"IYC" (space) message & send to 7575

ساڈا حق …

''میرا نام ہدایت الرحمان بلوچ ہے۔ گوادر کی سر بندر بستی میں رہتا ہوں، جہاں دیگر ماہی گیر بھی رہتے ہیں۔ میرے آبائواجداد کا علاقہ کلانچ ہے، میرے دادا سر بندرآئے تھے، میرے دادا اور والد ماہی گیر تھے، ہم پانچ بھائی ہیں جن میں سے چار بھائی ماہی گیر ہیں۔ میں خود ایک پرائیوٹ سکول میں استاد ہوں، میرے والد ایک دینی سوچ رکھنے والے انسان تھے، انہوں نے مجھے پڑھایا۔ میں نے کراچی ناظم آباد سے ایم اے اسلامیات کیا اور عالم ہونے کا کورس بھی وہیں سے کیا۔ زمانہ طالب علمی میں ہی اسلامی جمعیت طلبہ سے طلبہ سیاست کی، 2005ء سے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیتا رہا ہوں، میں نے ہمیشہ عوامی مسائل پر سیاست کی ہے ۔ 6سال سے جماعت اسلامی کا صوبائی جنرل سیکرٹری ہوں۔ میرا ماننا ہے کہ سیاست کا مقصد عوام کی خدمت ہونا چاہیے، اگر آپ عوام کے مسائل کی بات کریں گے ، سچے دل سے ان کے حل کیلئے جدوجہد کریں گے تو عوام بھی ہر پل آپ کا ساتھ دیں گے ۔ حق دو بلوچستان تحریک، بلوچستان کے عوام کے حق کے لئے اپنی کوشش جاری رکھے گی اور یہی میری زندگی کا مشن ہے‘‘۔ حق دو تحریک بلوچستان کے سربراہ کی یہ گفتگو سن کر مجھے جون ایلیا کا ایک شعر یاد آ گیا:
ایک حادثہ ہی تو ہے اور وہ یہ کہ آج تک
بات نہیں کہی گئی بات نہیں سنی گئی
جون ایلیا کا یہ شعر ہمارے ملک کے حالات پر ہر دور میں پورا اترتا ہے ۔ عوام کا بڑا حصہ اپنی بات کہنے کی سکت نہیں رکھتا، جو بات کر پاتے ہیں ان کی کوئی سنتا نہیں اور ملک کو کوئی نہ کوئی حادثہ درپیش رہتا ہے۔ پاکستانی بلوچستان کے بہت سارے علاقوں سے واقف ہوں یا نہ ہوں لیکن پچھلے چند سالوں سے گوادر کے نام سے ہر دوسرا پاکستانی واقف ہے۔ گوادر کی بندرگاہ خطے میں اہم آبی گزرگاہ کے طور پر موجود ہے۔ پاکستان اور چین کے اقتصادی راہداری منصوبے ''سی پیک‘‘ نے اس کی اہمیت کو مزید بڑھا دیا۔ ہمیں بتایا جاتا رہا کہ اس منصوبے کی بدولت نہ صرف گوادر بلکہ پورے پاکستان اور اس خطے کے دن پھر جائیں گے ۔ گوادر کے باسیوں کے تو وارے نیارے ہوجائیں گے۔ دبئی اور سنگاپور، گوادر کی ترقی کے آگے پسماندہ لگیں گے۔ لیکن پچھلے ایک ماہ سے گوادر میں کچھ ایسا ہورہا تھا جس کو ہمارا میڈیا دکھا بھی رہا تھا اور نہیں بھی دکھا رہا تھا۔ گوادر میں پورٹ روڈ پر مقامی افراد مولانا ہدایت الرحمان کی قیادت میں ایک ماہ سے دھرنا دئیے بیٹھے تھے۔ مولانا ہدایت الرحمان سے جب میں نے بات کی تو انہوں نے میڈیا کی بے رخی کا شکوہ کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ گوادر کے لوگ دھرنا دئیے بیٹھے ہیں، ہماری مائیں بہنیں بیٹیاں احتجاج کرنے نکلی ہیں لیکن میڈیا کے لیے ان کے احتجاج سے زیادہ اہم بالی وڈ اداکارہ کترینہ کیف کی شادی ہے ۔ مولانا ہدایت الرحمان یہ شکوہ کرنے میں حق بجانب ہیں۔ ہمارے میڈیا میں شاید ان کے تقریباً 32 دن تک جاری رہنے والے دھرنے کو شاید کل ملا کر 32 منٹ کی کوریج بھی نہ دی ہو گی۔ ایک دن کے حساب سے ایک منٹ کوریج دینا بھی شاید کچھ دوستوں کے لیے ممکن نہ تھا۔ وہی جیسے جون ایلیا کہہ گئے کہ بات نہیں کہی گئی بات نہیں سنی گئی۔ ایک ماہ پہلے تک کی بات کریں تو عام آدمی مولانا ہدایت الرحمان سے بالکل واقف نہیں ہوگا، میڈیا میں بھی شاید کافی لوگوں کے لیے ان کا نام نیا ہو۔ خیر انہوں نے جس طرح ڈٹ کر دوٹوک انداز میں اپنی بات کہی تو ریاست کو انہیں سننا ہی پڑا۔ مولانا ہدایت الرحمان گوادر کے نواحی علاقے سُر بندر کے رہنے والے ہیں۔ ان کا خاندان ماہی گیری کی صنعت سے وابستہ رہا ہے۔ مولانا ہدایت الرحمان نے حکومت سے ایک معاہدے کے بعد دھرنا ختم کیا لیکن ساتھ ہی یہ اعلان بھی کیا کہ بلوچستان کے لیے حق دو تحریک جاری رہے گی۔ اس تحریک کے چند بنیادی مطالبات میں سے ایک مطالبہ غیر قانونی ماہی گیری کو روکنا تھا۔ مولانا ہدایت الرحمان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر ایسے فشنگ ٹرالروں کی ویڈیوز بھی شیئر کی جاچکی ہیں جو گوادر کے پانیوں میں غیرقانونی طور پر ماہی گیری کرتے پائے گئے تھے۔ ان میں زیادہ تر سندھ سے آنے والے ٹرالر تھے جن کی تعداد بعض اندازوں کے مطابق 3 سو سے 5 سو کے درمیان ہوتی ہے۔ چینی فشنگ ٹرالر بھی پکڑے جانے کا دعویٰ کیا گیا۔ گوادر کے زیادہ تر لوگ روایتی طریقوں سے ماہی گیری کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ مچھلی کا غیرقانونی شکار کرنے والے یہ ٹرالر مچھلی کی نسل اور سمندر کا ماحول تباہ کررہے ہیں۔ ان ماہی گیروں کے مطابق فشنگ ٹرالر مچھلی کا شکار کرنے والے بحری جہازوں میں جال پھینکنے اور کھینچنے کیلئے مشینری کا استعمال کیا جاتا ہے‘ مخصوص قسم کا بڑا جال استعمال ہوتا ہے، جو سمندر کی تہ تک ہر چیز کو اپنے اندر گھسیٹ لیتا ہے۔
اب معاہدے کے تحت بلوچستان کی سمندری حدود میں غیرقانونی ماہی گیری کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ محکمہ ماہی گیری اور ماہی گیر اس کی روک تھام کیلئے مشترکہ پٹرولنگ کریں گے۔ معاہدے کے نکات میں بلوچستان کی سمندری حدود کو 12 سے 30 ناٹیکل میل کرنے کی تجویز بھی ہے۔ گوادر کے عوام کے احتجاج اور دھرنا دینے کی ایک وجہ سرحدی تجارت کی روک تھام بھی تھا۔ بلوچستان کے سرحدی اضلاع ایران کے ساتھ تجارت پر خاصا انحصار کرتے ہیں۔ حکومت کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کے مطابق سرحدی تجارت کو فرنٹیئر کور سے ضلعی انتظامیہ کے حوالے کیا جائے گا۔ سرحدی تجارت کے حوالے سے ٹوکن، ای ٹیگ میسج اور لسٹنگ کا بھی خاتمہ کیا جائے گا۔ ان نکات پر ایک مہینے میں عمل درآمد کیا جائے گا۔ معاہدے میں ایک اور اہم نکتہ غیرضروری چیک پوسٹوں کا خاتمہ ہے۔ ضلع گوادر، کیچ اور پنجگور میں اس کام کیلئے ایک مشترکہ کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔ کمیٹی سروے کے بعد رپورٹ تیار کرے گی اور غیرضروری چیک پوسٹوں کے خاتمے کیلئے اپنی سفارشات دے گی۔ معاہدے کی رو سے گوادر کے ماہی گیروں کیلئے خصوصی امدادی پیکیج کا اعلان کیا جائے گا۔ ایکسپریس وے کے متاثرین کو دوبارہ سروے کے بعد معاوضہ دیا جائے گا۔ حق دو تحریک کے کارکنوں پر مقدمات ختم کیے جائیں گے۔ تحریک کے کسی بھی کارکن کے خلاف انتقامی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ مولانا ہدایت الرحمان کا نام فورتھ شیڈول سے نکالا جائے گا۔ انہوں نے دھرنا ضرور ختم کردیا لیکن بلوچستان کو خوش حال بنانے کیلئے اپنی پرامن جدوجہد جاری رکھنے کا اعلان بھی کیا۔ اس 32 روزہ دھرنے کے دوران گودار میں خواتین نے ایک بڑی ریلی بھی نکالی تھی۔ بلوچستان کے قبائلی ماحول میں خواتین کا اپنے حقوق کیلئے بڑی تعداد میں یوں گھر سے نکلنا نہایت غیرمعمولی امر ہے ۔ ان خواتین کو متحرک کرنے اور ان کی قیادت کرنے میں ماسی زینی پیش پیش تھیں۔ دھرنے کے اختتام پر ان کی جدوجہد کو خصوصی طور پر سراہا گیا۔ مولانا ہدایت الرحمان نے انہیں چادر پیش کی۔ اس دھرنے کے دوران کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔ دھرنے کے شرکا پرامن رہے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بھی دھرنا زبردستی ختم کرانے کیلئے کوئی حد پار نہیں کی۔ یہ سب خوش آئند ہے لیکن سوال وہی ہے کہ کب تک مولانا ہدایت الرحمان جیسے دھرتی کے بیٹوں کو اپنی بات سنانے کیلئے اس سب سے گزرنا ہوگا۔ ماسی زینی جیسی ماؤں کو کیوں چادر اور چاردیواری چھوڑ کر سڑکوں پر بیٹھنا ہوگا۔ بات کہنے کا موقع دینا ہوگا اور بات سننے کا حوصلہ کرنا ہوگا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں