"IYC" (space) message & send to 7575

بہت دیر کر دی مہربان آتے آتے

2018ء کے انتخابات میں کامیابی کے بعد وزیر اعظم عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر وفاق‘ پنجاب‘خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں اپنے حکومت قائم کی تو اپوزیشن خصوصاً مسلم لیگ (ن)‘پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کی طرف سے الیکشن چوری ہونے کے الزامات لگائے گئے اور وزیر اعظم عمران خان کو سلیکٹڈ قرار دیا جاتا رہا۔اپوزیشن اور پھر پی ڈی ایم کی طرف سے عوام کو بار بار یہی پیغام دیا جاتا رہا کہ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت سے چھٹکارا پانے کیلئے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ہر آئینی اور قانونی طریقہ اپنایا جائے گالیکن عملًا اپوزیشن کی تمام باتیں اور دعوے صرف بڑھکیں ہی ثابت ہوتے رہے۔حکومت نے آئی ایم ایف کی شراط تسلیم کرتے ہوئے منی بجٹ منظور کرالیا لیکن اپوزیشن کچھ نہ کر سکی۔سٹیٹ بینک کی خودمختاری کا بل بھی پاس ہوگیا لیکن اپوزیشن صرف نعرے ہی لگاتی رہی۔اب ایک دم مسلم لیگ( ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت آپس میں شیروشکر ہوگئی اور ایک ہنگامی اجلاس میں مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے سربراہوں نے بھی سر جوڑ لئے اور بڑے فیصلے کر ڈالے۔یوں لگتا ہے کہ جیسے کوئی اشارہ مل گیا ہو ۔بقول شاعر
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
مولانا فضل الرحمن کی گفتگو میں برجستگی اور شگفتگی اکثر ملتی ہے۔ جمعہ کی شب مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کی رہائش گاہ پر پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس کے بعد بھی میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے برجستہ اور شگفتہ جملے بولے‘ جیسے کہا کہ امپائر کہتے ہی اسے ہیں جو نیوٹرل ہو ‘ اور اس بات کے ساتھ ان کے چہرے پر خاص مسکراہٹ بھی سجی ہوئی تھی۔ پی ڈی ایم کی ملاقاتوں کے بعد ایسی گفتگو بھی دیکھنے اور سننے کو ملی ہے جب چہروں پر مسکراہٹ کم ہی نظر آتی تھی‘ مگر پچھلے ہفتے میں سیاسی رابطوں میں تیزی کے بعد کہیں نہ کہیں کچھ ایسا ضرور ہوا ہے جس نے مولانا فضل الرحمن کو بھرپور اعتماد کے ساتھ میڈیا کے سامنے کھڑا کردیا۔ امپائر نیوٹرل ہے یا نہیں اس کا پتہ چلنے میں بھی دیر نہیں لگے گی۔ سیاسی منظر نامہ تبدیل ہوگا یا نہیں اس سے سب پتہ چل ہی جائے گا۔ جہاں تک باڈی لینگوئج کی بات ہے تو صرف مولانا فضل الرحمن ہی نہیں ان کے اردگرد کھڑے احباب بھی پراعتماد دکھائی دے رہے تھے۔ شہباز شریف کے چہرے پر خاصا اطمینان دکھائی دے رہا تھا تو مریم نواز اور حمزہ شہباز کے تاثرات بھی اس بات کی چغلی کھارہے تھے کہ سب بہت اچھا نہیں بھی تو کچھ نہ کچھ اچھا ضرور ہے۔ کچھ کہے بغیر بہت کچھ کہہ دینے والی کیفیت تھی۔مریم نواز اور حمزہ شہباز دونوں ہی میاں شہباز شریف کے پیچھے کھڑے تھے‘مریم نواز نے تو ایک سوال کے جواب میں یہ بھی کہا کہ بڑے موجود ہیں لہٰذاآج میں گفتگو نہیں کروں گی۔اس سے یہ تاثر مزید پختہ ہوتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کا سٹیئرنگ میاں شہباز شریف کے پاس ہے اوران کے بڑے بھائی میاں محمد نوازشریف نے مریم نواز کو بھی اپنے چچا کی پالیسی اپنانے کی ہدایت کی ہے۔
مولانا فضل الرحمن نے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کرنے سے آگاہ کیا تو ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ اپوزیشن پی ٹی آئی کے ارکان سے انفرادی طور پر رابطے نہیں کرے گی۔کسی بھی بلیک میلنگ سے بچنے کیلئے پارٹی کی سطح پر یا بلاک کی صورت میں لوگوں سے ملا جائے گا۔تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کیلئے ووٹ ضروری ہیں لہٰذا حکومت کی اتحادی جماعتوں سے ملاقات کیلئے وفد کی تشکیل کا عندیہ بھی دیا۔اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ اتحادی جماعتوں سے اپوزیشن کے ابتدائی رابطے اطمینان بخش رہے ہیں جس کی بناپر ہی اب یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں وزیر اعظم کون ہوگا‘ اگرچہ کسی بھی طرف سے اس موقع پر یہ سوال نہیں پوچھا گیا تاہم مارکیٹ میں اس وقت مختلف نام گردش کر رہے ہیں‘کہنے والے تویہاں تک کہہ رہے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کپتان سے چھٹکارا پانے کیلئے سابق صدرآصف علی زرداری کو بھی وزیر اعظم بنانے کیلئے تیار ہے‘اگرچہ کسی بھی جانب سے زیر گردش ناموں کی تصدیق یا تردید نہیں کی گئی تاہم بہت جلد اس کی تفصیلات بھی سامنے آ جائیں گی۔
تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں اپوزیشن اسمبلیاں توڑ دے گی یا ڈیڑھ سال تک حکومت کی باگ ڈور سنبھال کر پانچ سال کی مدت پوری کی جائے گی‘یہ ایسا اہم سوال ہے کہ مولانا بھی اس کو ایک سنجیدہ سوال قرار دے کر اس کا جواب گول کر گئے۔سیاسی مبصرین کے مطابق اپوزیشن مسلم لیگ (ن) کا موقف اپناتے ہوئے صرف اور صرف الیکشن کیلئے مناسب وقت کا تعین کرتے ہوئے آئندہ الیکشن کا اعلان کردے گی کیونکہ دوسری صورت میں وزیر اعظم عمران خان کو سیاسی شہادت کا ڈھول بجانے کا موقع مل جائے گا۔
حکومتی صفوں میں شامل افراد کی باڈی لینگوئج کی بات کریں تو وزیراعظم عمران خان'' خطرناک ہوجاؤں گا‘‘والے بیان کے بعد جتنی بار عوام کے سامنے آئے ہیں تو ان کے تاثرات بھی اس بات کی چغلی کھاتے ہیں کہ سب شاید پہلے جیسا نہیں۔ کپتان کے کھلاڑی اعتماد سے بھرپور ہیں۔ جمعہ کی شب مولانا فضل الرحمن کی پریس کانفرنس کے بعد وزیر اطلاعات فواد چودھری نے انہیں سخت جواب دیے۔ انہوں نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے اجلاس کو پاکستان کرپشن لمیٹڈ پارٹی کی بیٹھک قرار دیا۔ اپوزیشن کو چیلنج بھی دیا کہ کسی مائی کے لعل میں جرأت نہیں کہ وہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لاسکے‘ مولانا فضل الرحمن بھی پہلے دن سے حکومت کو گھر بھیجنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں لیکن ان کے بازوؤں میں طاقت نہیں ہے‘ شہباز شریف کا خیال ہے کہ اس طرح کے ہتھکنڈوں سے وہ 18 فروری کو لگنے والی فرد جرم سے بچ سکتے ہیں تو ایسا نہیں ہوگا‘ اپوزیشن جرأت کرے‘ تحریک عدم اعتماد لے کر آئے پاکستان تحریک انصاف اور خود اپوزیشن کے ارکان اسمبلی انہیں سرپرائز دیں گے۔ فواد چودھری صاحب بجا فرماتے ہیں کہ اپوزیشن کے بازوؤں میں طاقت نہیں‘ تحریک انصاف پہلے بھی کئی بار یہ بازو آزما چکی ہے اور جیسا فواد چودھری کہہ رہے ہیں تحریک عدم اعتماد لاتے لاتے کہیں اپوزیشن کو ہی سرپرائز نہ مل جائے۔ جمعہ کی شب وزیر داخلہ شیخ رشید صاحب نے اس موضوع پر اظہار خیال کیا تھا۔ ان کے خیال میں پی ڈی ایم والوں کے چہروں پر شکست لکھی ہوئی ہے‘ نہ یہ عدم اعتماد لائیں گے اور نہ ہی 23 مارچ کو لانگ مارچ کے لیے نکلیں گے‘ اپوزیشن کے اپنے بندے پورے نہیں‘ ان کی سیاست ختم ہوگئی ہے‘ اتحادیوں سے کتنی دفعہ خیرات مانگنے جائیں گے۔ شیخ رشید کافی باخبر سیاست دان ہیں‘ کچھ دن پہلے وہ ملکی سیاست میں اگلے پچاس دنوں کو بھی کافی اہمیت کا حامل قرار دے چکے ہیں۔ پچھلے کالم میں جس سیاسی کھچڑی کا ذکر کیا تھا شیخ رشید بھی یقینا اسی طرف اشارہ کررہے ہوں گے۔ اپوزیشن کی اب تک حکومت کو گھر بھیجنے کی کوششیں ناکام ہوئی ہیں‘ اب کی بار اپوزیشن کا اعتماد دیکھتے ہوئے یہ پیش گوئی تو کی جاسکتی ہے کہ مکمل کامیابی ملے نہ ملے‘ کوئی ایک محاذ شاید فتح ہوجائے۔ پیپلز پارٹی تو مدت سے عدم اعتماد کی بات کررہی تھی‘ اب باقی جماعتیں بھی آخر کار اسی طریقہ کار کو آزمانے کے لیے تیار ہوگئی ہیں اور مولانا فضل الرحمن بھی اب یہی کہہ رہے ہیں کہ سندھ کے علاوہ جہاں موقع ملا عدم اعتماد کی تحریک لائی جائے گی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں