"IYC" (space) message & send to 7575

نون، میم، شین لیگ

''پاکستان مسلم لیگ (ن) متحد اور ایک ہے۔ نون، میم اور شین کوئی لیگ نہیں مسلم لیگ (ن) ہی اصل مسلم لیگ ہے‘‘۔ ان خیالات کا اظہار سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما شاہد خاقان عباسی نے لاہور میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو میں کیا۔ کچھ اسی طرح کی بات ایک روز قبل مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثنا اللہ نے بھی ایک پریس کانفرنس میں گفتگو کے دوران کی۔ رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا ''نون لیگ سیاسی قوت ہے‘ انتخابات ہوں یا ووٹ‘ مسلم لیگ (ن) سب سے بڑی جماعت ہے۔ نون لیگ میں کوئی اختلاف نہیں، اجلاس میں نون‘ میم‘ شین سب ایک ساتھ بیٹھے تھے۔ نون لیگ کے مخالف حلقوں کو مریم نواز کے خلاف پروپیگنڈا سے فائدہ نظر آتا ہے۔ تنظیمی اجلاسوں میں میاں محمد شہباز شریف اور مریم نواز کا نہیں بلکہ میرا ہونا ضروری ہے‘ باقی لیڈرز کو آپشن دی کہ اجلاس میں مرضی سے شرکت کر سکیں‘‘۔
مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو اس طرح کی وضاحتیں کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی اور کیا واقعی مسلم لیگ (ن) میں پارٹی قیادت کے حوالے سے کوئی اختلافات پائے جاتے ہیں؟ آج کالم لکھنے بیٹھا تو سوچا کہ ان سوالوں کا جواب ہی کیوں نہ تلاش کیا جائے۔ اگر موجودہ صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے بات کی جائے تو یہ معاملہ مسلم لیگ نون کے شیخوپورہ سے رکن قومی اسمبلی میاں جاوید لطیف کے ایک بیان سے شروع ہوا۔ ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے جاوید لطیف صاحب نے کہا کہ ''بیانیے کی بحث بہت لمبی ہو چکی ہے، اصل میں کامیاب تحریک کو ناکام بنانے کے لیے کچھ لوگوں کو اسائنمنٹ دی جاتی ہے جب کوئی تجربہ کار سیاست دان بیانیے کو نقصان پہنچاتا ہے تو ایسا کسی اسائنمنٹ کے بغیر نہیں ہوتا، ان لوگوں کو اسائنمنٹ وہ لوگ دیتے ہیں جو آئین اور قانون پر یقین نہیں رکھتے، آپ میرے منہ سے نام نہ نکلوائیں، میں تو ویسے ہی کچھ دن میں دوبارہ اندر ہونے والا ہوں۔ اصول کی وجہ سے میاں محمد نواز شریف اور ان کی جماعت مصیبتوں میں ہے‘‘۔
ہمارے ''واقفانِ حال‘‘ کے مطابق پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر محمد شہباز شریف نے میاں جاوید لطیف کی اس گفتگو کا نہ صرف برا منایا بلکہ شدید ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے وہ اور ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز مسلم لیگ نون کے تنظیمی اجلاسوں میں بھی شریک نہ ہوئے۔ میاں شہباز شریف نے اپنے بڑے بھائی اور مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف کی اس جانب توجہ دلائی کہ اگر پارٹی میں ڈسپلن قائم رکھنے کے لیے اس طرح کی باتیں کرنے والے ممبروں کے ساتھ سختی سے نہ نمٹا گیا تو نہ صرف پارٹی کے اندر انارکی بڑھے گی بلکہ شریف خاندان کے اندر باہمی اختلاف کی خبروں کو بھی مزید فوقیت ملے گی‘ لہٰذا اس تاثر کو زائل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ میاں جاوید لطیف‘ جو خود کو لندن کیمپ کا اہم حصہ سمجھتے ہیں‘ کو شو کاز نوٹس بھی لندن سے ہی جاری کیا جائے۔
جاوید لطیف صاحب کو نوٹس مل گیا لیکن میڈیا میں نون لیگ کے مختلف بیانیوں پر بحث کو مزید ہوا ملی جس کا یقیناً کوئی سیاسی فائدہ نہیں ہوا‘ لیکن اب جبکہ تنظیمی اجلاسوں میں پارٹی کے صدر شہباز شریف، اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی حمزہ شہباز بھی شریک ہو رہے ہیں تو اس سے پارٹی کے اندر اور باہر کے عناصر کو بھی پیغام جا رہا ہے کہ بیانیے مختلف ہونے کے باوجود پارٹی متحد ہے اور نواز شریف کا جارحانہ رویہ اور میاں شہباز شریف کی پارٹی پر روز افزوں مضبوط ہوتی گرفت سے نون لیگ اگلے الیکشن کی بھرپور تیاری پر کمر بستہ نظر آ رہی ہے۔ سب کو یاد ہو گا کہ شہباز شریف نے سیالکوٹ میں ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے پیش گوئی کی تھی کہ آئندہ انتخابات میں نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ (ن) کامیاب ہو گی اور کہا تھا کہ اس کے لیے ہمارا مطالبہ صاف و شفاف انتخابات ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اگلا الیکشن نون لیگ کا ہو گا۔ شہباز شریف کی ان باتوں اور بار بار شفاف الیکشن کے مطالبے میں ایک واضح پیغام ہے کہ اگر مسلم لیگ (ن) کو اگلے الیکشن قدرے شفاف مہیا کر دئیے جائیں اور کچھ طاقتیں غیر جانب دار ہو جائیں تو مسلم لیگ (ن) اگلے الیکشن کا معرکہ مار لے گی۔ اس بات کی گواہی ان کا پُر اعتماد لہجہ اور باڈی لینگویج سے واضح ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے لیے اگلے چند ماہ بہت اہمیت کے حامل ہیں کیوں کہ ملک میں مہنگائی کا جو سیلاب آ چکا ہے‘ اس میں عوامی رابطہ مہم، مہنگائی اور معیشت کی بد حالی کو بنیاد بنا کر عوامی مسائل کو اجاگر کیا جائے تو اس کا سب سے زیادہ سیاسی فائدہ بھی ان کو ہو گا۔ ابھی چند دن پہلے ہی تمام ٹی وی چینلز پر دیکھا گیا کہ کراچی میں کس طرح سے ایک خاتون نے شہباز شریف کو ایئر پورٹ پر روک کر لاہور میں کوڑے کے ڈھیروں پر شکوہ کیا اور کہا کہ ہمیں آپ کی یاد آتی ہے۔ یہ واضح ہے کہ مہنگائی اور اس جیسی عوامی رائے کی بنیاد پر کھڑی کوئی بھی تحریک زیادہ بہتر نتائج اور سیاسی ثمرات دے سکتی ہے۔ اب پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر میاں حمزہ شہباز کے جنوبی پنجاب کے دورے اور عوامی رابطہ مہم کے بارے میں بھی خبر آ چکی ہے‘ جس کا مطلب ہے کہ پنجاب کے ان علاقوں‘ جہاں تحریک انصاف نے اکثریت حاصل کی تھی، میں حمزہ شہباز اپنی مہم چلانے جا رہے ہیں جو اس بات کی دلیل ہے کہ پارٹی قیادت ان پر تحریک انصاف کے مضبوط علاقوں پر وار کرنے کے حوالے سے اعتماد ظاہر کر رہی ہے۔ یہی نہیں‘ جلد ہی مریم نواز کو بھی میدان میں اتارنے کی شنید ہے‘ کیوں کہ مسلم لیگی حلقوں کی طرف سے کہا یہی جا رہا ہے کہ ان تنظیمی اجلاسوں کے بعد نواز شریف کی جانب سے ایک عوامی رابطہ مہم کے شیڈول کا بھی اعلان کر دیا جائے گا۔ اس عوامی رابطہ مہم میں اگر شہباز شریف کے مشورے پر چلتے ہوئے عوامی مسائل اور خاص طور پر مہنگائی کو مرکزی حیثیت حاصل رہی اور دیگر متنازع باتیں کچھ دیر کے لیے پیچھے دھکیل دی جائیں تو میاں شہباز شریف، مریم نواز اور حمزہ شہباز کی ٹیم حکومت کے لیے کافی مسائل کھڑے کر سکتی ہے جس کی بنا پر الیکشن سے قبل الیکشن کا ماحول بنایا جا سکتا ہے۔ جاوید لطیف کو شوز کاز جاری کرنے کے معاملہ پر میاں شہباز شریف کو پارٹی کے قائد میاں محمد نواز شریف کی جانب سے خود اعتمادی کی تھپکی ملی ہے۔ سیاست ہو یا کوئی بھی معرکہ‘ ایک کمان دار کے تحت کام کرنے والی ٹیم کے ذریعے ہی فتح کیا جا سکتا ہے۔ رانا ثناء اللہ اور شاہد خاقان عباسی صاحبان کے حالیہ بیانات سے یہی عندیہ مل رہا ہے کہ شہباز شریف کی کمان میں مسلم لیگ (ن) اپنے حریف پر ایک نیا وار کرنے کے لیے پر تول رہی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں