دنیا ایک بار پھر تیزی سے دو حصوں میں تقسیم ہورہی ہے۔ یوں کہیں کہ ایک نئی جیوپولیٹیکل سیچوایشن بن رہی ہے۔ ایک طرف چین، دہائیوں کی جدوجہد کے بعد پوری دنیا پر اپنا اثرورسوخ قائم کررہا ہے اور دوسری طرف امریکہ اتحادی ممالک کے ساتھ مل کراپنے کم ہوتے اثرورسوخ کو قائم رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ عالمی حالت کا جائزہ لیں تو 80 کی دہائی میں امریکہ اور روس کے مابین جاری رہنے والی کولڈ وار کا ری میک اب امریکہ اور چین کے مابین ہوتا دکھائی دیتاہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک اپنی پوزیشن واضح کرچکے یا کررہے ہیں۔ ان حالات میں یوں لگتا ہے کہ پاکستان نے اپنا وزن دیرینہ دوست چین کے پلڑے میں ڈالنے کا فیصلہ کیا ہے جس کی ایک واضح نشانی وزیراعظم عمران خان کی ایک ایسے وقت میں چین میں موجودگی اور سرمائی اولمپکس میں شرکت ہے، جب امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا اور کینیڈا سمیت کئی دیگر ممالک نے کسی نہ کسی سطح پر ان اولمپکس گیمز کا بائیکاٹ کررکھا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ 1980ء میں امریکہ نے روس میں ہونے والی اولمپکس گیمز کا بائیکاٹ کیا تھا، جس کے جواب میں روس نے 1984ء میں لاس اینجلس اولمپکس کا بائیکاٹ کیا تھا۔ ان گیمز میں شرکت سے پاکستان اپنے دیرینہ دوست چین کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے سفارتی سطح پر دنیا کو دکھانا چاہتا ہے کہ وہ پوری طرح چین کے ساتھ کھڑا ہے۔
وزیراعظم کے دورہ کا مقصد صرف چین کے ساتھ اظہار یکجہتی ہی نہیں ہے۔ اس دورے کے دیگر کئی سیاسی، سفارتی اور معاشی مقاصد بھی ہیں۔
ایک اہم مقصد سی پیک پر چینی قیادت کو اعتماد میں لینا ہے کیونکہ صحیح یا غلط لیکن ایک تاثر ضرور ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کے دوران سی پیک پر کام سست ہوگیا ہے، خاص طور پر گزشتہ سال داسو میں دہشتگردانہ حملے میں چینی کارکنوں کی ہلاکتوں کے بعد چین اور پاکستان کے تعلقات سردمہری کا شکار رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کوشش کریں گے کہ چینی قیادت کے تحفظات دور کریں اور موجودہ پروجیکٹس پر کام میں تیزی لائی جائے کیونکہ سی پیک منصوبے کی اہمیت ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق اگر چین پاکستان اقتصادی راہداری کا منصوبہ کامیابی سے نافذ ہو جاتا ہے تو پاکستان اپنے سٹریٹجک جیوپولیٹیکل محل وقوع کو بروئے کار لاکر اپنے علاقائی اور بین الاقوامی اقتصادی روابط کو بہتر اور صنعتی ترقی کو بڑھا سکتا ہے‘ وسطی، جنوبی اور مغربی دنیا کیلئے اقتصادی مرکز بن سکتا ہے۔ رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ چین اور پاکستان کے مابین اقتصادی روابط اور علاقائی انضمام کیلئے سی پیک ایک اہم قدم ہے جس سے قومی اور علاقائی روابط کو فروغ ملے گا، لوگوں اور سامان کی سرحدوں کے اندر اور ان کے پار تیز رفتار، سستی اور آسان نقل و حرکت یقینی ہو جائیگی۔ اس منصوبے سے قومی، علاقائی اور عالمی تجارت کی لاگت میں کمی آئے گی، معاشرے کے معاشی طورپرکمزور طبقات کی اقتصادی مواقع تک رسائی کو بہتر بنایا جاسکے گا‘ اور ضروری بنیادی ڈھانچے کی خدمات تک بہتر رسائی فراہم کرنے کے نتیجے میں غربت میں کمی آئے گی۔
سی پیک کے علاوہ وزیراعظم یہ بھی چاہیں گے کہ کچھ نئے معاہدوں کے ذریعے چین کو مزید سرمایہ کاری پر بھی قائل کریں۔ اس حوالے سے حکومت کی جانب سے 21 مختلف شعبہ جات کی نشاندہی کی گئی ہے‘ اور پاکستان میں سرمایہ کاری کے مواقع کے حوالے سے خاص طور پر ایک 'پچ بک‘ تیار کی گئی ہے جس میں سرمایہ کاری کے حامل شعبوں اور ان شعبوں میں فراہم کی جانے والی حکومتی سہولیات کا ذکر شامل ہے۔ اگر وزیراعظم اپنے اس مقصد میں کامیاب ہو گئے تو انہیں پاکستان کی اندرونی سیاست میں بھی کریڈٹ حاصل کرنے کا موقع مل جائے جائے گا، بالکل ویسے ہی جیسے نون لیگ سی پیک کا کریڈٹ لینے کی کوشش کرتی ہے۔
پاکستان کے لیے سب سے بڑی پریشانی معاشی مسائل ہیں، جن کا سامنا کرنے کے لیے کبھی پاکستان کو آئی ایم ایف اور کبھی کسی دوسرے ملک کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ اس وقت چین ہی ایک ایسا ملک ہے جو ایک بار پھر پاکستان کی امیدوں کا مرکز بن چکا ہے۔ عین ممکن ہے کہ چین ایک مرتبہ پھر پاکستان کی مدد کرے۔
ایک ایسے وقت میں جب وزیراعظم عمران خان کو چین کے دورے پر جانا تھا، معاشی حوالے سے اور سرمایہ کاری کے حوالے سے اہم ملاقاتیں کرنی تھیں، دہشتگردی کی لہر ایک بہت بڑی سازش ہے۔ چینی حکومت کو ایک بڑا خدشہ چینی ورکرز کی سلامتی کے بارے میں ہے‘ اور یہ حملے ہو بھی بلوچستان میں رہے ہیں جو سی پیک کا ایک اہم حصہ ہے۔ اب جب وزیر اعظم چین سے سرمایہ کاری کے حوالے سے تعاون مانگیں گے تو یہ نکتہ ضرور سامنے آئے گا کہ آپ چینی کارکنوں کی سکیورٹی کیسے یقینی بنائیں گے۔ وزیراعظم عمران خان چینی حکام کو قائل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں، یہ تو آنے والا وقت بتائے گا‘ لیکن اگر وہ کامیاب ہو گئے تو اس کا فائدہ نہ صرف ریاستِ پاکستان کو بلکہ خود خان صاحب کی سیاست کو بھی ہو گا۔
دنیا جس طرح دو بلاکس میں تقسیم ہورہی ہے، ایسے میں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ اس میں صرف چین کے ساتھ جانا پاکستان کے لیے کتنا فائدہ مند ہو گا یا پھر پاکستان کو مغرب اور چین کے مابین تعلقات میں توازن رکھنے کے لیے کوئی درمیانی راہ اپنانی چاہئے۔ سرمائی اولمپکس کا میلہ کھیلوں سے زیادہ سیاسی نقطہ نظر سے اہمیت اختیار کرچکا ہے۔ یوکرائن کے معاملے پر روس اور مغرب میں کشیدگی بڑھتی جارہی ہے۔ ایسے میں ماسکو اور بیجنگ مزید قریب آگئے ہیں۔ چین کے صدر شی جن پنگ اور روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن کے مابین ملاقات کے بعد جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا اس میں روس اور چین نے واضح پیغام دیا ہے کہ امریکا اور نیٹو سرد جنگ کی ذہنیت ترک کر دیں۔ وہ ان ممالک کی خود مختاری اور سلامتی کے لیے خطرہ بننے سے گریز کریں‘ یورپی اتحاد کو مشرق کی طرف توسیع دینے سے باز رہیں۔ نیٹو دوسرے ملکوں کی پُرامن ترقی کے لیے منصفانہ اور معروضی رویہ اپنائے۔ روس نے ون چائنہ اصول کی پاسداری کا اعلان کرتے ہوئے تائیوان کے معاملے پر بھی کھل کر چین کی حمایت کی۔ یورپ کی طرف سے گیس خریداری کے معاہدوں کی منسوخی اور امریکی پابندیوں کا بھی حل نکالا گیا۔ چین اور روس نے تیل اور گیس کے 117 اعشاریہ 5 بلین ڈالر کے معاہدے بھی کیے۔ امریکی پابندیوں سے بچنے کے لیے قیمت یورو میں طے ہو گی جبکہ ادائیگی قومی کرنسیوں میں کی جائے گی۔ روس نے چین کو سالانہ 10 ارب کیوبک میٹر گیس فراہمی کا 30 سالہ معاہدہ کیا ہے۔ روس کی تیل کمپنی نے بیجنگ کو قازقستان کے راستے 100 ملین ٹن مزید تیل کی فراہمی کا معاہدہ بھی کر لیا ہے۔ عالمی سیاسی منظرنامے کے حوالے سے یہ ایک بڑی پیشرفت ہے۔ مغرب لازمی طور پر اس پیشرفت پر خوش نہیں ہو گا۔ اس کا اظہار بلومبرگ کی سرمائی اولمپکس کے حوالے سے لگائی گئی سرخی سے بخوبی ہوتا ہے۔ بلوم برگ کی سرخی کچھ یوں ہے کہ صدر شی جن پنگ کی سرمائی اولمپکس کے مہمانوں کی فہرست میں زیادہ تر غیر جمہوری ممالک کے سربراہان شامل ہیں۔ بلومبرگ کی ہیڈ لائن واضح کرتی ہے کہ دنیا کی دو بلاکس میں تقسیم کی بنیاد یہی جمہوری اور غیر جمہوری ممالک ہوں گے۔ مغرب اپنے بلاک میں شامل ممالک کو جمہوری قرار دے گا۔ چین اور روس کو عالمی سطح پر مسائل پیدا کرنے والے غیر جمہوری ممالک کا قائد تصور کرے گا۔ جمہوری اور غیر جمہوری ہونے کی تقسیم کا نعرہ اپنی جگہ، لیکن یہ یاد رہے کہ اصل طاقت کا مرکز مضبوط معاشی ہاتھ ہی ہوں گے۔