راولپنڈی کرکٹ سٹیڈیم میں پاکستان اور نیوزی لینڈ کے مابین پہلے ون ڈے میچ کے لیے تمام انتظامات مکمل تھے۔ نیوزی لینڈ کی ٹیم 2003ء کے بعد پہلی بار پاکستان کے دورے پر تھی۔ میچ سے پہلے ٹاس کے لیے گراؤنڈ میں باؤنڈری لائن کے ساتھ دو مائیک بھی لگائے جا چکے تھے۔ میچ براہ راست نشر کرنے کے حقوق رکھنے والے ٹی وی چینلز اپنے کیمرے سیٹ کر چکے تھے۔ تماشائیوں کو سٹیڈیم میں داخلے کا شدت سے انتظار تھا۔ اور پھر نیوزی لینڈ کرکٹ بورڈ کا اعلان سامنے آیا کہ میچ منسوخ کر دیا گیا ہے اور کھلاڑی واپس گھروں کو جائیں گے۔ پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی پر خوشی مناتے عوام اور میڈیا سوگوار نظر آئے اور وزیر داخلہ نے کیمروں کے سامنے آ کر اعلان کیا کہ ''دستانوں میں چھپے ہاتھ کام دکھا گئے ہیں‘‘ لیکن انہوں نے کسی ملک کا نام نہ لیا۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ پاکستان کے کسی ادارے کے پاس کسی بھی تھریٹ کی اطلاع نہیں تھی۔
سکیورٹی خطرات کے نام پر میچ کی منسوخی کے بعد افواہیں گردش کرنے لگیں۔ کسی نے برطانیہ کا نام لیا اور کسی نے ہمسایہ ملک کو برا بھلا کہا۔ برطانوی ہائی کمشنر کو سوشل میڈیا پر وضاحت پیش کرنا پڑی کہ ان کے ملک کی طرف سے کسی انٹیلی جنس شیئرنگ کی بنیاد پر میچ منسوخ نہیں ہوا اور لندن کا اس افسوسناک ایونٹ میں کوئی کردار نہیں۔ سوشل میڈیا پر جذباتی عوام نے نیوزی لینڈ بورڈ اور حکومت کو لتاڑنا شروع کردیا۔ بعض لوگوں نے مارچ 2019 میں نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں حملوں کا بھی ذکر کیا اور اس کا موازنہ پاکستان میں دورے سے کیا گیا۔
نیوزی لینڈ کی ٹیم کے دورۂ پاکستان کے التوا کے بعد انگلش کرکٹ بورڈ کے ترجمان نے بھی کہا ہے کہ انگلش ٹیم کے پاکستان کے دورے کے بارے میں حتمی فیصلہ آئندہ 48 گھنٹوں میں کیا جائے گا۔ انگلش ٹیم نے ورلڈ ٹی20 مقابلوں سے قبل دو ٹی20 میچ کھیلنے کے لیے پاکستان آنا ہے جبکہ برطانوی خواتین کی ٹیم بھی پاکستان کا دورہ کرنے والی ہے۔ ای سی بی کے ترجمان نے کہا کہ نیوزی لینڈ ٹیم کے سکیورٹی خدشات کے باعث دورۂ پاکستان ختم کرنے کے فیصلے کا علم ہے اور وہ پاکستان میں موجود اپنی سکیورٹی ٹیم سے مکمل رابطے میں ہیں تاکہ صورتحال کو سمجھا جا سکے۔ برطانوی ٹیم کا دورہ ملتوی ہونے کے خدشات زیادہ ہیں کیونکہ ان دونوں ٹیموں کے لیے سکیورٹی کنسلٹنٹ ایک ہی ہے۔ اگر اس کنسلٹنٹ کے مشورے پر کیویز واپس گئے ہیں تو برطانوی ٹیم کا دورہ بھی اسی کے مشورے پر منحصر ہے۔
لوگوں کے کرکٹ کے ساتھ دیوانگی کی حد تک لگاؤ کی وجہ سے یہ سب سے بڑی خبر تھی حالانکہ افغانستان کے حالات کی وجہ سے خطے میں بہت سے معاملات چل رہے ہیں۔ پاکستان کے لیے شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس اہم تھا جہاں وزیر اعظم ملک کی نمائندگی کے لیے موجود تھے لیکن یہ ایونٹ بھی الیکٹرانک میڈیا لیے پہلی اور بڑی خبر نہ بن سکا۔ وزیر داخلہ کا بیان اور سوشل میڈیا پر عوام کا ردعمل سمجھ میں آنے والی بات ہے لیکن نیوزی لینڈ ٹیم کے دورے کا منسوخ ہونا ہمارے لیے کئی سوال چھوڑ گیا ہے جن پر سوچ بچار کی ضرورت ہے۔
ہماری حکومت افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد سے جو موقف اپنائے ہوئے ہے وہ دنیا کے لیے قابل قبول نظر نہیں آتا۔ ہم بار بار کابل کی عبوری حکومت کی ترجمانی کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ ہمارے کرتا دھرتا دنیا کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ طالبان بدل گئے ہیں اب ان سے معاملات طے کئے جائیں اور اس جنگ زدہ ملک کی تعمیر نو میں رہنمائی اور مدد فراہم کی جائے۔ دنیا اس بات کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ اس کی بنیادی وجہ طالبان کا ٹریک ریکارڈ اور پچھلی حکومت میں اپنایا گیا رویہ ہے۔ دنیا توقع رکھتی تھی کہ طالبان اگر واقعتاً بدل گئے ہیں تو وہ غیرملکی طاقتوں کے جانے کے بعد پورے افغانستان کی نمائندہ حکومت بنائیں گے، خواتین اور اقلیتوں کے حقوق یقینی بنائیں گے۔ عبوری حکومت بناتے ہوئے طالبان نے ان توقعات کو نظرانداز کیا اور اب کہا جا رہا ہے کہ مستقل حکومت کی تشکیل میں ان توقعات کو مدنظر رکھا جائے گا۔ ممکن ہے وہ ٹھیک کہتے ہوں‘ لیکن کیا کابل اور قندھار کی سڑکوں پر احتجاج کرتی خواتین کو مارنے کی ویڈیوز اور احتجاج ریکارڈ کرتے کیمرہ پرسنز اور صحافیوں کے اغوا اور تشدد کے واقعات اس حکومت کو قابل قبول بنا سکتے ہیں؟
ابھی وزیرستان میں شہید ہونے والے ہمارے فوجیوں کا غم تازہ ہے اور ہمارے 'منتخب‘ حکمران ٹی ٹی پی کیلئے عام معافی کی پیشکش لیے پھرتے ہیں۔ اس سے پہلے داسو اور کوئٹہ میں دہشتگردی کے بڑے واقعات ہو چکے ہیں۔ ایک خطرہ ہے جو مسلسل ہمارے سروں پر منڈلا رہا ہے۔ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرکے خطروں سے خود کو محفوظ تصور کرنے کی عادت اب ہماری فطرت ثانیہ بنتی نظر آتی ہے، آخر کیوں؟ وزیر داخلہ سچ کہہ رہے ہوں گے کہ نیوزی لینڈ ٹیم کو کوئی خطرہ نہیں، میں یہ تسلیم کرنے کی کوشش کر رہا ہوں لیکن یہ سوال بار بار میرے ذہن میں گونجتا ہے کہ داسو حملے کو بھی اس حکومت نے حادثہ بتایا تھا پھر چین کے احتجاج اور ردعمل کے بعد اسے دہشتگردی مانا گیا۔ ہم دہشتگردوں کو دہشتگرد کیوں نہیں کہتے؟ عام معافی کی پیشکش پر ٹی ٹی پی کا جواب بھی نیوزی لینڈ ٹیم کے دورے کی منسوخی سے پہلے آیا۔ اس ٹولے نے عام معافی کی پیشکش کرنے والوں کا ٹھٹھہ اڑایا، انکے حوصلے اتنے بلند کیوں ہیں؟ یہی ٹی ٹی پی پاک فوج کے آپریشنز کے نتیجے میں ملک سے فرار ہو گئی تھی اور افغانستان میں ہمارے دشمنوں کی پناہ میں تھی۔ پاکستان کے احتجاج اور دباؤ پر اس ٹی ٹی پی کے کئی دہشتگردوں کو پچھلی افغان حکومت نے جیلوں میں ڈالا تھا لیکن افغان طالبان نے ہر شہر کو 'فتح‘ کرنے کے بعد جیلوں سے بلا امتیاز تمام دہشتگرد اور جرائم پیشہ افراد کو 'عام معافی‘ دے کر رہا کردیا اور اب وہ ایک بار پھر ہمارے کیلئے خطرہ بن گئے ہیں۔ کابل کی عبوری حکومت نے ہمارے ساتھ یہ دوستی نبھائی ہے؟
ہمارے موقف اور کابل کی عبوری حکومت کے رویے کے نتیجے میں بین الاقوامی میڈیا ہم پر پابندیوں کے لیے مہم شروع کر چکا ہے۔ امریکی ادارے بلومبرگ کا اداریہ تمام باخبر اور بااختیار افراد کی نظر سے گزر چکا ہوگا۔ فنانشل ٹائمز کا اداریہ بھی سب نے پڑھ لیا ہوگا۔ دن بدن یہ مہم تیز ہوتی نظر آتی ہے۔ آخر ہم کب تک اپنی کمزوریوں اورناقص پالیسیوں پر دوسروں کو ذمہ دار ٹھہرا تے رہیں گے؟ ہمارے حکمران آج کریڈٹ لیتے ہیں کہ ہم تو ایک عرصے سے دہشتگردی کی نام نہاد جنگ کے مخالف تھے اور افغان مسئلہ کے جنگی حل پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ مان لیا‘ آپ ٹھیک کہتے تھے‘ لیکن آخر حل کیا ہے؟ کیا ہم اپنے جوانوں اور بے گناہ سویلینز کے خون اور قربانی کو رائیگاں جانے دیں گے؟ کیا ایک بار پھر دہشتگرد گروہ ہماری کمزور اور ناقص پالیسی کی وجہ سے ہمیں تباہی و بربادی میں دھکیل دیں گے؟ کیا ہم ہمیشہ دوسروں کے ٹھیکے دار بنتے رہیں گے؟
افغانستان سے امریکا اور دوسرے غیرملکی جا چکے۔ افغانستان کی تعمیر نو ہو یا انکا سیاسی مستقبل، ہمیں انہیں ان کے حال پر چھوڑ کر اپنی فکر کرنی چاہئے۔ جنہیں آج ہم اپنے دوست اور خیر خواہ سمجھ رہے ہیں‘ وہ اپنے اتحادی گروہوں کو لگام نہیں دے رہے۔ وزیرستان میں آپریشن کے بعد دہشت گردوں کے قبضے سے جو اسلحہ اور سامان برآمد کیا تھا ان میں ڈیورنڈ لائن کے پار سے انہیں تحفے میں ملنے والی آرمرڈ گاڑیاں بھی تھیں۔ ان گاڑیوں پر تحفہ بھجوانے والوں کے نام بھی درج تھے اور یہ گاڑیاں آج بھی اس بات کی شاہد ہیں کہ ٹی ٹی پی الگ تنظیم نہیں بلکہ ڈیورنڈ لائن کو نہ ماننے والے دونوں طرف سے مل کر کارروائیاں کرتے ہیں اور انہیں روکنے کیلئے ہمارے جوان خون کے نذرانے دے رہے ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ دوسرے کی خاطر نقصان اٹھانے اور زخم کھانے کی پالیسیاں ترک کر دی جائیں۔