ابھی تک یہ بحث جاری ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے لانگ مارچ پر قدغن لگانا اور پی ٹی آئی کے کارکنوں پر حکومتی کریک ڈاون جائز تھا یا ایک غیر جمہوری عمل؟گزشتہ روز ایک طرف میڈیا میں یہ خبر تھی کہ حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان معاہدہ ہوگیا ہے اورعمران خان اسلام آباد میں صرف جلسہ کرکے واپس چلے جائیں گے۔ پھر پہلے وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب اور بعد میں سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے کسی معاہدے کی تردید بھی کر دی گئی۔
اصولی طور پر دیکھا جائے تو عمران خان کا یہ احتجاج اس سال کا تیسرا لانگ مارچ تھا ‘ اس سے قبل ہونے والے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے لانگ مارچ پر پی ٹی آئی حکومت نے ایسی قدغن نہیں لگائی تھی جیسا کہ حالیہ دنوں میں ہمیں اُن کے لانگ مارچ پر دیکھنے کو ملی۔ تو کیا شہبازشریف کی حکومت کو ایسا کرنے کا کوئی حق پہنچتا تھا؟ اس کا جواب سادہ اورعام فہم نہیں بلکہ قدرے پیچیدہ ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے لانگ مارچ یہ کہہ کر نہیں کیے گئے تھے کہ وہ پی ٹی آئی حکومت کے خلاف جہاد کرنے اور ہر حال میں حکومت کو ختم کرنے آئے ہیں ‘ بلکہ اُس سیاسی طاقت کے مظاہرے کی وجہ حکومت کا تحریک عدم اعتماد سے راہ فرار اختیار کرنے کی کوشش تھی۔ لیکن اب کی بار معاملہ ذرا مختلف ہے۔ عمران خان کسی اصولی موقف کی بنا پر اسلام آبادچڑھائی نہیں کررہے تھے بلکہ وہ ایک سیاسی بیانیے کے سر پر یہ سب کچھ کررہے ہیںاور بیانیہ بھی ایسا جس پر وہ آئے روز یوٹرن لیتے ہیں۔ ایک دن کہتے ہیں کہ نیوٹرل اب نیوٹرل ہی رہیں‘ ابھی ان کے الفاظ کی گونج اور اخبار میں چھپے ان کے بیان کی سیاہی خشک نہیں ہوتی تو ساتھ ہی فرمادیتے ہیں کہ اداروں کو نیوٹرل رہنے کا کوئی حق نہیں‘ وہ اچھائی کا یعنی ان کا ساتھ دیں۔ ساتھ ہی پولیس اور بیوروکریسی کو خبردارکرتے کہ اپنے اعلیٰ افسروں کی بات نہ مانیں اور ان کے احتجاج کو نہ روکیں۔ اب کسر تو صرف اس بات کی رہ گئی تھی کہ وہ دیگر اداروں کو بھی ایسا ہی کوئی پیغام دینے کی کوشش کرتے۔ صرف یہی کافی نہیں تھا تو عمران خان ''امپورٹڈ‘‘ حکومت کے ذمہ داران کو ''میرصادق اور میر جعفر‘‘ کے القاب سے بھی نواز کر بدنام کرنے کی کوشش بھی کرچکے ہیں۔ حتمی بات یہ ہے کہ نہ پاکستان کا کوئی سیاست دان بشمول عمران خان اور نہ ہی پاکستان کا کوئی غیر سیاسی عہدیدار'' میر جعفر یا میر صادق‘‘ ہوسکتا ہے۔خان صاحب کی یہ من گھرٹ باتیں ان کے پرستاروں اور پیروکاروں کے جذبۂ جنون کو جوش دلانے کے لیے تو کافی ہوسکتی ہیں لیکن حقیقت سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ ہمارے تمام لیڈروں نے غلطیاں ضرور کیں جس کے نتیجے میں پاکستان آج اس مقام پر کھڑا ہے‘ لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ہمارے قائدین غدار تھے۔دوسری جانب عمران خان جب کہتے ہیں کہ پاکستان میں نیا سیٹ اَپ امریکہ لے کر آیا تو ان کے اس بیانیے میں بھی بہت جھول ہے۔ اگر امریکہ واقعی اتحادی حکومت کے پیچھے ہوتا تو پاکستان یوںآئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر حاصل کرنے کی جستجو میں نہ ہوتا‘ بلکہ اب تک انکل سام اور ان کے دوست ممالک پاکستان کے لیے ڈالروں کی بارش کر چکے ہوتے اور ہم دیوالیہ ہونے کے قریب ہونے کی اس مشکل سٹیج پر ہونے کے بجائے بہت بہتر پوزیشن پر ہوتے۔دوسری جانب جب عمران خان یہ فرماتے ہیں کہ وہ چونکہ روس سے 30 فیصد سستا تیل اور گندم خریدنے جا رہے تھے اس لئے ان کی حکومت کا دھڑن تختہ ہوگیا‘تو یہ بھی حقیقت پر مبنی نہیں۔آپ خان صاحب کے دورۂ روس کی تفصیلات نکال کر پڑھ لیں ‘ اس میں نہ تو پاکستان اور روس کے مابین سستا تیل اور گندم خریدے کے حوالے سے کسی معاہدے کا ذکر آتا ہے اور نہ ہی ایم او یو سائن ہونے کا کہیں سراغ ملتا ہے‘ حتیٰ کہ اس دورے کے اعلامیے میں بھی اس کا کہیں ذکر نہیں ہوا۔ حماد اظہر صاحب جو خط سوشل میڈیا پر جاری کرتے ہوئے دعویٰ کرتے ہیں کہ اس کے ذریعے انہوں نے روس سے 30 فیصد سستی گندم اور تیل خریدنے کے معاہدے پر عملدآرمد کی بات کی تھی توآپ وہ خط خود ہی پڑھ لیں ‘ جس میں صرف یہ لکھا ہے کہ وہ 2017ء یعنی شاہد خاقان عباسی کے دور میں پاکستان اور روس کے مابین ہوئے بین الحکومتی معاہدے کی بنیاد پر روس سے ایل این جی کارگوز خریدنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس خط میں جو انہوں نے اپنی حکومت ختم ہونے سے صرف 11 دن قبل لکھا ‘ کہیں ذکر نہیں کہ روس انہیں معاہدے کے تحت 30 فیصد کم قیمت پر ایل این جی فروخت کرے گا۔ حال ہی میں وزارت خارجہ کے ترجمان نے بھی اس کی وضاحت کردی ہے کہ حماد اظہر صاحب کے قریباً ایک ماہ قبل لکھے گئے اس خط کا روس سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
بات یہ ہے کہ جب عمران خان صاحب ایک ایسے بیانیے کے بل پر احتجاج کرنے نکلے ہیں جس کے کوئی پیر ہی نہیں تو یہ ایک خطرناک عمل ہے ‘ کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ عمران خان حکومت گرانے کا مقصد حاصل کرنے کے لیے ہر جائز ‘ ناجائز طریقہ اپنانے کو تیار ہیں۔ وہ جب کہتے ہیں کہ میں اقتدار سے نکل کر مزید خطرناک ہوجاؤں گا‘ جب شیخ رشید لانگ مارچ کو ''خونیں لانگ مارچ‘‘ کا نام دیتے ہیں اور اوپر سے مارچ کے آغاز سے عین قبل ایک پولیس اہلکار پی ٹی آئی کے ٹکٹ ہولڈر کے ہاتھوں گولی لگنے سے شہید ہوجاتا ہے تو پھراس لانگ مارچ کو روکنا ہی بنتا ہے۔ کیا یہ ضروری تھا کہ 25 مئی کو ہی لانگ مارچ کا اعلان کیا جاتا جب آئی ایم ایف نے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا حتمی راؤنڈ منعقد کرنا تھا؟ کیا دنیا کو یہ پیغام دینا کہ پاکستان میں معاشی بدحالی کے ساتھ ساتھ سیاسی عدم استحکام بھی شدید ہے ‘ دنیا کو پاکستان سے متنفر کرنے اور اسے سری لنکا جیسے حالات سے دوچار کرنے کی کوشش کرنا نہیں؟ دوسری جانب 2014ء میں جس طرح عمران خان صاحب نے دھرنا دینے کا اعلان کرکے ریڈ زون پر دھاوا بولا ‘ پی ٹی وی اور پارلیمنٹ پر حملہ کیا گیا تو اب اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ وہ ماضی کو نہیں دہرائیں گے؟ خان صاحب کے ناقدین کے مطابق انہیں اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ جتھہ بندی اور معاشرے میں نفرت پھیلا کر نہ وہ اپنا بھلا کررہے ہیں اور نہ ملک کا۔ سب سے اہم بات یہ کہ وہ جو بیانیہ لے کر چل رہے ہیں ‘ اس میں ان کی جیت ہو یا ہار دونوں صورتوں میں نقصان پاکستان کا ہوگا۔ گزشتہ پونے چار سال کے دوران معاشی و سماجی طور پر ملک کا جو حال ہو چکا ہے‘ اب اس کی مزید گنجائش باقی نہیں رہی اوریہ بات اتحادی جماعتیں اور قومی ادارے اچھی طرح سمجھ چکے ہیں۔ اس لئے میرے خیال میں عمران خان صاحب کی حالیہ مہم جوئی سے وقتی طور پر افراتفری ضرور پھیل سکتی ہے‘ لیکن اس سے کوئی بنیادی تبدیلی رونما نہیں ہوسکے گی۔