سابق وزیر اعظم اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اپنے 'سازش‘ اور 'غداری‘ کے بیانیے میں دن بدن وسعت لاتے جا رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں صحافیوں کے ایک وفد سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا ''اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے پیغامات آرہے ہیں لیکن میں کسی سے بات نہیں کررہا، میں نے ان لوگوں کے نمبر بلاک کر دیے ہیں، جب تک الیکشن کا اعلان نہیں ہوتا، تب تک کسی سے بات نہیں ہو گی‘‘۔ عمران خان نے یہ بھی کہا ''شریف برادران کے علاوہ بھی کچھ ''کردار‘‘ میر جعفر اور میر صادق ہیں۔ میں نے 'نیوٹرلز‘کو بتایا تھا معیشت مشکل سے مستحکم ہوئی ہے، شوکت ترین نے بھی ان کو سمجھایا کہ سیاسی عدم استحکام معیشت کیلئے نقصان دہ ہے، جو اس سازش کا حصہ بنے، ان سے سوال کرتا ہوں، کیا سازش کا حصہ بننے والوں کو پاکستان کی فکر نہیں تھی؟ پاکستان سازش میں شریک لوگوں کی ترجیحات میں نہیں تھا؟‘‘ ان کا کہنا تھا کہ جن لوگوں کو لایا گیا، اس سے بہتر تھا پاکستان پر ایٹم بم گرا دیتے، عمران خان کا کہنا تھا ''میں سمجھتا تھا‘ کرپشن بااثر حلقوں کیلئے بھی ایشو ہے، میں سمجھتا تھا کہ کرپشن پر ہمارا نظریہ ایک ہے‘ لیکن کرپشن اہم حلقوں کیلئے مسئلہ ہی نہیں تھا، میں صدمے میں ہوں کہ یہ لوگ چوروں کو اقتدار میں لائے، مجھے بارہا کہا گیا آپ کرپشن کیسز کے پیچھے نہ پڑیں، مجھے کہا جاتا تھا کہ کارکردگی پر توجہ دیں‘‘۔ عمران خان نے کہا ''سازش کرنے والوں نے غلط اندازہ لگایا، انہیں نہیں پتا تھا مجھے ہٹانے پر اتنے عوام سڑکوں پر نکل آئیں گے۔ میں نے سازش روکنے والوں کو سازش کا بتا دیا تھا، لیکن وہ نیوٹرل رہے‘‘۔
عمران خان کی اس غصیلی گفتگو سے صاف ظاہر ہے کہ جب وہ کہتے ہیں کہ سازش روکنے کی طاقت رکھنے والوں نے سازش نہیں روکی تو ان کا مطلب ہے کہ وہ لوگ بھی سازش میں شریک ہیں۔ کیا خان صاحب کو اقتدار سے علیحدگی کا اتنا رنج و غم ہے کہ وہ اپنے محدود سیاسی مقاصد کیلئے قومی اداروں پر مسلسل الزام تراشی سے بھی باز نہیں آرہے؟ ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل افتخار بابر ایک ہفتے میں دوسری بار اپنے بیان کے ذریعے سب کے گوش گزار کر چکے ہیں کہ خدارا سیاسی معاملات میں فوج کو نہ گھسیٹیں۔ ان کا اشارہ تمام سیاسی جماعتوں کی جانب ہے، لیکن یہ بات بھی واضح ہے کہ حالیہ دنوں میں فوج کے خلاف تاریخ کی جو بھیانک کردار کشی کی مہم چلائی گئی وہ کس نے چلائی۔
سوشل میڈیا پر جس طرح عسکری قیادت کو نامناسب القابات سے نوازا گیا، اس کی بھی کہیں مثال نہیں ملتی۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر کس سیاسی جماعت کی حکمرانی ہے۔ ظاہر ہے یہ اسی کا کام ہو سکتا ہے۔ میں انہی سطور میں پاک فوج کے خلاف میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کے الزامات لگانے کی بھی مذمت کر چکا ہوں، لیکن انہوں نے جو کچھ بھی کہا‘ ایک حد میں رہ کر کہا۔ ان کا مطالبہ تھا کہ فوج سیاست سے دور رہے‘ لیکن اب تو اس کے بالکل الٹی گنگا بہہ رہی ہے، وہ معترض ہی اس بات پر ہیں کہ فوج نے بطور ادارہ نیوٹرل رول کیوں اپنا لیا ہے۔ وہ کیوں انہیں اقتدار میں آنے کے لیے بیساکھیاں فراہم کرنے کو تیار نہیں ہو رہی۔ یہی فوج اس وقت ان کے لیے بہت اچھی تھی جب ایک صفحے کا شہرہ تھا، جب فوج ان کی حکومت کو کامیاب بنانے کے لیے اپنے آئینی کردار میں رہتے ہوئے تمام تعاون فراہم کر رہی تھی تاکہ ملک میں جمہوری نظام مستحکم ہو سکے اور معیشت ترقی کرے‘ لیکن جب فوج نے خان صاحب کی گورننس کے بد ترین حالات دیکھے، احتساب کے نام پر ذاتی انتقام اور ملک میں سیاسی تقسیم کی خلیج کو بڑھتے دیکھا، جب معاشی میدان میں دیوالیہ پن کی جھلک دکھائی دینے لگی، جب نظر آنے لگا کہ حکومتی خزانہ اب سرکاری ملازمین کو تنخواہیں ادا کرنے کے قابل بھی نہیں رہا، جب عثمان بزدار اور محمود خان جیسے نااہل وزرائے اعلیٰ بربادی کرنے لگے، جب پی ٹی آئی کے اراکین اور اتحادی اراکین یہ سوچ کر پریشان ہونے لگے کہ وہ اس کارکردگی کے ساتھ عوام میں کیسے جائیں گے؟ جب خارجہ پالیسی مذاق بن کر رہ گئی‘ تو خان صاحب کی من مانی سیاست اور اس کے بھیانک نتائج کو سامنے دیکھتے ہوئے معتدل کردار نبھانے کو ترجیح دی گئی اور اپنے لیے وہی رول منتخب کیا‘ جسے بانیٔ پاکستان قا ئد اعظم 1948ء میں سٹاف کالج کوئٹہ میں کی گئی تقریر میں واضح کر چکے تھے۔ فوج نے اسی کردار کا انتخاب کیا جو نہ صرف آئین میں درج ہے بلکہ جس کا مطالبہ 60 کی دہائی سے پاکستانی سیاست دانوں کی جانب سے ہو رہا ہے۔
فوج کا بطور ادارہ یہ اقدام تو قابل تعریف ہونا چاہیے تھا، جو واقعی ایک نئے پاکستان کی شروعات ہے لیکن لگتا ہے عمران خان صاحب کو اس سے تکلیف پہنچی، جس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ فوج کے نیوٹرل ہونے سے عمران خان کا تخت ڈول گیا، وہ اقتدار سے باہر ہو گئے جس کی یاد میں وہ اس وقت بن پانی مچھلی کے بری طرح تڑپ رہے ہیں۔ وہ صرف اقتدار سے باہر نہیں ہوئے بلکہ انہیں یہ بھی اندازہ ہے کہ وہ اب شاید دوبارہ اقتدار میں واپس نہ آ سکیں، کیونکہ ماضی میں عمران خان جب اپنے طور پر سیاست کرتے رہے وہ ایک نشست سے زیادہ جیت نہ پائے۔ یہ بات سمجھیں کہ عمران خان بطور ورلڈ کپ چیمپئن اور بطور بانی شوکت خانم ہسپتال 1997ء اور 2002ء کے الیکشن کے مواقع پر کہیں زیادہ مقبول تھے کیونکہ تب تک یہ واقعات پیش آئے زیادہ وقت نہیں گزرا تھا؛ تاہم اس وقت عوام نے انہیں ووٹ دینا گوارا نہیں کیا‘ تو پھر سوچنے کی بات یہ ہے کہ 2018ء میں ایسا کیا ہوا کہ عمران خان کا ورلڈ کپ اور کینسر ہسپتال انہیں الیکشن جتوا گیا؟ اسی طرح ادارے نیوٹرل رہنے سے عمران خان ان مقدمات سے بھی نہیں بچ سکیں گے جن کی بازگشت اس وقت سنائی دے رہی ہے، جن میں سے سب سے سنگین فارن فنڈنگ کا کیس ہے۔
عمران خان اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کے اقتدار میں آنے کا یہی راستہ رہ گیا ہے کہ وہ سیاست میں 'مذہبی‘ اور 'غداری‘ کا کارڈ اس نہج تک لے جائیں کہ سیاسی دباؤ میں اضافہ ہو‘ ان کے مداحوں میں جنون بڑھے اور حالات اس افراتفری کی جانب چل پڑیں کہ فوج نیوٹرل کردار چھوڑ کر ان کو منانے اور ان کا ساتھ دینے پر تیار ہو جائے‘ لیکن دھونس اور دھاندلی کی یہ سیاست ملک کے واحد منظم ادارے کو جس طرح تقسیم کرنے کا باعث بن رہی ہے‘ اس کے نتائج اور اثرات نہایت خطرناک ہوں گے۔ ملک میں فوج کی صورت میں واحد ادارہ بچا ہے، جس کی جانب ہر مصیبت کی گھڑی میں قوم دیکھتی ہے، جس کے خوف سے دشمن لرزاں رہتا ہے، جس ادارے نے ملک کو جوڑ کر رکھنے کے لیے بے انتہا قربانیاں دی ہیں، کوئی اگر اپنے سیاسی مفاد کے لیے اسی ادارے کو متنازع بنانا چاہتا ہے تو پھر اس کی سیاسی بصیرت اور قومی حمیت پر سوالات تو اٹھیں گے۔ یہ سوال بھی اٹھیں گے اتنے سال کھیل کے میدان میں رہ کر کیا انہوں نے یہ سپورٹس مین سپرٹ سیکھی کہ شکست کے بعد اگلے رائونڈ کی تیاری کرنے کے بجائے، امپائر کو ہی ساتھ ملا کر میچ جیتنے کی کوشش کی جائے؟ اب بھی وقت ہے کہ سنبھلا جائے اور سیاسی معاملات کو سیاسی انداز میں طے کرنے کی کوشش کی جائے۔ اداروں کو ان معاملات میں ملوث کرنے سے ملک و قوم‘ دونوں کا نقصان ہو گا۔