"IYC" (space) message & send to 7575

تبدیلی سرکار کے تین سال… چند حقائق

''لوگ خوشحال ہو رہے ہیں، میرے اعداد و شمار اسحاق ڈار والے نہیں بلکہ اصلی ہیں، فوج، عدلیہ، سیاست دان سب غلطیاں کرتے ہیں، کوئی بھی ادارہ غلطی کر سکتا ہے۔ ماضی میں میں نے بھی فوج پر تنقید کی، میں نے فوج کی غلطیوں پر تنقید کی لیکن اس کا مقصد یہ نہیں کہ آپ اپنی فوج کو بُرا بھلا کہنا شروع کردیں اور اس کے پیچھے پڑ جائیں، مافیاز فوج کے پیچھے اس لیے پڑے ہیں کہ فوج حکومت گرا دے، تبدیلی کا راستہ انتہائی کٹھن ہے، کامیابی کا کوئی شارٹ کٹ ہے نہ کوئی پرچی پکڑ کر لیڈر بن سکتا ہے، حکومت ملی تو ہماری ٹیم ناتجربہ کار تھی، ملک دیوالیہ ہونے والا تھا، آج زرمبادلہ کے ذخائر 29 ارب ڈالر کی سطح پر ہیں، 4700 ارب روپے ٹیکس اکٹھا کیا جارہا ہے، سیمنٹ کی فروخت میں 40 فیصد اضافہ ہوا، موٹر سائیکلیں، گاڑیاں اور ٹریکٹر ریکارڈ تعداد میں بیچی گئیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگ خوشحال ہو رہے ہیں‘‘۔
یہ وہ چند باتیں ہیں جو وزیر اعظم عمران خان نے اپنی حکومت کے 3 سال مکمل ہونے پر اپنی پارٹی پاکستان تحریک انصاف کی کارکردگی کے حوالے سے جناح کنونشن سینٹر اسلام آباد میں ہونے والی تقریب کے دوران اپنے خطاب میں کیں۔ تحریک انصاف کی طرف سے منعقدہ اس تقریب کو دیکھ کر اور اس میں ہونے والی تقریریں سن کر اس بات کا اعتراف تو کرنا ہی پڑے گا کہ اس پارٹی کو ایونٹ مینجمنٹ میں مہارت حاصل ہے۔ اسلام آباد کنونشن سینٹر کے ہال میں جس انداز سے اپنی کامیابی کا جشن منایا گیا، تقریروں اور گانوں میں جو جو سپاسنامے پیش کیے گئے ان کو دیکھ اور سن کرتو ایسا محسوس ہورہا تھا‘ جیسے پاکستان میں واقعی خوشحالی کا دور دورہ ہو چکا ہے، دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگ گئی ہیں اورغربت کا تو جیسے مکمل خاتمہ ہی ہو گیا ہو‘ لیکن میں کیا کروں کہ جب بطور ایک پاکستانی صحافی اور تجزیہ کار اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی کیلئے حقائق پر نظر ڈالتا ہوں تو صورتحال کچھ مختلف نظر آتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کورونا وبا کے باعث پوری دنیا میں معیشت بری طرح سے متاثر ہوئی ہے جس کے باعث ناصرف بے روزگاری اور غربت میں اضافہ ہوا ہے بلکہ عوام کو مہنگائی کے طوفان کا بھی سامنا ہے۔ پاکستان کا شمار ان چند خوش نصیب ممالک میں ہوتا ہے جہاں اللہ کے فضل و کرم سے یہ وبا نہ صرف کم رہی بلکہ اس پر کافی حد تک قابو بھی پا لیا گیا ہے۔ ہماری سیاست کا ہمیشہ سے یہ المیہ رہا ہے کہ اپنی نااہلیاں چھپانے کے لئے ان کا ملبہ دوسروں پر ڈال دیا جاتا ہے۔ کچھ یہی طرز حکومت تبدیلی سرکار کا بھی ہے۔
پاکستان مسلم لیگ ن نے جب 2013ء میں اقتدار سنبھالا تھا تو ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے کرپشن پرسیپشن انڈیکس میں پاکستان 127ویں درجہ پر تھا اور 2018ء میں جب ان کا اقتدار ختم ہوا تو پاکستان 117ویں درجہ پر آ چکا تھا، لیکن تبدیلی حکومت کے ان 3 سالوں پر نظر ڈالیں تو 2020ء میں جاری ہونے والے اسی انڈیکس میں پاکستان دوبارہ 124ویں درجے پر چلا گیا ہے، یعنی ''چوروں‘‘ کی حکومت میں دنیا کی نظر میں وطنِ عزیز میں کرپشن کی صورتحال سات درجہ بہتر تھی۔
تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں مختلف پہلوئوں کا جائزہ لیتے ہوئے سب سے پہلے اشیائے خورونوش کی قیمتوں پر بات کر لیتے ہیں۔ وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق اگست 2018ء سے اگست 2021ء کے دوران آٹے کا 20 کلو کا تھیلا 362 روپے 33 پیسے مہنگا ہوا، چینی اوسطًٓ 50 روپے فی کلو مہنگی ہوئی‘ دار مسور 43 روپے، دال مونگ 68 روپے، دال چنا 29 روپے فی کلو مہنگی ہو گئی۔ بکرے کا گوشت 337 روپے، گائے کا گوشت 169 روپے فی کلو، برائلر مرغی زندہ 37 روپے فی کلو تک مہنگے ہو گئے۔ تازہ دودھ 25 روپے فی لٹر، دہی 26 روپے فی کلو مہنگا ہوا‘ انڈے 58 روپے فی درجن مہنگے ہوئے، ایل پی جی کا گھریلو سلنڈر 530 روپے مہنگا ہوا۔ بناسپتی گھی اور خوردنی تیل کی قیمتیں 2018ء کے مقابلے میں دُگنی ہو چکی ہیں، 16 کلو گھی اور خوردنی تیل کی قیمت 31 مئی 2018ء کو 2200 روپے تھی جو آج بڑھ کر 4400 روپے سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔ 2018ء میں کوکنگ آئل جو اوسطاً 190 روپے فی کلو ملتا تھا‘ اب 340 روپے فی کلو میں بک رہا ہے۔
جون 2020 میں اپسوس کی جانب سے کئے گئے ایک سروے کے مطابق 91 سے 98 فیصد پاکستانیوں کو اکنامک ٹرمنالوجیز کے بارے میں کچھ علم نہیں۔ وہ جی ڈی پی، معاشی ترقی، گردشی خسارہ وغیرہ کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ ان کو سروکار ہے تو صرف اس بات سے کہ گھر کا خرچہ چلانے کیلئے‘ بجلی، گیس اور پانی کے بلوں کی ادائیگی سمیت دیگر خرچوں کیلئے ان کے پاس پیسے ہیں یا نہیں۔ تحریک انصاف کے اقتدار میں آنے کے ایک سال بعد مالی سال 2019ء میں پاکستان کا جی ڈی پی 11 فیصد کمی کے بعد 314 ارب ڈالر سے 278 ارب ڈالر پر آ گیا تھا۔ گزشتہ مالی سال کے دوران اس میں مزید کمی واقع ہوئی اور جی ڈی پی 263 ارب ڈالر پر آ گیا۔ اگرچہ اب یہ 296 ارب ڈالر تک جا پہنچا ہے‘ تاہم اب بھی ماضی کی نسبت کم ہے۔ اگست 2018ء میں تحریک انصاف کے حکومت میں آنے سے قبل مالی سال 2018ء میں ملک پانچ اعشاریہ پانچ فیصد کی شرح کے ساتھ ترقی کر رہا ہے، تاہم حکومت میں آنے کے بعد تحریک انصاف کی ناقص معاشی پالیسیوں کے سبب ملکی ترقی کی شرح میں گراوٹ دیکھنے میں آئی اور مالی سال 2019ء میں پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح 166 فیصد کمی کے ساتھ 2 فیصد پر آکھڑی ہوئی۔ اسی طرح گزشتہ مالی سال میں ملکی ترقی کی شرح مزید تنزلی کا شکار ہو کر منفی صفر اعشاریہ 4 فیصد تک گر گئی۔ اس سے قبل پاکستان کی معیشت میں منفی گروتھ 1951 اور1952 میں دیکھی گئی تھی۔ معیشت کے شکاری 4 وزیر و مشیر خزانہ تبدیل کر چکے ہیں جبکہ 3 سال میں 7ویں چیئرمین ایف بی آر کی تقرری بھی کی گئی ہے۔ موجودہ حکومت نے بجلی کی قیمتوں میں 7 مرتبہ اضافہ کیا۔ اب تک بجلی کے بلوں میں فی یونٹ 8 روپے 95 پیسے کا اضافہ ہو چکا ہے‘ جو بجلی کا یونٹ 12 روپے کا تھا اب وہی یونٹ 21 روپے سے تجاوز کر گیا ہے۔ تمام زرعی مداخل، مشینری، سیڈ، پیسٹی سائیڈز کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، ڈی اے پی اور یوریا کھاد کی بوری کی قیمت میں 30 سے 40 فیصد اضافہ ہوا۔ گیس کی قیمت 144 فیصد بڑھا دی گئی۔ ملکی معیشت پر قرضوں کے بوجھ میں تواتر سے اضافہ ہو رہا ہے‘ البتہ تحریک انصاف کے برسر اقتدار آنے کے بعد ملکی قرضوں میں ریکارڈ52 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ گزشتہ 3 سالوں میں قرضے اکٹھے کرنے کی رفتار میں تیزی رہی۔ جون 2020 میں پاکستان کے واجب الادا قرضے 44.50 ہزار ارب روپے ہو چکے تھے۔ تحریک انصاف کی حکومت نون لیگ کے 5 سال سے بھی 3 ہزار ارب روپے زائد قرض اپنے 3 سالوں میں حاصل کر چکی ہے۔
اب تھوڑا سا ذکر ادویات کا بھی کر لیتے ہیں۔ تبدیلی سرکار نے گزشتہ 3 سالوں کے دوران ادویات کی قیمتوں میں مجموعی طور پر 13 مرتبہ اضافہ کیا‘ جو کل ملا کر ساڑھے 700 فیصد بنتا ہے۔ اس کے علاوہ تمام سرکاری ہسپتالوں میں مفت میڈیکل ٹیسٹوں اور تشخیص کی سہولت بھی ختم کر دی گئی۔ حکومت اپنی 3 سالہ کامیابیوں کا جشن مناتے وقت ان حقائق کو بھی مدنظر رکھ لیتی تو کیا ہی بہتر ہوتا!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں