پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کو لاہور ہائی کورٹ سے 8 ہفتے کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت ملی تو تحریک انصاف کے رہنماؤں نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ اگرچہ تادم تحریر شہباز شریف پر کوئی بھی جرم ثابت نہیں کیا جا سکا لیکن یہ تاثر دیا گیا کہ شاید عدالت نے کسی قومی مجرم کو آزادی کا پروانہ دیا ہے۔ تحریک انصاف کے رہنماؤں نے کرپشن کے خاتمے اور احتساب کی ساری ذمہ داری عدالتوں پر ڈالنے کی کوشش کی اور تاثر دیا کہ ان کی کوششوں میں نظام انصاف رکاوٹ بن رہا ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ 'اربوں روپے کی منی لانڈرنگ میں ملوث شہبازشریف کو باہر جانے کی اجازت دینا قانون کے ساتھ مذاق ہے، اتنا جلد فیصلہ تو پنچایت میں نہیں ہوتا، اس طرح ان کا فرار ہونا بد قسمتی ہو گی۔ ہمارے نظام عدل میں کمزوری کی وزیر اعظم کئی بار نشان دہی کر چکے ہیں لیکن اپوزیشن اصلاحات پر تیار نہیں اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس بوسیدہ نظام سے ان کے مفاد وابستہ ہیں‘۔
اپوزیشن لیڈر کے حوالے سے تحریک انصاف کے رہنماؤں کی گھبراہٹ بے سبب نہیں۔ اگر ہم شہباز شریف کو بیرونِ ملک روانگی کی اجازت سے پہلے ہونے والی سرگرمیوں اور بظاہر اس سے تعلق نہ رکھنے والے واقعات کو ملا کر دیکھیں تو تصویر واضح ہوتی ہے، کیونکہ سیاست میں کسی کھلاڑی کا ایک قدم دوسرے کھلاڑیوں کی کسی پیش قدمی یا گول پوسٹ پر ممکنہ حملے کا رد عمل یا جواب ہوتا ہے۔
مسلم لیگ ن کے صدر میاں محمد شہباز شریف کی ضمانت پر رہائی کے بعد اور بیرون ملک روانگی سے پہلے شہباز شریف کی چین اور برطانیہ کے سفیروں سے ملاقاتیں بہت کچھ بتا رہی تھیں۔ دوسری طرف حکومتی زعما بھی اس پیش قدمی کو دیکھ رہے تھے لیکن ان کی پیش بندی یا رد عمل گھبراہٹ کا بھرپور تاثر دے رہا تھا۔ اس سارے معاملے کو سمجھنے کے لیے شہباز صاحب کی ملاقاتیں اور کپتان صاحب کی سرگرمیاں ملا کر دیکھنا ہوں گی۔
اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف نے جیل سے رہائی پاتے ہی یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کی کہ وہ ایک سنجیدہ اور منجھے ہوئے سیاست دان ہیں جو کہ ملک و قوم کا درد بھی رکھتے ہیں اور موجودہ حکومت کی ناقص کارکردگی سے مایوس بھی ہیں۔ شہباز شریف نے اس سارے عمل میں انتہائی ''کیلکولیٹڈ مووز‘‘ کیں۔ انہوں نے اپنی پوری توجہ وزیرِ اعظم عمران خان کے اس بیانیہ کہ ''میرا متبادل کوئی نہیں ہے‘‘ پر مرکوز رکھی اور طاقتور حلقوں سمیت ہر جگہ پر یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کی کہ وہ نا صرف وزیر اعظم عمران خان کے متبادل ہو سکتے ہیں بلکہ ان سے بہتر متبادل ثابت ہوں گے۔ شہباز شریف کو یہ سب کچھ کرتے ہوئے اس طرح سے سپورٹ ملی کہ وہ عوام میں پہلے سے بھی ایک اچھے ایڈمنسٹریٹر کے طور پر اپنا تاثر قائم کر چکے ہیں اور طاقتور حلقوں کے ساتھ مفاہمت کے بیانیے نے بھی ان کو فائدہ پہنچایا۔
تصویر کا دوسرا رخ دیکھنے کے لئے اب اگر ہم حکومتی کیمپ کی بات کریں تو حکومتی بدحواسیاں بھی بہت سی باتوں کے اشارے دے رہی ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کی بات کریں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ ناصرف اپنی حکومت کی بیڈ گورننس سے نالاں نظر آتے ہیں بلکہ ان کی ساری توجہ بھی اب آئندہ ہونے والے انتخابات پر مرکوز ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق شاید یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم اب بطور سربراہ حکومت ایکٹ کرنے کے بجائے ایک مقبولیت پسند رہنما کے طور پر ایکٹ کر رہے ہیں، ان کے ذہن کے شاید کسی ''کونے کھدرے‘‘ میں یہ بات نقش ہو چکی ہے کہ جیسے کسی بھی وقت نئے انتخابات کا اعلان ہو سکتا ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے ہمیں وزیر اعظم کے چند اقدامات کو بھی پرکھنا ہو گا۔
اگر ہم ماضی قریب میں ہونے والے سینیٹ الیکشن کی بات کریں تو آپ کو یاد ہو گا کہ وزیر اعظم نے سینیٹ اجلاس سے پہلے ہونے والے اپنی پارٹی اجلاس میں اپنے مستعفی ہونے کی دھمکی دی تھی۔ وزیر اعظم شاید یہ سوچ رہے تھے کہ ان کی اس دھمکی یا طرز عمل سے ان کی پارٹی میں ہونے والی بغاوت رک جائے گی اور ان کی ٹکٹ پر منتخب ہونے والے ایم این ایز دوبارہ الیکشن میں جا کر کروڑوں روپے خرچ کرنے کے ڈر سے پارٹی لائن کو کراس کرنے سے رک جائیں گے‘ لیکن جہانگیر ترین کے ساتھ اکٹھے ہونے والے گروپ نے عمران خان کی اس سوچ کو بھی رد کر دیا، شاید اسی لیے چند روز پہلے وفاقی وزیر اسد عمر کے ذریعے سے ایک بات پھر یہ دھمکی دلوائی گئی کہ وزیر اعظم عمران خان اسمبلی توڑ سکتے ہیں۔
مسلم لیگ(ن) اور خصوصاً اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کے حوالے سے بھی حکومتی کیمپ میں یہ رائے پائی جا رہی ہے کہ ان کی مقتدر حلقوں کے ساتھ کہیں نہ کہیں کوئی ڈیل ہو چکی ہے یا پھر ہونے جا رہی ہے، ''واقفان حال‘‘ کے مطابق اب تک اگر کوئی ڈیل نہیں بھی ہوئی تو ڈھیل ضرور دی جا رہی ہے۔ اس طرح کی خبروں نے وزیر اعظم اور ان کی ٹیم کی بد حواسیوں میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ اب اگر وزیر اعظم کی مختلف ممالک میں تعینات پاکستانی سفیروں کے ساتھ ہونے والی ورچوئل میٹنگ کی بات کریں تو بہت سے اشارے ملتے ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں ان سفیروں سے جو کچھ کہا، بالکل ٹھیک کہا اور بطور وزیر اعظم ان کا حق بھی بنتا ہے کہ وہ اداروں کی اصلاح کے لئے اقدامات کریں، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس طرح کی گفتگو اور اس طرح کے اجلاس بند کمروں میں ہونے چاہئیں یا پھر میڈیا اور پوری دنیا کے سامنے؟ سفارت کاروں کو یوں سرِ بازار بے عزت کرنا بھی حکومتی بدحواسیوں کو ظاہر کرتا ہے۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ روز بروز بڑھتی ہوئی مشکلات نے حکومت کو خوفزدہ کر دیا ہے۔ اس وقت حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج آئندہ بجٹ پیش کرنا اور پھر اس کو قومی اسمبلی میں منظور کروانا ہے۔ وزیرِ اعظم ملک کی موجودہ خراب معاشی صورت حال میں بمشکل یہ بجٹ پیش کرنے کی کوششوں میں ہیں، وزارت خزانہ کی طرف سے یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ چین ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ہمیں ایک ارب ڈالر بجٹ سپورٹ کے طور پر دے گا‘ اسی طرح وزیر اعظم کے حالیہ دورہ سعودی عرب سے بھی یہ امید ہے کہ وہاں سے بھی 500 ملین ڈالر بجٹ سپورٹ کے لئے مل جائیں لیکن امریکہ سے بجٹ سپورٹ کی مد میں ابھی تک کچھ زیادہ ملنے کی توقع نہیں ہے۔
جو بائیڈن انتظامیہ دنیا بھر میں جمہوریت کو مضبوط کرنے کا منصوبہ لے کر چل رہی ہے۔ اس سلسلے میں امریکہ میں جمہوری ملکوں کی ایک کانفرنس بھی بلائی جا رہی ہے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق پاکستان کو اس کانفرنس میں نہیں بلایا جا رہا کیونکہ وائٹ ہاؤس انتظامیہ کے مطابق پاکستان میں مکمل جمہوریت نہیں ہے۔
اس ساری صورت حال میں جب وزیر اعظم کی اپنی جماعت میں ہی جہانگیر ترین کی قیادت میں ایک ایسا گروپ بھی موجود ہو جو اگر بجٹ اجلاس سے صرف غیر حاضر ہی ہو جائے تو حکومت کے لئے مشکلات بہت بڑھ جائیں گی۔ کورونا، روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی اور ملک کی خراب معاشی صورتحال میں مقبولیت پسند رہنما کے پاس اتنی رقم تو موجود نہیں کہ وہ عوام کو کوئی ریلیف دے سکے تو پھر باقی صرف بڑھک بازی ہی بچتی ہے جس میں تحریک انصاف شاید ''خود کفیل‘‘ ہے۔