''پاکستان اس وقت دنیا میں رہنے کے لیے سب سے سستا ملک ہے، پٹرول کی قیمت میں اضافہ عالمی سطح پر تین ڈالر مہنگا ہونے کی وجہ سے ہے، اس کے باوجود پٹرول اور ڈیزل کی سب سے کم قیمت بھی پاکستان میں ہی ہے۔ ہم نے درست فیصلے کر کے معیشت اور عوام کو بچایا‘‘۔ ان خیالات کا اظہار وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ اتوار کو ''آپ کا وزیر اعظم آپ کے ساتھ‘‘ پروگرام میں عوام کی ٹیلی فون کالز اور سوشل میڈیا کے پیغامات کے براہ راست جواب دیتے ہوئے کیا۔
قومی سطح کا رہنما اور اس قدر اہم عہدے پر بیٹھا شخص اپنے مشیروں کی باتوں میں آ کر جب اس طرح کی باتیں کرتا ہے تو بہت دکھ ہوتا ہے۔ جس ڈاکومنٹ کو دیکھ کر وزیر اعظم نے عوام کو بتایا کہ پاکستان دنیا کا سستا ترین ملک ہے‘ اسے وزیر اعظم کے معاون خصوصی شہباز گل نے ٹویٹر پر شیئر بھی کیا۔ ڈاکٹر شہباز گل کے ٹویٹ پیغام کے مطابق ''ورلڈ پاپولیشن ویو سٹڈی بتاتی ہے کہ دنیا کے تمام ملکوں میں رہنے کے اخراجات کے مطابق پاکستان سستا ترین ملک ہے۔ اس سٹڈی میں گھر کے کرایہ، خورونوش، بجلی گیس کے بل، ٹیکس کا ریٹ، صحت کی سہولتوں پر خرچ جیسی تمام چیزوں کا تقابلی جائزہ لیا گیا‘ جس سے پتہ چلا کہ پاکستان میں سب سے کم مہنگائی ہے‘‘۔
وزیر اعظم اور ان کے وزیروں اور مشیروں نے جس رپورٹ کو بنیاد بنا کر یہ خوش کن اعلانات کیے وہ کسی مستند ادارے کی رپورٹ نہیں بلکہ ایک ویب سائٹ کا ڈیٹا ہے، جس نے ایک دوسری ویب سائٹ کے جمع کردہ اعداد و شمار کی بنیاد پر یہ ساری درجہ بندی کی ہے۔ یہ ویب سائٹ بھی کوئی خاص مستند نہیں‘ لیکن چلیں اگر آپ پہلی ویب سائٹ کو قابل اعتبار مانتے ہیں تو پھر اس کے دوسرے ڈیٹا کو بھی قابل اعتبار ماننا پڑے گا کیونکہ اسی ویب سائٹ کے مطابق پاکستان افراطِ زر یا مہنگائی کے لحاظ سے دنیا میں 18ویں نمبر پر ہے‘ یعنی پاکستان دنیا کا 18واں مہنگا ترین ملک ہے۔ اسی ویب سائٹ کے مطابق پاکستان دنیا کا چھٹا خطرناک ترین ملک ہے۔ اس بات سے تو یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا نیا پاکستان غیر محفوظ ہے؟
میں پھر بھی یہی کہوں گا کہ کسی ویب سائٹ سے زیادہ آپ کو اپنے اور مستند اداروں کے ڈیٹا پر انحصار کرنا چاہیے لیکن مجھے لگتا ہے مستند ڈیٹا کا ڈھول اس لیے نہیں پیٹا جاتا کہ وہ زیادہ اچھی تصویر نہیں دکھاتا۔ ورلڈ بینک کے ایک تخمینے کے مطابق پاکستان میں غربت کی شرح 4.4 سے بڑھ کر 5.4 فیصد ہو گئی ہے۔ اس سلسلے میں دو ڈالرز یومیہ سے کم قوت خرید (پاور پرچیز پیرٹی) کو پیمانہ بنایا گیا ہے۔ پاکستان میں 20 لاکھ سے زائد افراد انتہائی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ پاکستان میں غربت کا تناسب 39.3 فیصد ہے جبکہ نچلے متوسط طبقے کی یومیہ آمدنی 3.2 ڈالر ہے۔ متوسط طبقے کی آمدی 5.5 ڈالرز یومیہ ہے۔
حکومت کے اپنے سرکاری ادارے کی جانب سے کیے گئے پاکستان سوشل اینڈ لیونگ سٹینڈرڈ سروے کے مطابق انتہائی کسمپرسی کے شکار گھرانوں کی تعداد 7.24 فیصد سے 11.94 فیصد ہو گئی، غذائی عدم تحفظ کا شکار آبادی کی شرح 16 فیصد تک پہنچ گئی ہے، معاشی صورتحال میں بہتری والے گھرانوں کی شرح 16.48 فیصد سے کم ہو کر12.7 فیصد تک آ گئی ہے۔
اس کے علاوہ اقوام متحدہ کی معیار زندگی کے حوالے سے رپورٹ کے مطابق بہتر معیار زندگی گزارنے والے ملکوں میں پاکستان کا نمبر 154واں ہے۔ یو این ڈی پی کی اپریل 2021ء میں آنے والی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں طاقتور طبقات قانون میں موجود خامیوں اور پالیسیوں کو اپنے فوائد کے لیے استعمال کرتے ہیں جبکہ اس کی نمائندہ کے بقول پاکستان میں عدم مساوات صرف آمدنی اور دولت تک ہی محدود نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں امیر کی دنیا الگ اور غریب کی دنیا الگ ہے۔
ان اداروں کی جانب سے کی گئی سروے رپورٹس اور اعدادوشمار پر نظر دوڑائیں تو اس بات کا صاف پتہ چلتا ہے کہ مشیر کسی ویب سائٹ کا سکرین شاٹ نکال کے دے دیتے ہیں اور اسی کو بنیاد بنا کر قوم کو خوش خبری سنا دی جاتی ہے‘ لیکن کاش کہ ایسی خوش خبریاں سنانے سے پہلے سرکاری اداروں کی رپورٹس بھی پڑھ لی جائیں۔ اگر آپ نے مہنگائی اور قیمتوں کا تعین عالمی سطح پر اور دنیا کے دوسرے ممالک سے تقابل کرکے کرنا ہے تو پھر لوگوں کی آمدنی اور معیارِ زندگی بھی عالمی معیار کے مطابق بنائیں‘ ورنہ آپ کے ایک وزیر صاحب تو پہلے ہی اسمبلی فلور پر کھڑے ہو کر کہہ چکے ہیں کہ کہاں ہے غربت؟ دوسرے کئی وزرا بھی سیمنٹ اور گاڑیوں کی فروخت میں اضافے کا ذکر کرتے ہوئے عام آدمی‘ جو کہ شاید سائیکل بھی بمشکل رکھتا ہو گا، پر براہ راست بوجھ بننے والے آٹے، چینی، دوائی، بجلی و دیگر اشیا کی قیمتوں کا ذکر کرنا بھول جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ ٹیکسوں کے ذریعے بھی عوام کی کمر توڑی جا رہی ہے۔ سرکاری ٹیکس آمدنی کا بڑا ذریعہ ان ڈائریکٹ ٹیکس ہیں، جس کے اثرات امیروں کے مقابلے میں غریبوں پر بہت زیادہ ہیں۔ رواں مالی سال کے بجٹ میں 62.5 فیصد ٹیکس وصولی کسٹمز/ فیڈرل ایکسائز/ سیلز ٹیکس سے حاصل کی جائے گی‘ جبکہ بقیہ 37.5 فیصد جو کہ تقریباً سوا 2 کھرب روپے بنتے ہیں، براہ راست ٹیکس سے وصول کیے جائیں گے۔ بجٹ دستاویزات کے مطابق پچھلے مالی سال میں ان ڈائریکٹ ٹیکسوں پر انحصار 58.8 فیصد (2.92 ٹریلین روپے) تھا، جو موجودہ سال کے مقابلے میں کم تھا۔
پھر ٹیکسوں کے تحت، آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ پٹرولیم لیوی (PL) ہے، جس کا غریبوں پر فوری اثر پڑتا ہے کیونکہ پٹرول مہنگا ہونے سے ہر چیز کی قیمت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔2019-20ء میں 260 ارب روپے سے 73 فیصد اضافہ کر کے اس مد میں 450 ارب روپے حاصل کئے گئے تھے، جبکہ موجودہ سال اس میں مزید 160 ارب روپے کا اضافہ کر کے 610 ارب روپے (36 فیصد کا اضافہ) ٹیکس وصولی کا اندازہ لگایا گیا ہے۔
وزیر اعظم نے اتوار کے روز عوام سے براہ راست گفتگو کرتے ہوئے جہاں ایک طرف بار بار مہنگائی کا اعتراف کیا‘ وہیں اس پر قابو پانے کی اہمیت پر بھی زور دیا۔ انہوں نے بے روزگار نوجوانوں کو خوشخبری سناتے ہوئے کہا کہ ملک میں 800 نئے سٹوریج بنائے جائیں گے‘ جس سے لوگوں کو روزگار بھی ملے گا‘ اور مہنگائی پر بھی قابو پایا جا سکے گا۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت نے احساس سوشل سکیورٹی پروگرام کے تحت تازہ سروے کروایا ہے۔ اس سروے میں ملک میں بسنے والے تمام طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے متعلق مکمل معلومات حاصل کی گئی ہیں اور حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ملک کے کم آمدنی والے 40 فیصد لوگوں کو براہ راست سبسڈی کے ذریعے ریلیف مہیا کیا جائے گا۔ اس ضمن میں تنخواہ دار طبقے کو ترجیح دی جائے گی جو ملک میں بڑھنے والی مہنگائی سے سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ وزیر اعظم کا یہ اعلان غریب اور سفید پوش عوام کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے۔
وزیر اعظم اور ان کے رفقا کی ایسی اچھی اچھی باتیں سن کر مجھ سمیت کروڑوں پاکستانیوں کے دل خوش ہو جاتے ہیں‘ بلکہ ملک میں جاری مہنگائی میں کمی کی آس بھی پیدا ہوتی ہے لیکن کیا کریں ابھی جس وقت میں یہ کالم لکھ رہا ہوں‘ میرے سامنے لگی ٹیلی ویژن سکرینوں پر ایک بار پھر یوٹیلٹی سٹوروں پر بکنے والی روزمرہ کی چیزوں کی قیمتوں میں اضافے کی خبریں چل رہی ہیں۔ ایسے میں عوام یہ سوچنے میں حق بجانب ہیں کہ وہ حکومت کی چکنی چپڑی باتیں سن کر خوش ہوں یا پھر مارکیٹوں اور بازاروں میں روزانہ کی بنیاد پر قیمتوں میں اضافے پر ماتم کریں۔