اپنے ایم این ایز کو 3.4 ارب روپے دینے کا اعلان کیا تھا۔
تحریک انصاف کے پاس ایک سنہری موقع تھا کہ کراچی کے مسائل یکسر حل نہ بھی کرتی تو کم ازکم سنجیدہ نظر آتی لیکن 14 قومی اور 21 صوبائی نشستیں صرف کراچی سے جیتنے کے باوجود یہاں اس طرح توجہ ہی نہیں دی گئی‘ جس کی ضرورت تھی۔ ان پہلوؤں پر غور کرنیکے بعد بادی النظر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید انہی وجوہات کی بنا پر تحریک انصاف اس ضمنی انتخاب میں پہلے نمبر سے پانچویں نمبر پر چلی گئی ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی‘ دوسرے نمبر پر آنے والی مسلم لیگ (ن) کا اگرچہ نمبر تو تبدیل نہیں ہوا‘ لیکن اس کے ووٹوں میں نصف سے بھی زیادہ کمی ہوئی ہے۔
اب آ جاتے ہیں اس انتخاب کی ''دھینگا مشتی‘‘ کی طرف، انتخاب میں شامل ہر جماعت پیپلزپارٹی پر دھاندلی کا الزام لگا رہی ہے۔ مسلم لیگ ن کی طرف سے اس سارے کھیل کا ماسٹرمائنڈ صوبائی وزیر تعلیم سعید غنی کو قراردیا جارہا ہے۔مسلم لیگ (ن) کے قائدین کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی کے امیدوار قادر خان مندوخیل تو الیکشن ہار رہے تھے لیکن سعید غنی صاحب کی انٹری کے بعد ان کی شکست جیت میں تبدیل ہوگئی۔ این اے 249 سے مسلم لیگ ن کے امیدوار مفتاح اسماعیل نے تو چیف الیکشن کمیشن کو خط بھی لکھ دیاہے۔ اس خط کے متن کے مطابق ''مجھے ابھی تک 30 سے زائد پولنگ سٹیشنز کے نتائج ہی موصول نہیں ہوئے۔ ہمیں کچھ پریذائیڈنگ افسروں پر تحفظات ہیں۔ فارم 45 اور فارم 47 کے نتائج میں بھی فرق ہے، حلقہ کے ریٹرننگ افسر نے ہماری تمام درخواستیں مسترد کردی ہیں آر اوکا یہ رویہ ان کا متعصب ہونا واضح کرتا ہے‘‘۔ ان کی درخواست منظور کر لی گئی ہے‘ سرکاری نتیجہ روک لیا گیا ہے اور 4 مئی کو اس کیس کی سماعت ہو گی۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری کا کہنا ہے ''پیپلزپارٹی نے ایک نشست کیلئے جس طرح نظام کو یرغمال بنایا‘ اس سے الیکشن اصلاحات کی ضرورت کا احساس پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ محسوس ہوتا ہے‘ ایک بار پھر اپوزیشن سے کہتا ہوں کہ عمران خان کی تجاویز پر غور کریں ‘‘۔پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ اور اس حلقہ سے امیدوار مصطفی کمال نے تو اپنی جیت کا دعویٰ بھی کر دیا انہوں نے کہا ''بلدیہ ٹاؤن کے عوام نے پی ایس پی کے حق میں فیصلہ دیا فیصلے کوتبدیل کیاگیا‘ مینڈیٹ چوری نہیں ہونے دیں گے‘‘ ۔
ان تمام باتوں کے جواب میں پیپلزپارٹی کے سعید غنی کا کہنا ہے ''ہارنے والے اپنی ہار کو تسلیم کرنے کا حوصلہ کریں۔ کراچی کے عوام نے پیپلزپارٹی کی حکومت پر ایک بار پھر اعتماد کا اظہار کیا ہے‘‘۔ مسلم لیگ(ن) اور مفتاح اسماعیل پر تنقید کرتے ہوئے سعید غنی نے کہا ''مسلم لیگ ن 'ووٹ کو عزت دو‘ کا نعرہ لگاتی ہے لیکن جب یہ ہار جاتے ہیں تو اسی ووٹ کی تذلیل کرتے ہیں‘ 50 ہزار ووٹوں کا دعویٰ کرنے والے 15 ہزار ووٹ لے سکے، ان کے پاس تو پورے حلقے کیلئے پولنگ ایجنٹ بھی نہیں تھے‘ مفتاح اسماعیل نے پیسے دے کر بندے بٹھائے ہوئے تھے‘ میں نے تو اپنی پارٹی کو یہ تجویز دی ہے کہ حلقے میں ری پولنگ کروائی جائے تاکہ سچ سامنے آئے۔ ری پولنگ ہوئی تو اس میں بھی مسلم لیگ (ن) کو شکست ہوگی‘‘۔