کالم لکھنے کے لیے خبروں پر نظر دوڑائی تو کئی ایک موضوعات لپکتے نظر آئے ، علی امین گنڈا پور کی کشمیر الیکشن میں رقم بانٹنے کی خبر دیکھ کر اس پر تبصرے کو دل چاہا کہ' صاف چلی شفاف چلی‘ کے دعویدار رنگے ہاتھوں پکڑے جانے پر کیسے کیسے جواز ڈھونڈ کر لا رہے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری کی مسلم لیگ ن پر تیر اندازی بھی دلچسپ لگی اور سوچا کہ آج مسلم لیگ ن کو پاؤں پکڑنے کا طعنہ دینے والے چیئرمین پی پی پی کو کیا یاد نہیں کہ انہوں نے کب کب اور کہاں کہاں مقتدر قوتوں کی خواہش پر تعاون کیا؟ صادق سنجرانی صاحب کے چیئرمین سینیٹ بننے کے لیے تعاون ہو یا اس سے پہلے سینیٹ الیکشن میں مسلم لیگ ن کی نشستیں کم کرنے کے لیے کی گئی واردات، یا پھر سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی سینیٹر شپ کے لیے حکومت سے لئے گئے ووٹ جس کا طعنہ شاہ محمود قریشی نے فلور آف دی ہاؤس پر بلاول بھٹو کی موجودگی میں دیا۔ مریم نواز شریف کا کشمیر میں انتخابی مہم کے دوران ایک بار پھر مزاحمتی انداز بھی کالم کا موضوع ہو سکتا تھا لیکن ان سب سے اہم موضوع اس ملک کے نوجوانوں کے مستقبل کے حوالے سے حکومتی رویہ اور پالیسی ہے ۔
قومی اسمبلی کے اجلاس سے مسلم لیگ ن نے امتحانات کے معاملے پر واک آؤٹ کیا۔ اسمبلی اجلاس کے دوران مسلم لیگ ن کے خواجہ سعد رفیق نے کہا: وزیر تعلیم شفقت محمود سے رابطہ کرکے کہا گیا کہ طلبہ کے امتحانات ملتوی کریں لیکن ابھی تک حکومت نے کوئی جواب نہیں دیا لہٰذا بتایا جائے کہ حکومت ایک امتحان لینے کے بعد طلبہ کو فیل کرکے 45 روزبعد پھر ضمنی امتحان کیوں لینا چاہتی ہے ؟
پارلیمانی سیکرٹری تعلیم وجہیہ اکرم نے کہاکہ بلوچستان میں امتحانات مکمل ہوچکے ، سندھ میں جاری ہیں اور جاری امتحانات کوکیسے مؤخرکیاجاسکتاہے؟ اس پر خواجہ سعد رفیق نے کہاکہ اس کامطلب یہ ہوا کہ حکومت امتحانات مؤخر کرنے کے معاملے پراپوزیشن سے بات نہیں کرنا چاہتی۔اس کے بعد مسلم لیگ ن سمیت اپوزیشن جماعتیں ایوان سے واک آؤٹ کرگئیں۔
مسلم لیگ ن کی طرف سے معاملہ اسمبلی میں اٹھائے جانے پر وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے جواب سوشل میڈیا پر دیا۔وفاقی وزیرنے کہاکہ امتحانات کیوں ملتوی کیے جائیں؟ ایسے طلبہ کو سزا کیوں دیں جن کی تیاری پوری ہے ۔ایسے طلبہ جو تیاری نہ ہونے کی وجہ سے مزید وقت مانگ رہے ہیں وہ سپلیمنٹری امتحانات دے سکتے ہیں اور سپلیمنٹری امتحانات دو تین ماہ بعد تمام امتحانی بورڈز کے تحت لیے جائیں گے ۔ حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھ کر مشاورت کرنے کو تیار ہی نہیں کیونکہ ملکی سیاست کا چلن ہی اب کچھ ایسا ہے ، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنے مستقبل کو انا اور ہٹ دھرمی کی بھینٹ چڑھانے کا فیصلہ کر چکے ہیں؟ کسی نے اب تک اس معاملے کو سنجیدگی سے لیا ہی نہیں، طلبہ کا اصل مسئلہ کیا ہے ؟ وہ کیوں سڑکوں پر ہیں؟ کیا وہ کام چور ہیں اور امتحان کی تیاری نہ ہونے پر احتجاج کر رہے ہیں یا ان کے سلیبس کے حقیقی مسائل ہیں؟
اس کو سمجھنے کے لیے بات پچھلے سال مارچ سے شروع کرنا پڑے گی جب کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے تعلیمی اداروں کی بندش کا فیصلہ ہوا۔ ملک میں 3 لاکھ سے زائد سکول بند کرنا پڑ گئے ، کالجز اور یونیورسٹیاں بھی متاثر ہوئیں۔ کراچی اور لاہور سمیت چند بڑے شہروں کے مہنگے تعلیمی اداروں کے طلبہ خوش قسمت تھے جنہیں ڈیجیٹل پلیٹ فارم میسر تھے لیکن لاکھوں پاکستانی بچے سمارٹ فونز، انٹرنیٹ سے محرومی کے باعث اس نئی صورت حال کا مقابلہ نہ کر پائے ۔ جن کے پاس سمارٹ فونز موجود بھی تھے ، وہ دیہی علاقوں میں ہونے کی وجہ سے تھری جی اور فور جی کی سہولیات سے محروم رہ گئے کیونکہ ہم ابھی تک پورے پاکستان میں اس ٹیکنالوجی کو پھیلا نہیں پائے ۔ پاکستان میں تعلیم تک رسائی پہلے ہی ایک مسئلہ تھی کیونکہ یونیسیف کے اعداد و شمار کے مطابق 7کروڑ بچوں میں سے پاکستان میں 2 کروڑ 28 لاکھ بچے پہلے ہی سکولوں سے باہر تھے ، کورونا وائرس کی وبا نے پاکستان میں امیر و غریب کے فرق کے علاوہ ٹیکنالوجی کی سہولیات میں پایا جانے والا تفاوت بھی نمایاں کر دیا۔ اسی وجہ سے یونیورسٹیوں کے طلبہ بھی آن لائن کلاسز کے خلاف احتجاج پر مجبور ہوئے تھے ۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ رہا کہ جہاں انٹرنیٹ کی سہولت بظاہر میسر ہے وہاں بھی کمزور اور ناقص نظام کی وجہ سے رابطے کا مسئلہ برقرار رہتا ہے ۔ بلوچستان، کے پی اور گلگت میں یہ مستقل مسئلہ ہے جبکہ پنجاب کے دیہی علاقوں میں بھی انٹرنیٹ کی رفتار آن لائن کلاسز کے لیے مناسب نہیں۔ براڈ بینڈ سروسز بہت مہنگی ہیں جبکہ ملک میں سمارٹ فون استعمال کرنے والوں کی تعداد بھی آبادی کے نصف سے کچھ زیادہ یعنی 51 فیصد ہے اور پی ٹی اے کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں سکولوں کے صرف 10 لاکھ طلبہ کو ڈیجیٹل سروسز تک رسائی میسر ہے ۔ 4 کروڑ پاکستانی بچوں کو ٹی وی کی سہولت میسر ہونے کی بنیاد پر حکومت نے فاصلاتی نظام تعلیم کو اپنایا اور ورلڈ بینک کی طرف سے 5 ملین ڈالر کی گرانٹ سے ٹیلی سکول کے نام سے تعلیمی سلسلہ شروع کیا گیا‘ لیکن ٹی وی پر تعلیمی سلسلہ کس قدر مؤثر ہو سکتا ہے جبکہ وہ ہنگامی طور پر شروع کیا گیا ہو اور طلبہ کے ساتھ ساتھ والدین کو بھی اس کا ادراک اور تجربہ نہ ہو‘ یہ جاننا چنداں مشکل نہیں ۔
سمارٹ فونز اور تھری جی یا فور جی ٹیکنالوجی کی سہولت کس قدر میسر ہے اس کا اندازہ کمزور مالی حالت کے گھرانوں سے رابطہ کرکے یا ایک سروے کرکے کرنا مشکل نہیں ، جہاں 4 سے 6 بچے سکول میں پڑھتے ہیں اور گھر میں صرف ایک سمارٹ فون میسر ہے اور وہ بھی گھر کے سربراہ کا ہے جو اپنی دفتری ضروریات کے لیے اسی سمارٹ فون پر انحصار کرتا ہے ۔اب تعلیمی ادارے کھلتے ہی امتحانات بھی سر پر آ گئے ہیں تو طلبہ شدید مشکل کا شکار ہیں، خصوصاً وہ طلبہ جنہیں سیکنڈری اینڈ انٹرمیڈیٹ بورڈز کے امتحانات میں شریک ہونا ہے ۔ طلبہ کی ان مشکلات کو مدنظر رکھے بغیر امتحانات کرانے پر مصر حکام اب یہ کہتے ہوئے دفاع کر رہے ہیں کہ جن کی اب تیاری نہیں وہ سپلیمنٹری (ضمنی) امتحانات میں شرکت کر سکتے ہیں۔ کیا سپلیمنٹری امتحان میں شرکت ہی ان کے پاس واحد فارمولہ ہے یا کچھ دیگر راستے بھی موجود ہیں؟ اس کا جواب جاننے کے لیے حکومت نے طلبہ کی بات بھی نہیں سنی اور اب اپوزیشن کے احتجاج کو بھی نظرانداز کیا جا رہا ہے ۔
اس سال امتحانات اور تعلیم کا جو بھی حشر ہوا وہ ایک ناگہانی آفت اور وبا کی وجہ سے تھا اور موجودہ حالات میں طلبہ کی بہتری کی بھی کوئی امید نظر نہیں آتی، لیکن یہ ایک وارننگ بھی ہے اور نظام تعلیم کے مسائل کی نشاندہی کا ایک موقع بھی۔ یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ آخری وبا تھی یا دوبارہ ایسے ہنگامی حالات نہیں ہوں گے۔ ٹیکنالوجی تک رسائی میں جو تفاوت نظر آیا اسے دور کرنے کے ساتھ ساتھ فاصلاتی نظام تعلیم کو جدید اور بہتر بنانے کی بھی ضرورت ہے۔ گھوسٹ سکولوں، غیر تربیت یافتہ اساتذہ سے چھٹکارا بھی نظام تعلیم کو جدید بنانے سے ہی ممکن ہو گا۔ اس وبا نے ہمیں بہت سے سبق دیئے ہیں، حکومتوں کو اب ہنگامی دور سے نکلنے کے بعد طویل مدتی منصوبے تشکیل دینا ہوں گے تاکہ مستقبل میں کسی آفت اور ناگہانی مصیبت میں ہم اپنے نظام تعلیم کو داؤ پر لگنے سے بچا سکیں۔ ایسا نہ ہو کہ ہم فاصلاتی نظام تعلیم کو بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کردیں اور یہ بھلادیں کہ ہمارے نظام تعلیم میں استاد کا کردار مرکزی ہے اور طلبہ کو ڈسپلن کے ساتھ تعلیم کی طرف متوجہ رکھنے میں استاد ہی کردار ادا کرتا ہے، ہمارے جیسے معاشروں میں طلبہ اپنے طور پر سیکھنے اور پڑھنے کی کم صلاحیت رکھتے ہیں، نظام تعلیم کی جدت کے ساتھ اساتذہ کو بھی جدید ٹیکنالوجی اور وسائل سے ہم آہنگ کرنا لازم ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کوالٹی ایجوکیشن بھی ہماری توجہ کا مرکز ہونی چاہئے۔