قومی سلامتی کمیٹی کے حالیہ اعلامیے سے عمران خان اپنے ہی بیانیے کے تضادات میں دبنے لگے ہیں، جس کا اظہار ان کی جلسۂ لاہور کی تقریر سے بھی ہوتا ہے۔ سابق وزیر اعظم‘ جو 27 مارچ سے چیخ چیخ کر اپنی حکومت کا غیرملکی سازش کے نتیجے میں دھڑن تختہ ہونے کا الزام لگاتے آئے ہیں، اب فرماتے ہیں کہ غلطی کرنے والے اپنی غلطی سدھاریں اور قبل از وقت انتخابات کروائیں۔ یہ عیاں ہے کہ ان کا مخاطب امریکہ نہیں کوئی اور ہے۔ امریکہ سے بہرحال وہ جلد انتخابات کروانے کا مطالبہ نہیں کر سکتے۔ جبلی طور پر ذہین اور زمینی حقائق کو سمجھنے والے عمران خان جانتے ہیں کہ غیر ملکی سازش کا بیانیہ بہت دیر تک نہیں فروخت ہو سکتا، کیونکہ قومی سلامتی کمیٹی پاکستان کے امریکی سفارت خانے سے جاری ہونے والے سائفر کے حوالے سے واضح الفاظ میں کہہ چکی ہے کہ اس میں سازش کا کوئی عنصر موجود نہیں۔ اگر شہباز سرکار ایک قدم بڑھ کر کوئی غیر جانب دار تحقیقاتی کمیشن قائم کرتی ہے تو اس کا اخذ کردہ نتیجہ بھی قومی سلامتی کونسل کی اجتماعی دانش سے مختلف نہیں ہو گا۔ اسی لیے عمران خان اب اپنی توپوں کا رخ براہ راست اداروں کی جانب کر کے ان پر دبائو بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر پہلے سے ہی اداروں کے خلاف نفرت انگیز مہم زوروں پر ہے۔ اب غالباً عمران خان بھی اس حوالے سے کھل کر کھیلنے کا ارادہ رکھتے ہیں جس کا اشارہ انہوں نے جلسۂ لاہور میں دیا۔ میڈیا اور خان صاحب کے حامی تو جلسے میں حاضرین کی تعداد کا تقابل 2011ء کے تاریخی جلسے سے کرنے میں مصروف رہے، لیکن سیاست کے طالب علم ان کے خطاب کو بین السطور پرکھنے کی کوششوں میں ہیں۔ خان صاحب‘ جو اس جلسے میں کراچی اور پشاور کے جلسوں کے مقابلے میں زیادہ اشتعال اور اضطراب میں دکھائی دیئے، نے فرمایا کہ امریکہ نے میر جعفروں کے ذریعے ان کا اقتدار گرایا۔ ساتھ ہی فرمایا کہ اسی امریکہ بہادر نے بھٹو کو میر جعفر کے ذریعے اقتدار سے علیحدہ کر کے پھانسی گھاٹ پر چڑھایا، یعنی وہ یہاں میر جعفر اگر ضیاالحق کو کہہ رہے ہیں تو اپنی اقتدار سے علیحدگی کا الزام کس پر لگا رہے ہیں؟ ہمیں سمجھ آ رہی ہے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ خان صاحب یہ سب کچھ کیوں کر رہے ہیں؟ کیا وہ نہیں جانتے کہ پاکستان جیسے ملک میں تعاون اور اقتدار کے حصول کے لیے کیا ضروری ہے؟ وہ 22 سال سڑکوں پر جوتیاں چٹخاتے رہے، انہیں اقتدار ملا بھی تو کیسے؟ 2014ء کے 126 دن کے دھرنے میں جب میڈیا، اسٹیبلشمنٹ کا ایک بڑا حصہ انہیں سپورٹ کررہے تھے، جب پارلیمنٹ پر یلغار کے دوران انہیں 3 حامیوں کی لاشیں بھی مل گئیں، تب بھی وہ نواز حکومت کو گھر بھیجنے میں ناکام رہے تھے۔ تو اب انہیں کیوں لگتا ہے کہ وہ اسلام آباد دھرنے کی کال دے کر قبل از وقت انتخابات حاصل کر سکتے ہیں؟ وجہ سادہ سی ہے، دراصل اداروں پر دباؤ بڑھا کر جلد الیکشن کروانا عمران خان کی مجبوری بن چکا ہے۔ ایک تو وہ اپنے حامیوں کو اس حد تک سازش اور غداری کے بیانیے پر قائل کر چکے ہیں کہ اب اس سے پیچھے ہٹنا ممکن نہیں رہا۔ اگر یہ بیانیہ فیل ہو رہا ہے تو انہیں اگلا بیانیہ مزید خطرناک دینا پڑے گا تاکہ ان کے حامی‘ جو انہیں اوتار کا درجہ دیتے ہیں‘ ان سے جڑے رہیں۔ دوسرا یہ کہ ان کے خلاف سامنے آنے والے سکینڈلز اور کرپشن کے قصے بھی بڑھنے لگے ہیں۔ جوں جوں شہباز سرکار مستحکم ہو گی اور گزشتہ حکومت کے مقابلے میں بہتر پرفارمنس دکھانے میں کامیاب ہوتی ہے تو عمران خان کے اقتدار میں واپسی کے راستے مسدود ہوتے چلے جائیں گے۔ الیکشن کمیشن کا فارن فنڈنگ کیس، توشہ خانہ کیس، فرح خان صاحبہ کے قصے اور ہیلی کاپٹر سکینڈل ان کے صادق و امین ہونے کے امیج کو داغ دار کر رہے ہیں۔ خاص طور پر فارن فنڈنگ کیس، جس کی وجہ سے وہ چیف الیکشن کمشز کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں، ان کے سیاسی مستقبل کو دائو پر لگا چکا ہے۔ شاید اسی لیے عمران خان اداروں پر دبائو بڑھانے کے لیے خود کو مجبور پاتے ہیں تاکہ جلد انتخابات ہوں اور وہ اپنی عوامی حمایت خود پر ثبت کروا کر اقتدار میں آ کر ان کیسز سے جان چھڑوا سکیں۔
دوسری طرف لندن میں میاں نواز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کی ملاقات اور میثاق جمہوریت کے حوالے سے توثیق کی خبریں بھی عمران خان کے لیے خیر کا باعث نہیں۔ یاد رہے کہ 2006ء میں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے مابین ہوئے میثاق جمہوریت کے معاہدے نے مشرف دور کے خاتمے اور نئے جمہوری دور کے آغاز میں اہم کردار ادا کیا تھا‘ جس کے باعث پہلی دفعہ ملک میں دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے میچور سیاست کر کے جمہوریت کو بہتری کی راہ پر ڈالا۔ قوم کی دہشت گردی کے عفریت سے جان چھڑوانا ہو، سی پیک جیسے منصوبے کی ابتدا ہو، لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہو، 18ویں ترمیم میں صوبوں کے حقوق کا تحفظ ہو یا پھر سیاسی بلوغت کا اظہار‘ یہ اس دور کے اہم خدوخال ٹھہرے۔ اگر میثاق جمہوریت 2، جسے خان صاحب یقیناً این آر او 2 پکاریں گے، دوبارہ پروان چڑھنے لگا تو عمران خان صاحب کے لیے پولیٹیکل سپیس مزید کم ہو گی، جس کی بنیادی وجہ ان میں وژن اور صلاحیت کی کمی ہے۔ ریاست مدینہ کے قیام کی خواہش، بقول ان کے ایک وژن ہو سکتی ہے، لیکن حقیقت میں وہ ایک خواب اور سراب سے زیادہ کچھ نہیں، کیونکہ وژن وہ خواب ہوتا ہے جس کو پورا کرنے کی عملی تدبیر بھی لیڈر کے پاس ہو۔ یہاں حال یہ ہے کہ ریاست مدینہ کا نعرہ سن سن کر ہمارے کان پک گئے لیکن خان صاحب اپنے ساڑھے 3 سالہ دور میں ریاست مدینہ کی ایک اینٹ تک نہ لگا سکے۔ انصاف، معاشی مساوات اور برداشت‘ جو ریاستِ مدینہ کے سب سے بڑے وصف تھے، ہمیں نئے پاکستان میں نظر نہیں آتے ہیں۔ اگر موجودہ قومی حکومت کی بات کی جائے تو ابھی تک ہمیں کسی ایسی انتقامی کارروائی کا شائبہ بھی نظر نہیں آیا جو پی ٹی آئی دور حکومت کا خاصہ تھی۔ وزیر اعظم شہباز شریف متحرک اور سب اتحادیوں کو ساتھ لے کر چلنے کی تگ و دو میں مصروف نظر آتے ہیں‘ گو کہ ایسی حکومت کو چلانا اور پھر نہایت مشکل چیلنجز سے نمٹنا ان کی کارکردگی کا اصل امتحان ثابت ہو گا، اور شاید جلد انتخابات کروانا ان کی مجبوری بھی بن جائے‘ لیکن جو بھی ہو، امید یہی ہے کہ موجودہ قومی حکومت سیاسی پختگی، لچک اور وسعت کا مظاہرہ کرے گی، جس سے کم از کم وہ سیاسی و معاشرتی تقسیم کم ہو گی جو تیزی سے ہمارے ملک کو نگل رہی ہے۔ بطور قوم ہم میں اختلاف برداشت کرنے کا مادہ کم ہوتا جا رہا ہے، ایسا ماحول بن چکا ہے کہ برسوں کی دوستیاں اور رشتے ناتے صرف سیاسی اختلاف کی بنا پر ٹوٹ رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا پُر آشوب ماحول ہے جس کو تبدیل کیے بغیر ہمارا بطور قوم آگے بڑھنا ممکن نہیں۔ خدارا قوم کو کوئی بھی بیانیہ دیتے وقت اپنا محدود مفاد سامنے رکھنے کے بجائے ملک و قوم کا مستقبل سامنے رکھیں تاکہ ہم واقعی ہی وہ عظیم قوم بن سکیں جس کا خواب آپ ہمیں دکھاتے ہیں۔