مئی کا مہینہ چند دن کا مہمان ہے۔ جون دستک دے رہا ہے۔ ایسے میں تحریک انصاف کی حکومت کو ایک نئے چیلنج کا سامنا ہے، اور وہ ہے آئندہ مالی سال کا بجٹ۔ جون میں نئے وزیر خزانہ شوکت ترین بجٹ پیش کریں گے۔ اپوزیشن حکومت کی معاشی کارکردگی کو پہلے ہی خاصا آڑے ہاتھوں لے رہی ہے۔ گزشتہ ہفتے جب پاکستان فنانس کونسل نے جی ڈی پی گروتھ ممکنہ طور پر تین اعشاریہ نو چار فیصد رہنے کا عندیہ دیا تو کیا ن لیگ‘ کیا پیپلز پارٹی، اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے حکومت کے لتے لیتے ہوئے ان اعدادوشمار پر ناصرف سوال اٹھائے بلکہ ان کو غلط ثابت کرنے کی کوشش میں مختلف توجیہات بھی پیش کیں۔ روز بروز بڑھتی مہنگائی پر اپوزیشن تو کیا عوام بھی خاصے نالاں دکھائی دیتے ہیں۔ آٹا، چینی اور چکن سمیت اشیائے خورونوش کی قیمتوں پر قابو کیسے پانا ہے‘ حکومت کوئی میکنزم تیار نہیں کرپائی۔ وزیر خزانہ شوکت ترین ملکی معیشت کے حوالے سے خاصے پُراعتماد دکھائی دیتے ہیں اور انہوں نے مہنگائی کم کرنے کو اپنا ہدف بھی بتایا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ آئندہ مالی سال کا بجٹ کیسا ہوگا؟ مہنگائی کے مارے عوام کو ریلیف ملے گا یا آنے والے شب و روز مزید تکلیف میں گزریں گے۔
آئندہ بجٹ کے حوالے سے حکومت کو درپیش سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط پوری کی جائیں یا پھر عوام کو کوئی ریلیف دیا جائے؟ آئی ایم ایف کا بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ گردشی قرضے میں خاطر خواہ کمی کی جائے اور ٹیکس نیٹ بڑھا کر ریونیو میں اضافہ کیا جائے۔ دوسری طرف وزیراعظم عمران خان یہ چاہتے ہیں کہ آئندہ بجٹ میں پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کی مد میں ترقیاتی منصوبوں کیلئے 900 ارب روپے مختص کیے جائیں۔ اگرچہ ترقیاتی کاموں کو لے کر تبدیلی سرکار پر خاصی تنقید کی جاتی ہے اور اپوزیشن یہ توجیہ بھی پیش کرتی ہے کہ گزشتہ بجٹ میں ترقیاتی کاموں کیلئے 600 ارب روپے رکھے گئے تھے لیکن حکومت عوامی بہبود کے ان منصوبوں پر، صرف 250 ارب روپے ہی خرچ کر سکی تاہم وزیراعظم اور ان کی معاشی ٹیم بجٹ کے حوالے سے اس کوشش میں ہیں کہ چند ایسے اقدامات کیے جائیں‘ جن کے باعث اس حکومت کے عوام دوست ہونے کا تاثر قائم کیا جا سکے۔ وزیراعظم کے قریبی حلقوں کے مطابق اس میں وزیر خزانہ کو خصوصی ٹاسک دیا گیا ہے اور شوکت ترین نے وزیراعظم کو اس بات کا یقین دلایا ہے کہ وہ ڈیمانڈ اور سپلائی کے اصولوں پر مبنی ایسے اقدامات کریں گے جن کی مدد سے مہنگائی میں کمی لائی جا سکے۔
اقتصادی ماہرین کے مطابق حکومت کا آئندہ مالی سال کا بجٹ پرو گروتھ ہوگا‘ یعنی ایسے اقدامات کیے جائیں گے، جن کے باعث اکنامک ایکٹوٹی میں اضافہ ہو‘ مختلف سیکٹرز میں ترقی کی راہیں کھولی جائیں۔ اس مقصد کے لیے یقینی طور پر کچھ رعایتیں بھی دینا پڑیں گی۔ حکومتی ٹیم سے تعلق رکھنے والے اقتصادی ماہرین نے اس بات کا بھی امکان ظاہر کیا ہے کہ آئندہ مالی سال کا وفاقی بجٹ ٹیکس فری ہوگا‘ ٹیکس جو پہلے ہیں وہی رہیں گے اور ان کی شرح بھی وہی ہوگی‘ تاہم آئندہ قومی بجٹ میں طویل مدتی ٹیکس پالیسی متعارف کرائی جائے گی۔ اس بجٹ میں حکومت کی جانب سے جو اہم اقدام متوقع ہے وہ معیشت کو دستاویزی بنانے کا ہے۔ رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو دستاویزی بنانے کے لیے اس بات کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ کیپٹل گین ٹیکس میں کمی کر دی جائے گی۔ رئیل اسٹیٹ سیکٹر اور سونے کی خرید و فروخت میں بڑی مقدار میں سرمایہ کاری موجود ہے۔ اس بجٹ میں رجسٹرڈ سیونگ اینڈ انویسٹمنٹ اکاؤنٹ متعارف کرائے جانے کا بھی امکان ہے۔ یہ قدم چھوٹے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کے لیے اٹھایا جائے گا۔ وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق اب حکومت نئے ٹیکس نہیں لگانا چاہ رہی اور ٹیکس نیٹ بڑھانے کا ہدف بھی رکھتی ہے‘ چنانچہ ٹیکس گزاروں کی ہراسمنٹ ختم کرنے کے اقدامات بھی بجٹ میں تجویز کیے جا سکتے ہیں۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ترقیاتی اخراجات گزشتہ سال کے مقابلے میں زیادہ ہوں گے۔ تحریک انصاف کی حکومت اپنا چوتھا ا بجٹ پیش کرنے جارہی ہے۔ ایسے میں بعض حلقوں کی جانب سے یہ کہا جارہا ہے کہ آئندہ بجٹ سیاسی ہوگا۔ پی ٹی آئی حکومت اس میں کچھ ایسے اقدام کرے گی جو عوام میں مقبولیت حاصل کریں۔ روزگار اور کاروبار کے مواقع فراہم کرنے ہوں یا ملازمت پیشہ افراد پر معاشی بوجھ کم کرنا ہو‘ تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کے اعلانات ہوں یا بجلی‘ گیس کی قیمت نہ بڑھانے کے وعدے‘ آئندہ بجٹ میں اس بات کا امکان ہے کہ عوامی پسند کو ضرور مدنظر رکھا جائے گا۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق تحریک انصاف نے گزشتہ دو برسوں میں جو معاشی اہداف حاصل کرنے تھے وہ کرلئے ہیں۔ اس بجٹ میں عوام کو ریلیف دینے کی کوشش کی جائے گی، جو حکومت اپنے اہداف حاصل کرنے کے وجہ سے گزشتہ دو برسوں میں نہیں دے سکی تھی۔
معروف ماہر معاشیات ڈاکٹر فرخ سلیم کا آئندہ بجٹ کے حوالے سے کہنا ہے کہ خزانہ خالی ہے جبکہ حکومتی خواہشات بہت ہیں‘ ایسے میں حکومت جو بھی کام کرنا چاہتی ہے اس کے لیے پیسے چاہئیں‘زراعت اور صنعت سمیت کسی بھی سیکٹر میں کوئی انقلابی تبدیلی لانی ہے تو اس کے لیے پیسہ چاہیے‘ لیکن پیسہ ہی ہے نہیں، خزانہ خالی ہے۔ وزیر خزانہ شوکت ترین کے پاس وقت کم ہے اور اس کم وقت میں بجٹ کی تیاری، وہ بھی ایک ایسا بجٹ جو عوامی خواہشات کو مدنظر رکھتے ہوئے تیار کیا جائے، آسان نہیں۔ بجٹ کے بعد اگلے چند ماہ میں انتخابات کی تیاریاں زور پکڑنے لگیں گی‘ ایسے میں حکومت‘ چاہے کوئی بھی ہو، معاشی محاذ پر سخت اقدامات نہیں کر سکتی کیونکہ اس نے عوام سے ووٹ لینا ہیں۔ اب خزانے میں پیسے نہیں‘ وقت کم ہے اور حکمت عملی بھی ایسی کوئی نظر نہیں آرہی کہ معیشت میں ایک دم کیسے انقلابی تبدیلی لانی ہے۔
اس ساری صورتحال اور ان تمام پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے جیسے حکومت الیکشن کے قریب جا رہی ہے، ویسے ویسے اس کی بے چینی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ تقریباً 3 سال تک عوام کا تیل نکالنے کے بعد اب عوام کو ریلیف دینے کی باتیں تو ہو رہی ہیں لیکن ان حکمرانوں سے کیا امید کیجئے جن کے دور میں برائلر مرغی کا گوشت‘ جو پہلے عام آدمی کی پہنچ میں تھا‘ اس کی قوتِ خرید سے باہر کر دیا گیا ہے۔ آج یہ گوشت 450 سے 500 روپے فی کلو تک فروخت ہو رہا ہے۔ خیر تبدیلی حکومت کے تیسرے وزیر خزانہ شوکت ترین کے آتے ہی جو چند اچھی خبریں سننے کو ملیں ان میں جی ڈی پی میں ترقی کی شرح میں گزشتہ اندازوں کے برعکس حیرت انگیز طور پر اضافے کی خبر بھی شامل ہے‘ جبکہ سابقہ وزیر خزانہ حفیظ شیخ تو شاید عوام کو آئی ایم ایف سے جینے کی سزا دلوانا چاہتے تھے‘ لیکن شوکت ترین صاحب کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف سے نظرثانی کے لئے بات کی جائے گی۔ اب ترین صاحب کا اگلا چیلنج بجٹ کی تیاری اور اسے ممکنہ حد تک عوامی بنانا ہے کیونکہ حکومت چاروں طرف سے گھرتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ ایک طرف اپنے ہی مضبوط کھلاڑی جہانگیر ترین کی تلوار سر پر لٹک رہی ہے تو دوسری طرف مسلم لیگ ن کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کا جیل سے باہر آ جانا، حکومت کے لئے خطرے کی گھنٹی ثابت ہو رہا ہے اور جیسے جیسے شہباز شریف اپنی سیاست کی بساط پر اپنی چالیں کھیل رہے ہیں، حکومت کی پریشانی بھی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ اسی لئے یہ بجٹ حکومت کے لئے الیکشن مہم کا آغاز بھی ہو سکتا ہے کہ اگر حالات ایسے پیدا ہو جائیں کہ وقت سے پہلے الیکشن کروانا پڑ جائیں تو بھی حکومت عوام کے سامنے یہ منجن بیچنے کے قابل رہے۔