بدلتے حالات اور وقت صاحب اقتدار لوگوں کے لب و لہجے اور فیصلے کیسے بدل کر رکھ دیتے ہیں اس کا عملی مظاہرہ دیکھنا ہو تو ملکی سیاست میں روز بروز بڑھتی ہوئی گرمی کے باعث وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی قیادت میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومتی صفوں میں پائی جانے والی بے چینی اور فیصلوں میں دیکھ سکتے ہیں۔ تبدیلی سرکار صرف چند دن پہلے تک ملک میں بڑھتی مہنگائی کو ایک عالمی مسئلہ قرار دے رہی تھی۔ کپتان اور ان کے تمام کھلاڑی، وہ وزیر ہوں، مشیر ہوں یا پھر معاونین خصوصی‘ سب کے سب یک زبان ہو کر یہ کہتے نظر آتے تھے کہ پٹرول کی قیمت میں اضافہ عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں اضافے کے باعث ہے‘ پٹرول کی قیمتیں بڑھنے سے دوسری تمام اشیا کی قیمتیں بھی بڑھ جاتی ہیں، پٹرول کی قیمتیں ابھی مزید بڑھیں گی اور عوام کو مزید کچھ عرصے تک مہنگائی میں اضافہ برداشت کرنا پڑے گا۔ پھر یکایک ایسا کیا ہوا کہ وزیر اعظم کے دل میں عوام کا ایسا درد جاگا کہ عالمی مالیاتی اداروں بشمول آئی ایم ایف کی ممکنہ ناراضی کو بھی پس پشت ڈال دیا اور بقول حسان خاور ایسا چھکا مارا کہ اپوزیشن کے غبارے سے ہوا ہی نکال دی۔
معاشی ماہرین حیران ہیں کہ وہ حکومت جو آئی ایم ایف کے مطالبے پر پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کررہی تھی اور وہ حکومت جس کے وزیرخزانہ مہنگائی کی شرح 12 فیصد سے بڑھنے کے باوجود پاکستان کو سستا ترین ملک قراردے رہے تھے، اسی حکومت کے وزیراعظم نے عوام سے خطاب کرتے ہوئے پٹرول، ڈیزل اور بجلی کی قیمتوں میں کمی سمیت عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے حوالے سے کئی اہم اعلانات کیے ہیں۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گزشتہ ساڑھے تین برسوں میں پہلی بار اپوزیشن کی نہایت غیرمعمولی اور متحرک سرگرمیوں نے وزیر اعظم کو پریشانی اور غیریقینی صورتحال سے دوچار کردیا ہے، جس کا سب سے بڑا ثبوت ان کے وہ حالیہ فیصلے ہیں، جنہیں بہ آسانی عوام کو خوش کرنے کی تدبیر قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ فیصلے اُن کے اور ان کے وزرا کے ماضی قریب کے بیانات سے مطابقت نہیں رکھتے۔ سبسڈی کے حوالے سے حکومتی موقف صاف ہے کہ ماضی کی حکومتوں نے ملک کو سبسڈی پر چلا کر معیشت تباہ کی، اور اگر موجودہ دور حکومت میں آئی ایم ایف کے کہنے پر سبسڈی ختم کی جا رہی ہے تو یہ ملکی مفاد میں ہے‘ لیکن اب وزیر اعظم نے خود پٹرول اور بجلی پر سبسڈی دے کر اس معاشی وژن پر بھی یوٹرن لے لیا ہے۔ وزیر اعظم ماضی میں ایمنسٹی کے خلاف رہے، لیکن اب صنعتکاروں کو بغیر ذرائع آمدن بتائے مزید فیکٹریاں لگانے کی ترغیب دے کر تعمیراتی شعبے کے بعد صنعتی شعبے کو ایمنسٹی پلس دے رہے ہیں۔ اسی طرح عین جنگ کے عالم میں دورہ روس کو اینٹی امریکن پاکستانی عوام کو خوش کرنے کے لیے ایک پاپولسٹ فیصلہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
ماضی میں بھی ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ جب کبھی وزرائے اعظم مشکل میں آئے اور انہیں اپنی حکومت جاتی ہوئی محسوس ہوئی تو انہوں نے عوام کو خوش کرنے کے لیے ''پاپولر‘‘ فیصلے کرنے کی کوشش کی۔70 کی دہائی میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے لبرل ہوتے ہوئے بھی اتوار کے بجائے جمعہ کو ہفتہ وار چھٹی اور شراب پر پابندی جیسے اقدامات کئے۔ انہوں نے ان فیصلوں سے عوام کو خوش کرنے اور اپوزیشن تحریک کے توڑ کی کوشش کی۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے بھی اپنے پہلے دورِ حکومت میں اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے اقتدار لینے کے باوجود ''میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا‘‘ والی تقریر سے عوام میں خود کو انقلابی ثابت کرنے کی کوشش کی۔ ساتھ ہی ساتھ اپوزیشن میں موجود محترمہ بینظیر بھٹو کی اینٹی سے پرو اسٹیبلشمنٹ ہوتی سیاست کے توڑ کی کوشش بھی جاری رکھی۔ سابق صدر اور سابق آرمی چیف پرویز مشرف عوامی جذبات سے اتنے مغلوب ہوئے کہ لال مسجد کے خلاف آپریشن کا فیصلہ کر بیٹھے، جس نے ان کے زوال کی راہ ہموار کر دی۔ اسی طرح سابق وزیر اعظم میاں محمد نوازشریف اپنے تیسرے دور حکومت میں جب پانامہ کیس میں پھنس گئے تو نتیجتاً انہوں نے ہر علاقے میں جاکر موٹر وے اور انٹرچینج بنانے، گیس اور نوکریاں دینے جیسے وعدے کرنے شروع کر دیے تاکہ عوام کو اپنی جانب راغب کیا جا سکے۔
کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ اقتدار سے دوری کا ڈر سیاستدانوں کے لیے سب سے بڑا خوف ہوتا ہے۔ اگرچہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس معاشی پیکیج سے مشکل معاشی صورتحال کا سامنا کرنے والے عوام کو وقتی ریلیف ملے گا‘ لیکن سوال ضرور اٹھ رہے ہیں اور یہ سوال پوچھنے والے حق بجانب ہیں کہ اگر حکومت کے پاس اتنی کپیسٹی تھی کہ وہ عوام کو ریلیف فراہم کر سکے تو یہ فیصلہ پہلے کیوں نہیں کر لیا گیا؟ حکومت چاہے جو بھی جواز پیش کرے لیکن موجودہ سیاسی حالات کے تناظر میں دیا جانے والے اس حکومتی پیکیج کا مقصد عوام کو ریلیف فراہم کرنے سے زیادہ حکومت کو بچانے کی کوشش لگتا ہے۔ اسے یوں کہنا درست ہو گا کہ یہ ''معاشی پیکیج‘‘ سے زیادہ ''سیاسی پیکیج‘‘ ہے۔
معاشی ماہرین اس پیکیج کو ایسا شارٹ ٹرم ریلیف سمجھتے ہیں جو وقتی طور پر تو شاید عوام کے لیے فائدہ مند ہو لیکن ملک کی موجودہ معاشی صورتحال کے تناظر میں آنے والے دنوں میں عوام پر کئی گنا زیادہ معاشی بوجھ ڈالنے کا سبب بن سکتا ہے۔ معروف ماہر معاشیات ڈاکٹر فرخ سلیم کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے پٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں 10 روپے فی لٹر کمی اور بجلی کی قیمت میں 5 روپے فی یونٹ کمی سے ملکی خزانے پر تقریباً 300 ارب کا اضافی بوجھ پڑے گا۔ اب حکومت اس بوجھ کو پورا کرنے کے لیے مزید قرضے لے گی؟ نئے نوٹ چھاپے گی؟ یا پھر بالواسطہ طور پر مزید کوئی ٹیکس لگائے جائیں گے، اس بات کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا لیکن یہ بات طے ہے کہ حکومت اور عوام دونوں کو یہ بوجھ اٹھانا ہی پڑے گا۔
ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے بہت سوچ سمجھ کر یہ کارڈ کھیلا ہے۔ اگر تو یہ پیکیج دیے جانے کے باوجود تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو جاتی ہے تو تحریک انصاف اور وزیر اعظم عمران خان کے پاس آئندہ سیاست کے لیے ایشو آ جائے گا کہ دیکھیں ہم نے عوام کو ریلیف فراہم کرنا شروع کیا ہی تھا کہ اپوزیشن نے ہمارے خلاف سازش کرکے حکومت ختم کر دی‘ لیکن اگر تحریک عدم اعتماد ناکام ہو جاتی ہے تو حکومت آئی ایم ایف سے وعدے کے مطابق 4 ماہ بعد اسی طرح قیمتیں بڑھانا شروع کردے گی جس طرح پہلے بڑھا رہی تھی۔
سیاست میں اقتدار جانے کا خوف سب سے بڑا خوف ہوتا ہے۔ اقتدار قائم رکھنے کے لیے حکمران سب حدیں پار کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ ان کے نزدیک سب سے اہم اقتدار کی کرسی کا قائم رہنا ہوتا ہے۔ وزیر اعظم کیا اپوزیشن کی جانب سے ڈالے گئے پریشر میں آ گئے ہیں یا ان کو واقعی عوام کی حالت پر رحم آگیا ہے؟ پٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں 10 روپے کمی اور ساتھ میں بجلی کی قیمت میں 5 روپے فی یونٹ کمی‘ کیا یہ بھی ایک سیاسی سٹنٹ ہے یا عوامی ہمدردی؟ اس بات کا فیصلہ آنے والے چند دنوں میں ہو جائے گا۔