دنیا بھر سے کورونا وائرس کا ابھی تک مکمل خاتمہ نہیں ہوا۔ 2019ء کے آخر میں چین کے شہر ووہان سے سر اٹھانے والی اس وبا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ دو سال سے زائد عرصے کے دوران یہ وائرس مختلف شکلیں بدل چکا ہے۔ اب اس وائرس کی نئی قسم اومیکرون دنیا بھر کے لیے درد سر بنی ہوئی ہے۔ اومیکرون وائرس سب سے پہلے جنوبی افریقہ میں دریافت ہوا تھا اور اب یہ برطانیہ، امریکہ ،کینیڈا، پرتگال، بلجیم، ہالینڈ اور بھارت کے بعد پاکستان میں بھی پہنچ چکا ہے۔ پاکستان میں اومیکرون ویری اینٹ کے کیسز کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ قومی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں اومیکرون کا پہلا کیس 13دسمبر 2021ء کو رپورٹ ہوا تھا۔ منگل کو جاری ہونے والے اعدادوشمار کے مطابق کورونا وائرس کی اومیکرون قسم کے پاکستان میں 75 مصدقہ کیس سامنے آچکے ہیں۔ ان میں 33 کیس کراچی، 17 اسلام آباد اور 13 کیس لاہور میں رپورٹ ہوئے ہیں۔ 12کیس بیرون ملک سے آنے والے مسافروں میں رپورٹ ہوئے۔ کورونا ایک ایسا موذی مرض ہے جس سے ابھی مکمل طور پر چھٹکارا ممکن نظر نہیں آرہا۔
کورونا کی بات کریں تو پاکستان سمیت دنیا بھر کے ممالک نے اپنے شہر اور سرحدیں اس وائرس کے باعث بند کیے رکھیں۔ کہیں پر لاک ڈائون، کہیں پر ویکسی نیشن اور سخت احتیاطی تدابیر کے بعد جب کورونا کی شدت میں کچھ کمی آنا شروع ہوئی تو پھر کورونا کی کسی نئی قسم نے سر اٹھا لیا۔ اب جبکہ ایسا محسوس ہو رہا تھا‘ شاید دنیا اس وبا سے کسی حد تک نجات پا چکی ہے اور معاملات زندگی اپنے معمول کی طرف جانا شروع ہو گئے ہیں، اس وائرس کی نئی قسم اومیکرون نے لوگوں کو اپنے حصار میں لینا شروع کر دیا ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اومیکرون کے کیسز میں اضافے کے ساتھ دنیا ایک بار پھر سخت پابندیوں کی طرف جارہی ہے۔ کورونا کی ویکسین لگوانے کے باوجود بعض افراد اس وائرس کا شکار ہوکر موت کے منہ میں جاچکے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ وائرس کا اپنی شکل اور ہیئت بدلنا ہے۔
دنیا بھر کے ممالک اس کوشش میں مصروف ہیں کہ اپنی زیادہ سے زیادہ آبادی کی ویکسی نیشن مکمل کی جائے۔ اس وائرس کی نئی اقسام سامنے آنے کے بعد بوسٹر ڈوزز بھی لگوائی جارہی ہیں۔ قومی ادارہ صحت نے بھی پاکستان میں اومیکرون کے کیس بڑھنے کے بعد ایک بار پھر شہریوں سے ویکسی نیشن کروانے اور ایس او پیز پر عمل درآمد کی اپیل کی ہے۔ ہمارے ہاں مسئلہ البتہ یہ ہے کہ وطن عزیز میں آبادی کی اکثریت بہت سی باتوں کو سنجیدہ نہیں لیتی۔ کورونا کیسز میں کمی آنے کے بعد وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں نے کاروبار اور اجتماعات کے لیے نافذ پابندیوں میں بڑی حد تک نرمی کردی تھی؛ تاہم ماسک پہننا لازمی تھا، جو اب خال خال ہی نظر آتا ہے۔ اسی طرح سماجی فاصلہ بھی کچھ خاص نہیں رکھا جاتا۔ جہاں ہمارے عوام غیر سنجیدہ ہیں وہیں وطن عزیز میں ارباب اختیار بھی اومیکرون ویری اینٹ کو لے کر کچھ خاص سنجیدگی نہیں دکھا رہے۔
وفاقی پارلیمانی سیکرٹری برائے صحت محترمہ نوشین حامد کا کہنا ہے کہ ویکسی نیشن کی دونوں ڈوزز لگوانے والے افراد پر اومیکرون کا حملہ جان لیوا یا زیادہ شدید نہیں ہوتا، اومیکرون سے متاثر ہونے والے افراد معمولی علامات کے بعد ریکور کر جاتے ہیں۔ جن افراد نے دو ڈوزز لگوا لیں ہیں ان کو بوسٹر ڈوز بھی لگوانا چاہیے۔ اومیکرون میں پیٹ خراب ہونا، بخار ہونا اور جسم میں درد ہونا اہم علامات ہیں۔ ان علامات کے ظاہر ہونے پر فوری کووڈ ٹیسٹ کروا لینا چاہیے۔ بیرون ملک سے آنے والے تمام مسافروں کی ایئر پورٹس پر سخت سکریننگ کرنے کے احکامات جاری کر دیئے گئے ہیں۔
محکمہ صحت کراچی نے چند دن پہلے ہسپتالوں کی حد تک ایک اہم قدم اٹھایا ہے۔ سندھ کے ہسپتالوں میں اب صرف اسی مریض اور تیماردار کو آنے کی اجازت ہو گی جس کے پاس ویکسینیشن کرانے کا ثبوت موجود ہو گا۔ اپنے ہمسائے میں نظر دوڑائیں تو اومیکرون کے باعث بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں کورونا کیسز تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور صورت حال پر قابو پانے کے لیے پابندیاں سخت کر دی گئی ہیں۔ اب نئی دہلی میں تعلیمی ادارے بند اور ریسٹورنٹس50 فیصد گنجائش کے ساتھ کھولے جا سکیں گے۔ نجی دفاتر میں بھی صرف 50 فیصد سٹاف کے ساتھ کام کرنے کی اجازت ہو گی۔ شادی کی تقریبات میں 20 افراد کی شرکت کی اجازت ہے۔ سیاسی اور مذہبی اجتماعات پر پابندی ہو گی۔ دہلی میں دو ہفتوں کے دوران کورونا کیسز میں اومیکرون ویری اینٹ کی شرح تین سے بڑھ کر 30 فیصد ہو چکی ہے۔ گزشتہ 10 روز میں امریکہ میں بھی کورونا وائرس کی کیسز میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے۔ دو سال کے عرصے میں امریکہ میں کورونا کے 5 کروڑ 20 لاکھ کیس رپورٹ ہو چکے ہیں جبکہ کورونا کے باعث ہونے والی اموات کی تعداد 8 لاکھ 16 ہزار ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن اب بھی پُر اعتماد ہیں اور کہتے ہیں ''کورونا کی نئی لہر سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں، کورونا وائرس کا نیا ویری اینٹ اومیکرون تشویش کا باعث ہے لیکن اس سے خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے، اومی کرون کے اثرات ابتدائی کورونا وبا کے جیسے نہیں ہیں، ویکسی نیشن کے سبب اومی کرون سے متاثرہ افراد شدید بیمار نہیں ہوں گے۔ اب بھی لاکھوں افراد نے ویکسین نہیں لگوائی جس سے ہسپتالوں میں داخلے بڑھ سکتے ہیں، اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے سخت اور تیز تر اقدامات کریں گے‘‘۔
برطانیہ میں بھی اس حوالے سے صورت حال کچھ اچھی نہیں، برطانیہ میں صرف ایک روز میں 1 لاکھ 29 ہزار افراد میں کورونا کی تشخیص ہوئی ہے، اور یہاں پر ہسپتالوں میں مریضوں کی تعداد مارچ کے بعد بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ فرانس میں اس ساری صورت حال کو دیکھتے ہوئے پابندیاں مزید سخت کر دی گئی ہیں۔ وہاں پر ہفتے میں 3 دن ورک فرام ہوم کی اجازت دی گئی ہے اور عوام پر ویکسین لگوانے پر بھی زور دیا جا رہا ہے۔ بنگلہ دیش میں اومی کرون ویری اینٹ کے باعث ویکسین کے بوسٹر لگانے کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ اس مہینے زمبابوے سے واپس آنے والے دو بنگلہ دیشی کرکٹرز میں اومی کرون ویرینٹ سامنے آیا تھا۔ چین میں بھی ایک بار پھر سے پابندیوں کا دائرہ وسیع کیا جا رہا ہے۔ چین کے شہر یان آن کے مختلف علاقوں میں عوام کو گھروں میں رہنے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔ ایک کروڑ سے زائد آبادی والے شہر شیان میں شہریوں کو گھروں سے نکلنے کی اجازت نہیں ہے۔ عالمی ادارہ صحت بھی خبردار کر چکا ہے کہ اومی کرون ویری اینٹ سے دنیا بھر میں کورونا وبا کی نئی لہر پھیل سکتی ہے۔ ماہرین صحت کے مطابق اس کی بڑی وجہ وائرس کی جینیاتی ساخت میں غیر معمولی حد تک ہونے والی تبدیلیاں ہیں۔ ان میں کئی نئی جینیاتی تبدیلیاں ہیں جو وائرس کی پرانی اقسام میں نہیں تھیں۔ پہلے سے لگی ویکسین یا اس پر بوسٹر شاٹس اومی کرون کے خلاف کس حد تک کارگر ثابت ہوں گے‘ یہ صورت حال اگلے چند دنوں میں واضح ہو جائے گی؛ تاہم مختلف ممالک کی جانب سے پابندیوں میں اضافہ اور حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت پر زور دینا اس بات کا اشارہ ہے کہ خطرہ ابھی موجود ہے۔