افغانستان سے امریکی انخلا اور طالبان کے پورے ملک پر قبضے کے اثرات پورے خطے میں محسوس کئے جا رہے ہیں۔ افغان طالبان کابل فتح کر لیں گے، یہ اندازہ امریکی انٹیلی جنس نے ایک سال پہلے ہی قائم کر لیا تھا اور امریکی افواج کے چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف جنرل مارک ملی نے اس کا اعتراف امریکی سینیٹ کمیٹی میں بھی کیا تھا۔ مارک ملی نے یہ بھی کہا تھاکہ وہ ایک سال سے اس تجزیے پر پختہ تھے کہ اگر امریکا غیر مشروط طور پر افغانستان سے نکلا تو افغان طالبان کو ملک پر قبضے سے کوئی بھی روک نہیں پائے گا، جس کے بعد امریکا اور اتحادیوں کی مدد سے کھڑی کی گئی افغان فوج اور حکومت بکھر جائے گی۔
خطے میں اس تبدیلی کے پیش نظر اہم دارالحکومتوں نے پالیسیاں مرتب کرلی ہیں اور ان پالیسیوں میں پاکستان کہیں بھی دکھائی نہیں دیتا۔ امریکا کا تین ملکی دفاعی اتحاد اوکس ہو یا چار رکنی غیر رسمی اتحاد کواڈ، یا پھر یورپی یونین کی انڈوپیسیفک پالیسی، سب میں بھارت کو اہمیت ملتی دکھائی دیتی ہے۔ خود کو دانشور اور تجزیہ کار کا ٹائٹل دینے والے چند کوتاہ بین خطے کی صورتحال کو مکمل سمجھے بغیر فتح کے شادیانے بجا رہے ہیں۔ افغان طالبان کی حکومت بننے کے بعد ملک میں دہشت گردی کے واقعات بڑھ گئے ہیں اور طالبان کی فتح کے بعد صرف اگست میں پاکستان میں 35 دہشتگردانہ حملے ہوئے‘ جن میں 52 شہری جاں بحق ہو گئے۔ یہ اعدادوشمار امریکی نشریاتی ادارے بلومبرگ نے ساؤتھ ایشیا ٹیررازم پورٹل کے حوالے سے شائع کئے ہیں، اور دل دہلا دینے والے ہیں۔ معاشی سرگرمیوں پر بلومبرگ کی رپورٹس اثرانداز ہوتی ہیں، غیرملکی سرمایہ کار اور بین الاقوامی مالیاتی ادارے بلومبرگ کی رپورٹس کو معتبر مان کر پالیسیاں مرتب کرتے ہیں۔ بلومبرگ کی رپورٹ اور دہشت گردی کی نئی لہر کے بعد ملک کی پہلے سے تباہ حال معیشت پر کیا اثر ہو گا، اس کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں، لیکن حکمرانوں کے چند عاقبت نااندیش دوست انہیں اب بھی 'سب اچھا‘ کی راگنی سنا رہے ہیں۔ بلومبرگ کی اسی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیاکہ ایک غیر ملکی سرمایہ کار نے پاکستان کی ایک کمپنی خریدنے کا سودا التوا میں ڈال دیا ہے‘ جو صرف ایک مثال ہے۔
کابل کی عبوری حکومت کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے کل ہی ایک بیان دیا کہ امریکی ڈرون افغانستان کی فضاؤں میں اڑ رہے ہیں جو ریاستی خودمختاری کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے امریکا کا نام لیا اور ساتھ ہی دنیا بھرکی حکومتوں پر زور بھی دیاکہ وہ افغانستان کی خودمختاری کا احترام کریں۔ یہ ڈرون کہاں سے اڑے اور کس روٹ سے افغانستان میں داخل ہوئے؟ ابھی اس پر کابل کی عبوری حکومت نے کوئی اشارہ نہیں دیا لیکن کل یہ مسئلہ بھی اٹھے گا اور روایتی طور پر الزام تراشی کا نشانہ پاکستان ہو سکتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے بہت پہلے ایبسولوٹلی ناٹ(Absolutely Not) کا نعرہ بلند کیا تھا، لیکن شاید کابل کی نئی انتظامیہ بھی اسلام آباد پر شک کرنے لگے اور یہ نعرہ سفارتی ناکامی کی ایک علامت بن جائے اور ہمارے حکمران یہ مصرع گنگناتے نظر آئیں:ع
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی ناخوش
معاملہ یہیں تک رہتا تو شاید بہتری کی کوششیں بارآور ہونے کا امکان برقرار رہتا لیکن حالات اس سے زیادہ خراب ہیں۔ ایک طوفان سر اٹھانے کو ہے۔ اس طوفان کی آمد کا اشارہ امریکی سینیٹ میں پیش ہونے والا بل ہے۔ اس بل کا مقصد طالبان کی فتحِ کابل میں مدد کرنے والوں پر پابندیوں کا نفاذ ہے۔ اس بل کی منظوری کی صورت میں 180 دنوں کے اندر امریکی وزیر خارجہ، وزیر دفاع اور ڈائریکٹر نیشنل انٹیلی جنس کانگریس کمیٹی کے سامنے رپورٹ جمع کرائیں گے جس میں طالبان کے مددگاروں کی تفصیل شامل ہوگی۔ پہلی رپورٹ میں اس بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ بشمول حکومت پاکستان، وہ کون سے سٹیٹ اور نان سٹیٹ ایکٹرز ہیں جنہوں نے 2001ء سے لے کر 2020ء کے دوران طالبان کی مدد کی؟ کس نے طالبان کو محفوظ پناہ گاہیں، مالی مدد، انٹیلی جنس معلومات، طبی سہولیات اور رسد فراہم کی؟ انہیں مسلح کیا اور حربی و انتظامی یا تزویراتی سمت کا تعین کرنے میں مدد فراہم کی؟ اس بات کا جائزہ بھی لیا جائے گا کہ بشمول پاکستانی حکومت، کن سٹیٹ اور نان سٹیٹ ایکٹرز نے 2021ء میں امریکی سرپرستی میں چلنے والی افغان حکومت کا تختہ الٹنے میں مدد فراہم کی۔ امریکی کانگریس کے مجوزہ بل میں جو رپورٹ مانگی گئی‘ اس میں اس بات کا جائزہ لینے کو بھی کہا گیا ہے کہ بشمول پاکستانی حکومت کے، کن سٹیٹ اور نان سٹیٹ ایکٹرز نے ستمبر 2021ء کے وادی پنجشیر پر طالبان حملے اور مزاحمت کے خلاف طالبان کی مدد کی۔
ملک کے اندرونی حالات اور خطے کی جیو پولیٹیکل صورتِ حال اور امریکی کانگریس میں امڈتے طوفان کو مقتدر قوتوں نے یقیناً بھانپ لیا ہو گا اور شاید اسی لئے ایک بار پھر سیاسی بندوبست میں تبدیلی مقصود ہے، تبدیلی کے نعرے کے ساتھ آنے والے بھی شاید بدلتی فضا کو محسوس کر رہے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ حکمران جماعت بھی انتخابی موڈ میں جا رہی ہے۔ حال ہی میں وفاداریاں بدلنے والے چند ایک سیاسی پرندوں کو گھیر کر تحریک انصاف کی ڈال پر لایا گیا ہے۔ یہ پرندے روایتی طاقت کے مراکزکے اشارے پر نہیں بلکہ اس حکومت کی کوشش سے دام میں آئے ہیں، طاقت کے مراکز ابھی کھلے عام اشارے نہیں دے رہے کیونکہ پہلے بگ برڈز کو دانہ ڈالا جاتا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کے بڑوں کو اشارے بھی ملے ہوں گے اور وہ سیاسی تجربے کی بنیاد پر بھی حالات کو بھانپ چکے ہیں۔
اپوزیشن کی تیاریوں کے اشارے ویسے تو کئی دنوں سے مل رہے تھے لیکن سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کا منگل کے روز کا ورچوئل خطاب اس ضمن میں ایک اہم پیشرفت ہے۔ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ''آپ کا اور میرا نعرہ ہے، ووٹ کو عزت دو، یہ ہمارے اہداف ہیں، آئین کی پاسداری کرو، پارلیمنٹ نہ توڑو، وزیر اعظم کو گرفتار نہ کرو، ملک کو چلنے دو، سول حکومت کا احترام کرو، اگر ہمیں یہ سب مفاہمت کے ذریعے ملتا ہے تو سو بسم اللہ ، اگر مزاحمت کرکے ملتی ہیں تو پھر بھی سو بسم اللہ، ہم دونوں کیلئے تیار ہیں‘‘۔ سابق وزیراعظم کا یہ خطاب ملک میں سیاسی تبدیلی کا اشارہ ہے، جس کا واضح ثبوت اور پہلی بڑی تبدیلی تو خود مسلم لیگ (ن) کے قائد کی طرف سے مفاہمت پر آمادگی ظاہر کرنا ہے۔ مزاحمت سے مفاہمت تک کے سفر میں اس سے آگے کے تمام مراحل مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف کے ہاتھ میں ہیں، بظاہر ایسا لگتا ہے کہ شہباز شریف نے اپنے بڑے بھائی کے پائوں پکڑے بغیر ہی ان کو منا لیا ہے۔ اگر واقعی ایسا ہے تو پھر سمجھ لیں کہ اب اس سیاسی کھیل میں دلچسپ موڑ آ گیا ہے اور یہی فیصلہ کن موڑ ہے۔