سیاست صرف اقتدار نہیں بلکہ اقدار کا بھی کھیل ہے۔ جتنی قابلِ مذمت بشریٰ بی بی کی کردار کشی ہے‘ مریم نواز کی ذات پر حملہ بھی اتنا ہی قابلِ مذمت ہے۔ ریاستِ مدینہ بنانے کے دعویدار سابق وزیراعظم عمران خان کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ وہ ایک لیڈربلکہ بڑے سیاسی لیڈر ہیں۔ ایک بھرے جلسے میں کسی کی بیوی اور بیٹی پر جملے کسنا ‘ عمران خان کا سیاسی قد تو کم کرے گا ہی‘ ان کے مداحوں‘ جن کی بڑی تعداد نوجوانوں پر مشتمل ہے‘ کو بھی یہ ترغیب دے گا کہ وہ بھی اپنے کسی مخالف پر ایسے رکیک حملے کرسکتے ہیں کیونکہ اگر ان کا لیڈر یہ حرکت کررہا ہے تو ان کیلئے بھی ایسا کرنا جائز قرار پائے گا۔ ایسی سوچ معاشروں کو اخلاق سے عاری اور تباہی کی جانب لے جاتی ہے۔ لیڈران کا کام صرف اپنے حامی تیار کرکے ان کے کندھوں پر بیٹھ کر اقتدار حاصل کرنا نہیں ہوتا بلکہ ان کی اصل ذمہ داری اپنے چاہنے والوں کو غلط اور صحیح کی تمیز سکھانا ہے تاکہ وہ ذمہ دار معاشرے کی تشکیل میں اپنا کردار نبھا سکیں۔ بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ پہلے ہی اخلاقی گراوٹ کا شکار ہے‘ اوپر سے سیاستدانوں کی جانب سے ایسی زبان کا استعمال؟سابق وزیراعظم نواز شریف نے مریم نواز سے متعلق عمران خان کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے بدتمیزی کا کلچر پروان چڑھادیا ہے۔ انہیں یہ نہیں پتا کہ ماں بہن کی عزت کسے کہتے ہیں‘نواز شریف نے کہا کہ عمران خان نے پاکستان کی جو بربادی کی ہے‘ ملک کی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی‘ جو کچھ بھی انہوں نے کیا ہے وہ پاکستان کے لیے اتنے گہرے اثرات چھوڑ گیا ہے‘ جسے ٹھیک کرنا بہت ہی مشکل ہوگا۔نواز شریف کا کہنا تھا کہ عمران خان نے ہماری معیشت‘ معاشرت اور اخلاقیات کو تباہ کردیا ہے۔سابق صدرآصف علی زرداری نے عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ خدارا! اس سیاست میں اتنے نیچے نہ گر جائیں۔مائیں‘ بہنیں اور بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ یہی پیغام بی بی شہید چھوڑ کر گئی ہیں‘ کاش اب بھی کوئی چیف جسٹس کو پرسنل آبزرویشن کا خط لکھے اور وہ نوٹس لیں۔ وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ بیٹی مریم نواز کے خلاف عمران خان کی قابلِ افسوس زبان درازی پر قوم‘ خاص طور پر خواتین پرزور مذمت کریں۔اُن کا کہنا تھا کہ مسجد نبوی کی حرمت و ناموس کا جنہیں پاس نہ ہو‘ ان سے ماؤں‘ بہنوں‘ بیٹیوں کی عزت و تکریم کی توقع نہیں کی جاسکتی ہے۔وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز شریف نے بھی اس بیان کی شدید مذمت کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کی سوچ قابلِ مذمت ہے، اخلاقیات، روایات اور سیاست کا جنازہ نکالنے کے بعد اب خواتین پر رکیک حملے کیے جا رہے ہیں، ملک کے تمام طبقات بالخصوص خواتین کو اس گھٹیا سوچ کے خلاف کھڑا ہونا چاہئے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایسی بد زبانی کو سیاسی کلچر کے طور پر بڑھانا نئی نسل کے لیے زہر قاتل ہے، ملک میں انارکی کے ساتھ غلیظ خیالات کی ترویج اور اخلاقیات کا جنازہ نکالنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ، وزیر اطلاعات مریم اونگزیب، احسن اقبال، اسحاق ڈار اور خواجہ سعد رفیق سمیت جمعیت علمائے اسلام (ف) نے بھی اس بیان کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔
یقینا سیاست میں اس طرح کے ذاتی حملوں کی شدید مذمت کرنے کی سخت ضرورت ہے‘ خدارا! عمران خان صاحب 90ء کی دہائی کی سیاست کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش نہ کریں۔ دونوں بڑی جماعتوں نے میثاق جمہوریت کے ذریعے اس سوچ کر دفن کیا تھا تاکہ ملک ایک نئی اور متوازن‘ درست سمت کی جانب بڑھ سکے۔ سیاست میں اخلاقیات کی بات ہورہی ہے تو الیکشن کمیشن کی جانب سے منحرف اراکین کو ڈی سیٹ کرنے کا فیصلہ بھی قابلِ تحسین ہے کیونکہ ہر کھیل کے کچھ اصول اور ضابطے ہونے چاہئیں‘ پارٹی پالیسی سے اختلاف کرنا ہر ممبر کا حق ہے لیکن آئین اگر کچھ معاملات میں پارٹی کے فیصلوں سے انحراف سے روکتا ہے تو اس سے سیاسی جماعتوں کو بطورِ تنظیم تقویت ملتی ہے اور یہی سیاسی جماعتیں ہمارے سیاسی نظام کی اہم ترین اکائی ہیں۔ اگر پارٹی فیصلے سے اس حد تک اختلاف ہے تو استعفیٰ دینا اور نئے سرے سے الیکشن لڑ کر اپنے مقصد کو پورا کرنا زیادہ بہتر اقدام ہے۔ ہماری آئینی سکیم انہیں اس کا اخلاقی جواز مہیا نہیں کرتی جس سے ان اراکین کی ذاتی ساکھ کے ساتھ ساتھ حکومت کے اخلاقی جواز کو بھی ٹھیس پہنچ رہی تھی۔ اب اِن ڈی سیٹ ہوئے اراکین کے حلقوں میں ضمنی انتخابات ہوں گے تو مسلم لیگ (ن) کو انہیں سپورٹ کرنا پڑے گا کیونکہ ظاہر ہے کہ ا ن اراکین نے کسی مفاہمت کے تحت ہی حمزہ کو ووٹ دیے تھے۔ الیکشن نتائج سے اندازہ ہو جائے گا کہ آیا حلقے کے عوام اپنے امیدواروں کے فیصلے سے مطمئن تھے یا نہیں۔ اس سے اخلاقی قباحت تو دور ہو گی ہی‘ سیاسی میدان میں یہ بھی واضح ہوجائے گا کہ آیا پنجاب میں اب بھی مسلم لیگ (ن) کی حمایت باقی ہے یا عمران خان کے بڑے بڑے جلسے اور تند و تیز بیانیہ واقعی کپتان کو اتنا مقبول بنا چکے ہیں جس کا وہ دعویٰ کرتے ہیں۔ بعض لوگ یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کو اعتماد ہے کہ عمران خان جتنے بھی بڑے جلسے کر لیں اور جیسا بھی پرکشش بیانیہ تشکیل دے دیں‘ پنجاب انہی کا قلعہ ہے اور اگر حمزہ شہباز کی حکومت وقتی طور پر جاتی بھی ہے تو اگلی حکومت پھر انہی کی ہو گی۔
یہیں سے اخلاقیات کا ایک اور پہلو بھی نکلتا ہے اور وہ یہ کہ بطورِ قوم ہمیں سپورٹس مین سپرٹ کا مظاہرہ کرنا چاہیے‘ خاص طور پر اس وقت جب ریاستی ادارے ہمارے خلاف فیصلہ دیں۔ وہی نظام عدل اور وہی الیکشن کمیشن عمران خان صاحب کے لیے ایک ولن تھے جب تک کہ ٹرانسفر اور پوسٹنگ کیس میں حکومت کے خلاف سو موٹو نوٹس نہیں لے لیا گیا اور الیکشن کمیشن نے منحرف اراکین کو ڈی سیٹ نہیں کردیا۔ جبکہ یہی ادارے اتحادی جماعتوں کے حامیوں کیلئے بہت بڑے ہیرو تھے جب تک انہوں نے حالیہ فیصلے نہیں دیے‘اب ہمیں ان غیر جمہوری رویوں سے جان چھڑوانے کی ضرورت ہے کیونکہ اب بظاہر ادارے نیوٹرل ہوتے جارہے ہیںاور وہ بھی اس حد تک کہ وزیراعظم شہباز شریف کو کہنا پڑ ا کہ جتنا عمران خان کو سپورٹ کیا گیا‘ اگر ماضی میں ان کی حکومتوں کو اس کا تیس فیصد بھی سپورٹ کیا جاتا تو پاکستان اس وقت ترقی کی بلندیوں پر ہوتا۔ شہباز شریف کے اس شکوے کی بنیادی وجوہات یہی ہیں کہ نیوٹرلزموجودہ حکومت کو اس گمبھیر معاشی صورتحال کے درمیان اتنی سپورٹ دینے کو بھی تیار نہیں جس کی قومی مفاد میں اشد ضرورت ہے۔ چاہیے تو یہی کہ اگرآپ نے نیوٹرل ہونے کا اعلان کیا ہے تو حکومت کے آ ئینی دائرۂ اختیار میں کرنے کے جو کا م ہیں ‘ چاہے حکومتی مدت پوری کرنی ہو یا پھر قابلِ عمل معاشی پالیسی بنانی ہو‘انہیں کرنے دیں۔ مانیں یا نہ مانیں اس وقت ہمارا سیاسی نظام اور وطن عزیز جس بحران کا شکار ہیں ان کی جڑیں کہیں نہ کہیں اخلاقی کج روی سے جڑی ہوئی ہیں‘ بطور ِقوم ہم اس مسئلے پر قابو پالیں تو خود بخود بہت سے بحرانوں سے چھٹکارا پالیں گے۔