''السلامُ علیکم باجی، میرے بچے تین دن سے بھوکے ہیں، میرے پاس ان کے لیے دودھ لانے کے لیے پیسے نہیں، میرے گھر جو گوالا دودھ دے کر جاتا ہے اس نے ادھار پر مزید دودھ دینے سے انکار کر دیا ہے۔ پچھلے تین مہینوں سے میں اس کو دودھ کا بل ادا نہیں کر سکا، اس کا کہنا ہے کہ اگر مجھ سے دودھ لینا ہے تو پہلے بقایا پیسے ادا کرو۔ آج جب میں نے اس کی بہت منت سماجت کی اور اس کو اس کے بچوں کا واسطہ دے کر اپنے معصوم اور شیر خوار بچوں کے لیے دودھ مانگا تو اس نے جواب دیا کہ اگر پوری رقم ادا نہیں کر سکتے تو کم از کم 4 ہزار روپے دے دو، اگر 4 ہزار روپے بھی نہیں ہیں تو پھر بھول جائو، میں اپنے پیسے جیسے بھی ہوا خود ہی وصول کر لوں گا۔ باجی، آپ مجھے اچھی طرح جانتی ہیں اور آپ کو اس بات کا بھی اچھی طرح اندازہ ہے کہ میں کتنی محنت اور ایمانداری سے اپنی ڈیوٹی ادا کرتا ہوں۔ روزانہ 12 گھنٹے کام کرنے کے بعد ماہانہ 18 ہزار روپے تنخواہ ملتی ہے۔ اس میں سے 7 ہزار روپے کمرے کا کرایہ ادا کر دیتا ہوں‘ 2 ہزار روپے بجلی اور گیس کے بل کی مد میں مالک مکان کو دینا پڑتے ہیں، باقی بچے 9 ہزار روپے، آپ خود ہی بتا دیں کہ ان پیسوں میں، میں اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ کیسے پالوں؟ اگر میں، میری بیوی یا تینوں بچوں میں سے کوئی بیمار ہو جائے اور ہمیں اس کے لیے دوائی لانی پڑ جائے تو حالات مزید خراب ہو جاتے ہیں، باجی، آپ کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں، مجھے 4 ہزار روپے دے دیں، نہیں تو میرے بچے بھوک سے مر جائیں گے‘‘۔
یہ ساری گفتگو میرے دفتر میں ساتھ کام کرنے والے ایک سینئر صحافی کی اہلیہ کے ساتھ ان کے گھر میں آن لائن منگوائی گئی مختلف اشیا کی ڈلیوری کرنے والے اشرف نامی ایک ڈلیوری بوائے نے کی۔ اشرف اکثر کسی نہ کسی چیز کی ڈلیوری کرنے کے لیے ہمارے دوست کے گھر آتا ہے اور ان کی بیگم صاحبہ بل کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ اس کو دس، بیس روپے بطور ٹپ بھی دے دیتی تھیں۔ اشرف کی یہ گفتگو سننے کے بعد انہوں نے اپنے شوہر کو فون کیا اور ساری صورتحال سے آگاہ کیا اور کہا کہ شاید آپ مجھے پاگل ہونے کا طعنہ دیں یا بیوقوف سمجھیں کہ میں اشرف کی باتوں میں آپ کر جذباتی ہورہی ہوں، میں اس کے بچوں کی بھوک برداشت نہیں کر سکتی، لہٰذا میں نے اسے کہا ہے کہ وہ گھر آ کر مجھ سے پیسے لے جائے۔
اپنے صحافی دوست کی زبان سے سنا یہ واقعہ اپنی نوعیت کا پہلا یا انوکھا واقعہ نہیں ہے بلکہ اگر اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں اور تھوڑا سا جائزہ لیں تو آپ کو معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی سمجھے جانی والی، مڈل کلاس اور خاص طور پر لوئر مڈل کلاس میں ایسی کئی مثالیں دیکھنے کو ملیں گی۔ غریب آدمی کی تو بات ہی کیا کی جائے کہ تبدیلی سرکار کے اس دور میں روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بد ترین معاشی حالات نے اس کی تو جیسے کمر ہی توڑ دی ہو۔ موجودہ حالات میں صحیح معنوں میں غریب کا جینا ممکن سے ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ بجلی اور گیس کے بلوں نے عوام کی حالت خراب کر دی ہے۔ رہی سہی کسر تندور والوں نے روٹی اور نان کی قیمت میں اضافہ کرکے نکال دی ہے۔ نان بائی ایسوسی ایشن کی طرف سے کیے گئے اعلان کے مطابق آئندہ روٹی 12 روپے اور نان 18 روپے میں فروخت کیا جائے گا۔ اب میں حکومت وقت سے یہ پوچھنے کی جسارت کرنا چاہتا ہوں کہ کیا ایک مزدور یا تنخواہ دار ملازم‘ جس کی ماہانہ آمدنی 18 سے 20 ہزار روپے ہو‘ وہ اپنے اور اپنے بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا بندوبست کر سکتا ہے؟ ہمارے ہاں ایک محنت کش خاندان کے عام طور پر 4 بچے ہوتے ہیں۔ میاں بیوی کو ملا لیں تو 6 افراد پر مشتمل اس گھرانے کو ایک وقت میں کم از کم 150 روپے روٹی لینے کے لیے درکار ہیں، اور اگر سردیوں میں گیس نہ ملنے کی صورت میں اسے دو وقت کی روٹیاں بازار سے خرید کر لانا پڑ جائیں تو پھر اسے ایک دن کے لیے 300 روپے چاہئیں۔ آپ خود ہی سوچیں کہ جب اس کی آدھی تنخواہ صرف سادہ روٹی پر ہی صرف ہو جائے گی تو وہ بے چارہ سالن، بچوں کے دودھ اور باقی ضروریات زندگی کا انتظام کہاں سے کرے گا؟ یہاں پر مجھے تھوڑا سا ذکر میڈیا کی بے حسی کا بھی کر لینے دیجئے ۔ پٹرول، بجلی اور گیس مہنگی ہو جائے تو میڈیا کی چیخیں نکل جاتی ہیں، اور ٹی وی سکرینوں پر بھی واویلا مچ جاتا ہے، لیکن روٹی‘ جو ایک غریب کی بنیادی خوراک ہے‘ مہنگی کر دی گئی تو کسی کے کان پر جوں بھی نہیں رینگی۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے ملک گیر پرسیپشن سروے کے مطابق 90 فیصد سے زیادہ پاکستانیوں کا خیال ہے کہ تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں پچھلی حکومتوں کے مقابلے میں مہنگائی اور قیمتوں میں سب سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ اس سروے میں شامل 85.9 فیصد لوگوں نے کہا کہ گزشتہ تین سالوں کے دوران ان کی آمدنی میں کمی آئی ہے۔ سروے کے جواب دہندگان کی اکثریت (85.9 فیصد) کا خیال تھا کہ وفاقی حکومت کی خود احتسابی غیر تسلی بخش ہے جبکہ ان میں سے 66.8 فیصد نے حکومت کی احتساب کی مہم کو جزوی اور نامکمل قرار دیا۔ مہنگائی اور بے روزگاری کی وجوہات کے بارے میں 50.6 فیصد لوگوں نے حکومتی نااہلی، 23.3 فیصد نے کرپشن، 16.6 فیصد نے پالیسی پر عمل درآمد نہ ہونے جبکہ 9.6 فیصد نے حکومتی معاملات میں سیاستدانوں کی بے جا مداخلت کو ذمہ دار ٹھہرایا۔
جمعہ کے روز جاری کردہ ادارہ شماریات پاکستان کی ایک رپورٹ میں گزشتہ ایک ہفتے میں 19 اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ مہنگائی کی شرح ہفتہ وار بنیاد پر 18.58 فیصد ریکارڈ کی گئی۔ ادارہ شماریات کے جاری کردہ مہنگائی کے ہفتہ وار اعدادوشمار کے مطابق ایک ہفتے میں دال مسور کی قیمت میں 6 روپے اضافہ ہوا ہے، دال ماش کی قیمت میں 7 روپے اور دال مونگ کی قیمت میں 3 روپے اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ اس طرح سردیوں میں گیس کی عدم دستیابی پر غریب کے چولہے کا ایندھن یعنی آگ جلانے کی لکڑی کی قیمت میں 4 روپے فی من اضافہ ہوا ہے۔ روزمرہ کی ضروریات میں پیاز، لہسن اور کھلے دودھ کی قیمت میں 1 روپے کا اضافہ ہوا، جبکہ ٹماٹر کی قیمت میں 13 روپے فی کلو کمی آئی۔
حکومتی وزرا اور ترجمان ناجانے کس آنکھ سے دیکھتے ہیں کہ ان کو نہ تو بڑھتی ہوئی مہنگائی نظر آتی ہے اور نہ ہی غریب اور متوسط طبقے کو پیش آنے والی مشکلات کا اندازہ ہوتا ہے۔ ہمارے ایک وفاقی وزیر جناب علی زیدی صاحب تو نرالی منطق نکال لی۔ لندن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ''پاکستان میں مہنگائی لندن سے کم ہے، اور حکومت کا مسئلہ مہنگائی نہیں بلکہ گڈ گورننس ہے‘‘۔ وزیر موصوف کا یہ بیان سن کر مجھے نہ جانے کیوں ایسا محسوس ہوا کہ کہیں ہم اس وقت کے انتظار میں تو نہیں کہ جب ''غریب کی آہ‘‘ سب کچھ بہا کر لے جائے گی۔