کالم کے باقاعدہ آغاز سے پہلے معروف شاعر منیر نیازی کے دو شعر قارئین کی نذر کرنا چاہتا ہوں، جو شاید انہوں نے پاکستان کے حالات کے بارے میں ہی لکھے تھے:
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
منیر نیازی کے یہ دونوں اشعار مجھے اس وقت یاد آئے جب جمعرات کی رات ایک تقریب میں کچھ پرانے دوستوں سے ملاقات ہوئی۔ ہمارا کلچر کچھ ایسا بن چکا ہے کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ کہیں پہ کوئی دو چار لوگ اکٹھے ہوں اور موضوعِ گفتگو حالات حاضرہ اور ملکی و بین الاقوامی سیاست نہ ہوں۔ اگر اس محفل میں آپ کے کچھ دیرینہ دوست احباب بھی تشریف فرماں ہوں تو گفتگو مزید مسالہ دار ہو جاتی ہے۔ اس شب بھی کچھ ایسا ہی ہوا، ایک دوست نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے پوچھا ''یار عمران، حکومت نے تو لال جھنڈی دکھا دی ہے اور ابھی سے کہنا شروع کر دیا ہے کہ اس بار سردیوں میں گیس صرف مقرر کردہ اوقات میں ہی ملے گی، کیا واقعی ایسا ہوگا؟‘‘ میں نے کہا: تم مقررہ اوقات میں گیس ملنے کی بات کر رہے ہو، دعا کرو ان مقررہ اوقات میں ہی گیس دستیاب ہو جائے، مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ حکومت کی طرف سے یہ اعلان بھی قوم کو ذہنی طور پر گیس کے بغیر سردیاں گزارنے کے لیے تیار کرنے کے لیے کیا گیا ہے، کیونکہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک جس کسی حکومت نے بھی جو اعلان کیا ہے عوام کو ہمیشہ اس سے کہیں زیادہ مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
میرے مزید کچھ کہنے سے پہلے ایک اور دوست نے لقمہ دیا: یار تم لوگ پتا نہیں کس دنیا کی باتیں کرتے ہو، میں نے تو اپنے گھر میں استعمال کے لیے ابھی سے گیس سلنڈر کا بندوبست کر لیا ہے، اب یہ کیا کہ رات کو بندہ تھکا ہارا کام سے واپس گھر جائے اور بیگم یہ کہہ کر ٹھنڈی روٹی سامنے رکھ دے کہ گیس کی فراہمی کا وقت ختم ہو چکا ہے‘ لہٰذا اس ٹھنڈی روٹی پر ہی گزارہ کریں۔ میں تو کہتا ہوں تم لوگ بھی ابھی سے ایل پی جی کے سلنڈر گھروں میں منگوا کر رکھ لو، یہ نہ ہو کہ اس بار سردیاں بھوکے پیٹ ہی گزارنا پڑیں۔ ابھی یہ بحث جاری تھی کہ وہیں موجود ایک اور صاحب نے گفتگو کا رخ حالیہ آئینی ترامیم اور اس کے لیے اپنائے جانے والے طریقہ کار کی طرف موڑ دیا۔ ''عمران صاحب! یہ گیس، بجلی کی باتیں تو ہوتی رہیں گی آپ یہ بتائیں کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں جس طرح سے یہ ترامیم بلڈوز کی گئیں اور حکومت کی طرف سے آئینی اور قانونی طریقہ کار اختیار کیے بغیر ان کو پاس کرایا گیا، کیا اپوزیشن اس کو تسلیم کر لے گی؟ کیا سپریم کورٹ بار اور سول سوسائٹی اس پر اپنا کوئی ردعمل ظاہر نہیں کریں گے؟ کیا الیکشن کمیشن آف پاکستان ایک آئینی ادارے کی حیثیت سے اس سارے عمل کو یونہی جاری رہنے دے گا؟ کیا کسی ایک فریق کی جانب سے بھی اس سارے عمل کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جائے گا؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ عدالتیں اس معاملے کو کس انداز میں دیکھیں گی؟‘‘ وہیں بیٹھے ایک اور دوست نے بغیر سانس لیے یہ سارے سوال داغ دیے۔
''تم سب لوگ وزیر اعظم عمران خان کے مخالف ہو اور صرف اور صرف تحریک انصاف کی مخالفت میں ایسی باتیں کرتے ہو، خان صاحب کسی کو نہیں چھوڑیں گے، سارے کرپٹ سیاست دان اپنے انجام کو پہنچیں گے، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی اپنے گناہ چھپانے کے لیے ایسی باتیں کرتی ہیں، کرپشن ہمارے معاشرے میں رچ بس چکی ہے، اپوزیشن سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی شخص ایسا نہیں جو سچ اور حقیقت پر مبنی بات کرے، یہ سب لوگ وزیر اعظم عمران خان کے تعصب میں ایسی باتیں کرتے ہیں مگر کپتان کو ان باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا‘ وہ 70 سال کے گند کو صاف کرکے ہی دم لے گا‘‘۔ اسی محفل میں موجود عمران خان کا حمایتی ہمارا ایک دوست بولا۔
میں اپنے ان دوستوں کے ان سوالات اور خیالات کے جواب تو کیا دیتا، یہ گفتگو اتنی طویل اور متنازع ہوتی چلی گئی کہ جس کو سن کر میں خود بھی پریشان ہو گیا، بلکہ اگر یوں کہوں کہ میں یہ بات سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ بحیثیت قوم ہم کس قدر بے حس ہوتے جا رہے ہیں کہ اللہ رب العزت نے شاعر مشرق علامہ اقبال کو خواب دکھا کر بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کے ہاتھوں ہمیں جو یہ پاک وطن عطا فرمایا تھا، ہم ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے بجائے، خود اپنے ہی ہاتھوں اپنے لیے ایک نیا بحران پیدا کرتے ہیں۔
یوں تو 1947ء کے بعد سے ہی مملکت خداداد کو بحرانوں کا سامنا ہے لیکن یہاں صرف ان بحرانوں کا تذکرہ مقصود ہے جس سے حال ہی میں شہری بری طرح متاثرہوئے ہیں۔ آٹا بحران، چینی بحران، ادویات کا بحران اور اب سامنا ہے گیس کے بحران کا۔ آج کے کالم میں اب تھوڑی سی بات گیس بحران پر ہی کر لیتے ہیں۔ پچھلے سال کی طرح اس بار بھی وزیر اعظم نے خبردار تو کیا کہ شہریوں کو گیس کی کمی کا سامنا کرنا پڑے گا مگر اس بحران کو روکنے کے اقدامات کہیں دکھائی نہ دیے۔ حکومت کی جانب سے بجلی کے اضافی استعمال پر پیکیج کے باوجود گیس کا بحران سر پر آ چکا ہے۔ حکومت نے پہلے گھریلو صارفین کو صرف 3 وقت گیس فراہم کرنے کا اعلان کیا، کوئی حکومتی نمائندہ اس کی نفی کرتا ہے تو حماد اظہر کی سینیٹ میں کی گئی تقریر کو سن لے۔ ڈاکٹر کے نسخے کی مانند گیس لوڈ مینجمنٹ کے اس منصوبے پر تنقید ہوئی تو حکومت نے پینترا بدلا، گھریلو اور کمرشل صارفین کو ترجیحی بنیادوں پر گیس فراہم کرنے کا اعلان کیا مگر اس پر عملدرآمد ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔
گیس کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے مقامی طور پر پیدا ہونے والی گیس کے ساتھ درآمدی گیس بھی سسٹم میں شامل کی جاتی ہے۔ درآمدی گیس تنازع کا شکار رہی ہے اور بیرون ملک سے درآمد کی جانے والی گیس پر کرپشن اور بد انتظامی کے الزامات دہرائے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں گیس کی سپلائی کا انفراسٹرکچر بہترین ہے،13315 کلو میٹر طویل ٹرانسمشن لائن، 149715 کلومیٹر ڈسٹری بیوشن اور 39612 کلو میٹر سروس گیس پائپ لائن کا نیٹ ورک ہے، جو ملک میں ایک کروڑ سے زیادہ صارفین کو گیس فراہمی کے کام آتا ہے۔
پاکستان میں اس وقت درآمدی گیس کے دو ٹرمینل پورٹ قاسم کراچی پر کام رہے ہیں جو اینگرو اور پاکستان گیس پورٹ کی جانب سے لگائے گئے ہیں جن میں درآمدی ایل این جی لائی جاتی ہے اور پھر اسے ملک بھر میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اعداد و شمار دیکھیں تو ملک میں یومیہ چار بلین کیوبک فیٹ کی ضرورت ہے،2.8 بلین کیوبک فیٹ مقامی ذرائع سے پیدا ہوتی ہے، جبکہ 1.2 بلین کیوبک فیٹ درآمد کی جاتی ہے۔ ملکی ضرورت کا 23 فیصد درآمدی گیس پوری کرتی ہے اور عالمی مارکیٹ میں قیمتوں میں اضافے کے باعث حکومت کو ٹینڈر منسوخ کرنا پڑے۔ ماہرین کے مطابق اس بحران کی اصل وجہ پلاننگ کا فقدان ہے۔