''شریف خاندان پکڑا جا چکا ہے۔ آؤ پارٹی کی قیادت سنبھالیں۔ شریفاں نوں چھڈو سانوں وی چانس دیو‘‘ وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی شہباز گل نے یہ الفاظ دہراتے ہوئے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ''مسلم لیگ (ن) کے چار لوگوں کی آڈیو سامنے آنے والی ہے۔ ان کے چار لیڈروں کو پتا ہے کہ شریفوں کا کوئی مستقبل نہیں، اب ڈیل اور ڈھیل کی گنجائش ہی نہیں، ان کے چار لوگ پارٹی کو ٹیک اوور کرنے کی کوشش کررہے ہیں، چاروں دوستوں میں پانچواں بھی شامل ہونے کی کوشش کررہا ہے‘‘۔ تو جناب پاکستان کی سیاست میں آج کل یہ قصہ چہار درویش چل رہا ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا دور ہو جب وطن عزیز کی سیاست میں ڈیل اور ڈھیل کی باتیں نہ کی جاتی رہی ہوں۔ آج کل ایک بار پھر سے ڈیل کا چرچا ہے اور حکومتی وزرا اور ترجمان اس بات پر مصر ہیں کہ مسلم لیگ (ن) ڈیل کررہی ہے۔ شہباز گل صاحب نے شاید اسی لیے ڈیل کو شریف ڈاکٹرائن قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق اس بار چار کی ڈیل مانگی جارہی ہے، یہ ڈیل مانگ رہے ہیں کہ مریم نواز، نواز شریف، حمزہ شہباز اور شہباز شریف کو باہر جانے دیا جائے، نواز شریف کا ویزا ریجیکٹ ہوا تو وہ سیدھا پاکستان آئیں گے۔ شہباز گل صاحب نے شریف خاندان، ان کی پارٹی اور سیاست کے مستقبل کا پورا نقشہ کھینچ ڈالا ہے۔ سینیٹر فیصل واوڈا نے تو ایک ٹی وی پروگرام میں شاہد خاقان، خواجہ آصف، ایاز صادق اور مفتاح اسماعیل کے نام بھی لے دیے اور دعویٰ کیا کہ یہ چاروں رہنما اپنے آپ کو متبادل قیادت کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔
میر امن دہلوی کا ''قصہ چہار درویش‘‘ تو ہے ہی داستان، مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کے خیال میں حکومتی وزرا بھی ان کی پارٹی کے چار افراد کا نام محض داستان طرازی کے لیے اچھال رہے ہیں۔ منگل کے روز اسلام آباد عدالت پیشی کے موقع پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا: وزرا کے بیانات سے لگتا ہے ان کا انجام قریب ہے۔ ایک بھی لیگی ایم این اے اور ایم پی اے نہیں ٹوٹا۔ چار لیگی ارکان کی ڈیل کی افواہیں مت پھیلائیں، ڈیل کی باتیں کرنے والوں کے حربے اچھی طرح جانتے ہیں، نون لیگ آزمائشوں کے باوجود ڈٹی رہی۔ ان کی کابینہ کے ارکان ان کی کارکردگی کے خلاف بات کررہے ہیں، حکومت کا انجام بہت قریب ہے، عوام اب یہ حکومت ایک دن کے لیے بھی برداشت نہیں کرسکتے‘‘۔
مسلم لیگ (ن) کے چار درویش اپنی پارٹی کے ساتھ ہیں یا نہیں یا ان کی آڈیو کب سامنے آرہی ہے؟ اس کیلئے انتظار کیا جاسکتا ہے یا مریم نواز صاحبہ کے الفاظ پر اعتبار کیا جاسکتا ہے؟ یہ الگ بات؛ البتہ ایک بات ضرور ہے کہ کہیں نہ کہیں کچھ پک رہا ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق حکومتی وزرا اور کپتان کی ٹیم کے دیگر کھلاڑیوں کی طرف سے بیک وقت مسلم لیگ (ن) کی ڈیل کی باتیں کرنا، چار لوگوں کا اپنے آپ کو متبادل قیادت کے طور پر پیش کرنا اور شیخ رشید صاحب کا چار شریفوں کا مائنس ہونے کا دعویٰ کرنا، یہ سب کچھ اچانک اور ایسے ہی نہیں ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اور ان کی ٹیم کو بھی شاید اس بات کا اندازہ ہو چکا ہے کہ اب راوی ان کیلئے سب چین نہیں لکھ رہا۔ اسی لیے حکومتی کیمپوں سے اس طرح کی باتیں سامنے آئی ہیں، کچھ ''واقفانِ حال‘‘کے مطابق حکومتی صفوں میں بڑھتی ہوئی بے چینی کی ایک بڑی وجہ تحریک انصاف کے رہنما اور وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک کی وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ تلخ کلامی اور رکن قومی اسمبلی نور عالم کی اپنی ہی حکومت پر شدید تنقید بھی بدلتے ہوئے حالات کی عکاسی کرتی ہے۔
گزشتہ کچھ عرصے سے تحریک انصاف کی سیاست میں ہلچل ہے۔ خاص طور پر ایسا لگتا ہے کہ خان صاحب کے ستارے گردش میں آرہے ہیں۔ اپوزیشن تو وزیراعظم پر تنقید کرتی ہی تھی لیکن تحریک انصاف کی ساڑھے 3 سالہ حکومت میں ایسا شاید پہلی بار ہوا کہ وزیراعظم عمران خان کو ان کی کابینہ کے سینئر رکن نے براہ راست چیلنج کیا‘ جس کے بعد مختلف سیاسی اور صحافتی حلقوں کی جانب سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی رہی کہ شاید موجودہ حکومت کے حوالے سے بھی مائنس ون فارمولے پر عملدرآمد شروع ہونے والا ہے۔ ان افواہوں کو ہوا تحریک انصاف کے ناراض اراکین کی جانب سے دیے گئے بیانات نے بھی دی۔
پہلے تو حکومتی حلقوں کی جانب سے اس تاثر کی نفی کی جاتی رہی لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ تحریک انصاف نے وزیر اعظم عمران خان مخالف مہم کے جواب میں نون لیگ سے مائنس نواز شریف مہم چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ نون لیگی قیادت نواز شریف کا پتّا صاف کرنے پر تلی ہے اور نون لیگ میں یہ ریس لگی ہوئی ہے کہ متبادل کون ہو گا؟ پہلی صف میں بیٹھنے والے چار لیڈرز نواز شریف کو ہٹا کر خود قیادت سنبھالنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ چاروں کسی سے ملنے گئے تو کہا کہ نواز شریف نے ملک کے ساتھ براکیا، آپ ہمارے بارے میں کیوں نہیں سوچتے؟
حکومتی وزرا کے دعوے اپنی جگہ لیکن نون لیگ سے نواز شریف کو مائنس کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ نون لیگ کا بڑا ووٹ بینک ہی نواز شریف کا ہے۔ ایک حالیہ سروے تو یہ بھی بتاتا ہے کہ نواز شریف کا نون لیگ سے مائنس تو کیا ہونا‘ وہ پاکستان کی سیاست میں ان ہو رہے ہیں۔ انسٹیٹیوٹ فار پبلک اوپینین ریسرچ کے حالیہ سروے کے مطابق 33 فیصد پاکستانیوں نے سابق وزیر اعظم پر ملکی مسائل حل کرنے کے حوالے سے اعتماد کا اظہار کیا۔ موجودہ وزیر اعظم عمران خان پر اعتماد کا اظہار کرنے والوں کی تعداد 30 فیصد رہی، جبکہ 16 فیصد نے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری پر اعتماد کا اظہار کیا۔
اس سروے کے نتائج بتاتے ہیں کہ پاکستانی سیاست کو ایک بار پھر نواز شریف کی ضرورت پڑ گئی ہے۔ اسی سروے کے مطابق 29 فیصد پاکستانیوں نے وقت سے پہلے انتخابات کی صورت میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کو جبکہ 28 فیصد نے پاکستان تحریک انصاف کو پہلی چوائس قرار دیا ہے۔ 2018ء کے مقابلے میں پی ٹی آئی کی مقبولیت میں 4 فیصد کمی دیکھی گئی جبکہ اسی عرصے میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت میں 5 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اگر اس سروے اور مجموعی صورتحال کو مدنظر رکھیں تو ایسا نہیں لگتا کہ نواز شریف کو ملکی سیاست سے مائنس کیا جا سکتا ہے، بلکہ ان نتائج سے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے میاں نواز شریف ایک بار پھر سے ملکی سیاست میں پلس ہونے جا رہے ہیں۔
جہاں تک وزیر اعظم عمران خان کے مائنس ہونے کی بات ہے تو اس کا فیصلہ آنے والے کچھ عرصے میں ہو گا۔ حکومت کی طرف سے تو ساڑھے تین سال سے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایک صفحے پر ہونے کا تاثر دیا جاتا رہا ہے، اور حکومت کے لیے مشکل اوقات میں اس کا ثبوت بھی ملتا رہا ہے لیکن پچھلے چند ہفتوں سے ایک صفحے پر نہ ہونے کا تاثر بھی سامنے آیا اور کچھ حلقوں کی طرف سے غیر جانبدار ہونے کا تاثر ابھرا۔ اب اگر وزیر اعظم عمران خان طاقتور حلقوں کو راضی کرنے اور تحریک انصاف کے اراکین پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے میں کامیاب ہو گئے تو انہیں کوئی مائنس نہیں کر پائے گا لیکن اگر صورتحال اس کے برعکس جاتی ہے تو ان کی کرسی خطرے میں پڑ سکتی ہے اور پاکستانی سیاست میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ بھاری سے بھاری مینڈیٹ والے وزیراعظم آسانی سے مائنس ہوگئے۔