سپریم کورٹ آف پاکستان نے سانحہ اے پی ایس از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران جب وزیر اعظم عمران خان کو طلب کیا تو ملکی سیاست کا پارہ ایک دم سے ہائی ہونا شروع ہو گیا۔ معزز عدالت نے پہلے تو اٹارنی جنرل کی سرزنش کی اور پھر وزیر اعظم کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد اور بینچ میں شامل معزز جج صاحبان جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس قاضی امین نے دوران سماعت خاصے سخت ریمارکس دیے۔ سیاسی پنڈتوں کے مطابق سپریم کورٹ میں وزیراعظم کی طلبی، تبدیلی سرکار کے لیے روز بروز بڑھتی ہوئی پریشانیوں میں مزید اضافہ کرتی دکھائی دیتی ہے۔
اپوزیشن پہلے ہی ایک بار پھر سے حکومت کے خلاف صف آرا ہے۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف اور بلاول بھٹو پھر سے ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے ہیں۔ بدھ کے روز ہونے والے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس‘جو کہ موخر کر دیا گیا‘ میں حکومت کو قانون سازی سے روکنے کیلئے مشترکہ حکمت عملی بھی بنالی گئی تھی۔ اپوزیشن نیب قوانین اور الیکٹرانک ووٹنگ مشین کیلئے حکومتی قانون سازی کو یکطرفہ اور غیرقانونی قرار دے رہی ہے۔ اپوزیشن کا ماننا ہے کہ نیب قوانین میں تبدیلی کے ذریعے عمران خان حکومت خود کو این آر او دینا چاہ رہی ہے‘ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے اگلا الیکشن چوری کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
منگل کی شب مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے اپوزیشن ارکان پارلیمنٹ کو عشائیہ پر بلایا تھا۔ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو بھی اس عشائیے میں شریک ہوئے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق اس عشائیے میں 180 ممبران پارلیمنٹ شریک ہوئے۔ اس موقع پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ اپوزیشن کے تمام ارکان ایوان میں حاضری یقینی بنائیں گے۔ مہنگائی کی چکی میں بری طرح پس رہے عوام یہ چاہ رہے ہوں گے کہ اپوزیشن ان کی آواز بنے۔ اپوزیشن کو یوں ایک ساتھ دیکھنا خوش آئند ہے۔ ہوسکتا ہے کہ عوام کو بھی ان کے اکٹھے ہونے سے امید کی کوئی کرن کہیں دکھائی دے۔ فی الحال کافی عرصے سے بکھری اس اپوزیشن کے متحد ہونے کا مقصد قانون سازی کو عددی اکثریت سے روکنا ہے۔ عشائیے کے بعد میڈیا نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہاکہ شفاف انتخابات کے بغیر ملک آگے نہیں بڑھ سکتا۔ بلاول بھٹو نے بھی یقین دلایاکہ شہباز شریف کی قیادت میں اپوزیشن متحد ہے۔ اس عشائیے سے پہلے اپوزیشن جماعتوں کی قانونی ٹیم بھی سر جوڑ کر بیٹھی اور یہ اتفاق کرکے اٹھی کہ حکومت کی پارلیمنٹ کو بلڈوز کرنے کی کوششوں کو ناکام بنایا جائے گا۔
اپوزیشن کا یہ عزم سراہے جانے کے قابل ہے۔ منگل کے روز ہی قومی اسمبلی میں حکومت کو دو بلوں پر رائے شماری کرانے کی کوشش میں سبکی اٹھانا پڑی۔ حکومت اپنا بل پیش نہ کرپائی۔ اپوزیشن نے جو بل پیش کیا اسے روک نہ سکی۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے قبل اسے ایک انتہائی اہم پیشرفت کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ ایسے میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا اپوزیشن واقعی متحد ہے اور یہ کہ حکومت کو روکنے میں کس حد تک سنجیدہ ہے؟ کیا پرانی رنجشیں بھلائی جاچکی ہیں۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے تک چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری پی ڈی ایم سے جدائی کا گھاؤ دل پر لیے تن تنہا حکومت کی مخالفت میں میدان عمل میں تھے۔ نوجوان ہیں جذباتی بھی ہو جاتے ہوں گے‘ اس لیے حکومت کی مخالفت کرتے کرتے رو میں بہہ کر اپوزیشن کی مخالفت بھی کرتے رہے۔ اب وہ پھر سے شہباز شریف کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں توامید ہے کہ ان کے بیانات کو بھلا دیا گیا ہوگا۔
قمر زمان کائرہ خاصے جہاندیدہ سیاست دان ہیں اور پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنماؤں میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ جس روز اسلام آباد میں اپوزیشن جماعتیں متحد ہوکر حکومت کے خلاف محاذ پر پیش قدمی کا لائحہ عمل بنارہی تھیں اس روز قمر زمان کائرہ نے مسلم لیگ (ن) کے خلاف محاذ کھول رکھا تھا۔ انہوں نے مسلم لیگ (ن) پر مقتدرہ کے ساتھ بیک ڈور رابطوں کا الزام لگایا اور صاف کہا کہ ووٹ کو عزت دینے کے بیانیے کو عزت دینی ہے تو بیک ڈور رابطے ختم کیے جائیں۔ حکومت مسلم لیگ (ن) کی وجہ سے قائم ہے اور یہ لوگ چاہتے ہیں کہ حکومت پانچ سال پورے کرے۔ ان کی جماعت میں دو بیانیے چل رہے ہیں۔ پہلے اپنی جماعت میں ایک ہوجائیں۔ نواز شریف واضح کریں کہ ان کا بیانیہ مزاحمتی ہے یا مفاہمتی۔ کائرہ صاحب کے سوالوں کے جواب ضرور دئیے جانے چاہئیں اور دیکھنا یہ ہے کہ جواب میں شہباز شریف کی بردباری سامنے آتی ہے یا مسلم لیگ (ن) کی جانب سے بھی گولہ باری ہوتی ہے؛ تاہم پی ڈی ایم کے ترجمان حافظ حمداللہ نے قمر زمان کائرہ کو جواب ضرور دیا۔ اپنے بیان میں انہوں نے کہاکہ پیپلزپارٹی نے سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کے عہدے کیلئے پی ڈی ایم کی پیٹھ میں چھرا گھونپا۔ پیپلزپارٹی پی ڈی ایم پر تنقید کرکے حکومت کی نہیں اپوزیشن کی اپوزیشن کررہی ہے۔ مہربانی کرے‘ جس تھالی میں کھایا اسی میں چھید کرنا مناسب نہیں۔ واپس آنا ہے تو مولانا اور پی ڈی ایم کی قیادت سے رجوع کریں۔
اپوزیشن کی یہ ادائیں عوام کی جان پر بنی رہتی ہیں اور حکومت ان پر فدا رہتی ہے۔ شاید اسی وجہ سے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے اپوزیشن کو بھان متی کا کنبہ قرار دیا ہے۔ اپوزیشن کو پہلے دو سال اور اگلے پانچ سال مزید انتظار کا مشورہ بھی دیا گیا۔ ہر بار سردی کا موسم آنے پر سیاسی پارہ بڑھتا ہے۔ اس پر فواد چودھری نے طنز کرتے ہوئے پی ڈی ایم کو ونٹر ایکٹویٹی قرار دیا اور کہا کہ یہ لوگ بس سردیوں میں باہر نکلتے ہیں اور پھر چلے جاتے ہیں۔ اپوزیشن کی گزشتہ کارکردگی دیکھتے ہوئے حکومت کا یہ اعتماد بے جا نہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں کیا اپوزیشن حکومت کو سرپرائز دے پائے گی؟ دونوں ایوانوں کے ارکان کی تعداد دیکھی جائے تو نمبرگیم میں حکومت کو 2 ارکان کی برتری حاصل ہے۔
اس وقت دونوں ایوانوں میں موجود ارکان پارلیمنٹ کی تعداد 440 ہے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں تحریک انصاف اور اتحادیوں کی تعداد 221 ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کے ارکان قومی اسمبلی اور سینیٹ کی تعداد 219 ہے۔ قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے 156، ایم کیو ایم کے 7، بی اے پی کے 5 ارکان ہیں۔ مسلم لیگ (ق) کے 5 اور جی ڈی اے کے 3 رکن ہیں۔ عوامی مسلم لیگ، جے ڈبلیو پی اور آزاد ایک ایک ممبران ہیں۔ اپوزیشن پر نظر ڈالیں تو قومی اسمبلی میں نون لیگ 83، پیپلز پارٹی 56، ایم ایم اے 15 اور بی این پی کے 4 ارکان ہیں۔ اے این پی کا ایک رکن ہے اور اپوزیشن کو تین آزاد ارکان کی حمایت حاصل ہے۔ سینیٹ میں حکومت اور اتحادیوں کی نشستیں 42 ہیں۔ پی ٹی آئی 27، بی اے پی 9 اور ایم کیو ایم کے 3 ارکان سینیٹ ہیں۔ فنکشنل لیگ، ق لیگ اور ایک آزاد امیدوار کی حمایت بھی حکومت کو حاصل ہے۔ سینیٹ میں اپوزیشن ارکان کی تعداد 57 ہے۔ پیپلز پارٹی 21، ن لیگ 9، جے یو آئی 5 اور نیشنل پارٹی کے 2 ارکان ہیں۔ جماعت اسلامی ایک، پی کے میپ 2، اے این پی 2 اور بی این پی کے بھی 2 ارکان ہیں۔ اپوزیشن کو سینیٹ میں دلاور خان گروپ کے بھی 6 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔ اگرچہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس فی الحال موخر کر دیا گیا ہے‘ لیکن یہ جب بھی ہوا‘ ضرور ہنگامہ خیز ہو گا۔