"IYC" (space) message & send to 7575

دھرنا سیاست کا دھڑن تختہ

تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان کی جانب سے دوبارہ لانگ مارچ کیلئے 26 مئی کو دی گئی چھ روزہ مہلت ختم ہوچکی۔ حکومت نے ان کا کوئی بھی مطالبہ تسلیم کیا اور نہ ہی انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا‘ یعنی اتحادی حکومت عمران خان کے ایک نئے لانگ مارچ کی ''دھمکی‘‘ کو زیادہ اہمیت دینے کو تیار نہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔
اول: عمران خان صاحب کی کال پر لوگ باہر ہی نہیں نکلے۔ بے شک وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کی جانب سے پی ٹی آئی کے کارکنوں پر سختی کرنے پر تنقید ہوسکتی ہے؛ تاہم ان کی سٹریٹیجی نے یہ قلعی کھول دی کہ پی ٹی آئی‘ جو انقلاب لانے کی دعویدار ہے‘ کے کارکنوں میںاس کی سکت نہیں۔ جب انقلاب آنا ہوتا ہے تو وہ پولیس کے ڈنڈا برداروں کے ڈر سے اپنا راستہ نہیں بدلتا بلکہ اپنا راستہ خود بناتا ہے۔ سندھ‘ بلوچستان اورآزاد کشمیر کو تو چھوڑیے‘ پی ٹی آئی اپنے مضبوط مرکز پنجاب سے بھی بندے نکالنے میں ناکام رہی۔ صرف لاہور کا حال دیکھیں تو چند رہنماؤں کے ساتھ یہاں سے 12‘ 14 سو سے زائد کارکن سڑکوں پر نہ آسکے‘ جبکہ کئی رہنما تو منظر عام سے ہی غائب رہے۔
دوم: اس لانگ مارچ نے خان صاحب کی سیاسی بصیرت اور حکمت پر بھی سوال اٹھا دیے۔ بڑے بڑے جلسے کرکے انہیں لگا کہ اب ان کی ایک کال پر لوگ ویسے ہی امڈ کرآئیں گے جیسے ان کے جلسوں میںآتے رہے تو یہ ان کی بھول ثابت ہوئی۔ دھرنے کا مجمع اور ہوتا ہے اور جلسے کا اور۔ جلسے میں لوگ آتے ہیں‘ احتجاج کرتے ہیں‘ نعرے لگاتے ہیں اور گھروں کو لوٹ جاتے ہیں لیکن ان میں سے بیشتر افراد احتجاج کے دوران پولیس اور دوسری ریاستی سختیوں سے نبردآزما نہیں ہونا چاہتے۔ عمران خان نے جب لانگ مارچ کی کال دی تو نہ انہوں نے موسم کی سختی کی پروا کی اور نہ ہی تنظیمی سطح پر اچھی کوآرڈی نیشن کرسکے۔ انہوں نے جب اپنا ''انقلابی مارچ‘‘ شروع ہی ہیلی کاپٹر سے کیا تو وہیں ان کے کئی ساتھی سوچنے پر مجبور ہوگئے ہوں گے کہ ان کا لیڈر ہیلی کاپٹر پر سوار ہے جبکہ کارکن نیچے پولیس کے لاٹھی چارج اور شیلنگ کا سامنا کررہے ہیں‘ تو وہ بھی حوصلہ ہار بیٹھے۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان جب ڈی چوک کے نزدیک پہنچے تو کارکنوں کی تھوڑی تعداد اور ڈی چوک کے قریب فوج تعینات دیکھ کر وہ چھ روز کی ڈیڈ لائن دے کر واپس پشاور روانہ ہوگئے۔ خان صاحب کی اس پسپائی نے حکومت کے حوصلے بلند کردیے‘ وہ خان صاحب کے پریشر سے نکل آئی اور انہوں نے اقتدار پر اپنی گرفت مزید مضبوط کرلی۔
سونے پہ سہاگا‘ خان صاحب کا یہ بیان کہ ان کے کارکنوں کے پاس اسلحہ بھی تھا اور وزیراعلیٰ کے پی محمود خان کی یہ بڑھک کہ اگلی دفعہ وفاق کے خلاف صوبائی فورس استعمال کریں گے۔ یہ باتیں پی ٹی آئی کی ساکھ کو مزید نقصان پہنچائیں گی۔ رانا ثناء اللہ پریس کانفرنسوں میں خود پر تنقید کرنے والوں کو برملا کہہ رہے ہیں کہ یہ فتنہ‘ فساد پھیلانے آ رہے تھے اور انہیں سختی کے ساتھ روکنا ضروری تھا۔ بات یہ ہے کہ خان صاحب خود کو نکالے جانے کے بعد امریکی خط‘ سازش‘ امپورٹڈ حکومت اور سیاست نہیں جہاد جیسے پاپولسٹ نعرے لگا کر ایک ماحول بنا چکے تھے‘ وہ لانگ مارچ کی کال جلد بازی میں دینے کے سبب اس کے ثمرات بھی ضائع کر بیٹھے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ پاپولسٹ لیڈر اپنے ہی پاپولر فیصلوں کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں اور یہی کچھ عمران خان صاحب کے ساتھ ہورہا ہے۔ انہوں نے اقتدار جلد از جلد واپس لینے کے چکر میں اپنے پتے نہ صرف غلط کھیلے بلکہ وقت سے پہلے شو کردیے۔ لانگ مارچ اور دھرنے جیسا انتہائی نوعیت کا احتجاج عموماً سب سے آخر میں کھیلے جانے والاپتا ہوتا ہے جو گرتی ہوئی دیوار کوآخری دھکا دینے کے کام آتا ہے‘ جیسا کہ 1993ء میں محترمہ بینظیر بھٹو نے نواز شریف حکومت کے خلاف کیا تھا۔ انہوں نے صدر اور وزیراعظم کی چپقلش اوروزیراعظم نوازشریف کی جانب سے ڈکٹیشن نہ لیے جانے کی باغیانہ تقریر کے بعد سیاسی صورتحال کو پرکھا‘ اپنے گزشتہ لانگ مارچ کی ناکامی کے اسباب کو جانچا اور جولائی 1993ء میں لانگ مارچ کرنے کی دھمکی دے ڈالی۔ ان کی دھمکی ''کاکڑ فارمولا‘‘ کے جنم کا باعث بنی‘ جس کے نتیجے میں صدر غلام اسحاق خان اور وزیراعظم نوازشریف دونوں نے استعفیٰ دے دیا‘ نئے انتخابات ہوئے اور محترمہ اقتدار میں واپس آگئیں۔ لیکن یہاں عمران خان صاحب نے بغیر تیاری کے ایک لانگ مارچ کرکے نہ صرف خود کو تھکایا بلکہ انہیں دو قدم آگے بڑھا کر چار قدم پیچھے آنے کی ہزیمت سے بھی دوچار ہونا پڑا۔
عمران خان کے سامنے کئی چیلنجز ہیں۔ سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے پی ٹی آئی کے مستعفی اراکین کو باری باری طلب کرلیا ہے تاکہ ان کے استعفوں کی تصدیق ہوسکے اور خالی ہونے والی نشستوں پرضمنی انتخابات کرائے جا سکیں۔ اب پی ٹی آئی کا مخمصہ یہ ہے کہ وہ ضمنی انتخابات چاہتی ہی نہیں بلکہ وہ عام انتخابا ت کا انعقاد چاہتی ہے‘ اس لیے اگر وہ سپیکر کے سامنے پیش ہوتے ہیں تب بھی مسئلہ اور اگر نہیں ہوتے تب ان کی نیت پر سوال اٹھنے لگتے ہیں۔ ادھر یہ بھی خبر گرم ہے کہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے 20 کے قریب اراکین قومی اسمبلی سپیکر کے سامنے اپنے استعفوں کی تصدیق کرنے کے لیے تیار ہی نہیں کیونکہ ان کا موقف ہے کہ وہ استعفے دینا ہی نہیں چاہتے تھے‘ یوں پی ٹی آئی سے ایک اور فارورڈ بلاک جنم لے سکتا ہے۔ دوسری طرف پشاور میں ہونے والے پی ٹی آئی کے اجلاس میں پہلے ہی پارٹی میں پھوٹ کی خبریں آ رہی ہیں‘ کیونکہ اراکین کی بڑی تعداد واپس اسمبلی میں جانا چاہتی ہے جبکہ وہ ایک اور لانگ مارچ کے حق میں بھی نہیں‘ کیونکہ اس کیلئے زیادہ وسائل چاہئیں اور پی ٹی آئی پہلے ہی اپنے جلسوں اور لانگ مارچ میں کروڑوں روپیہ خرچ کرچکی ہے۔ بڑے دل والے سرمایہ کار بھی اب پارٹی سے منہ موڑ چکے ہیں‘ ایسے میں اگر کہا جائے کہ عمران خان کا موجودہ حکومت کو نکالنے کا خواب یا اقتدار میں واپس آنے کی خواہش دونوں ہی قریب قریب ناممکن ہوچکے ہیں تو شاید بے جا نہ ہوگا۔
عمران خان جس طرح اپنا اگلا لائحہ عمل طے کرنے کیلئے سپریم کورٹ سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں اس سے واضح ہے کہ ان کی تحریک مفلوج ہوچکی ہے جسے آگے بڑھنے کیلئے کسی بیساکھی کی ضرورت ہے۔ وفاقی حکومت کی کال پر رینجرز کی ریڈ زون میں تعیناتی اور درختوں کو جلانے اور عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کرکے ڈی چوک پر دھاوا بولنے والوں پر رینجرز کی آنسو گیس شیلنگ سے خان صاحب پر واضح ہوچکا ہے کہ'' نیوٹرلز‘‘ اس وقت کس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اس صورتحال میں عمران خان صاحب کو نئی سیاسی حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق سابق وزیراعظم کو چاہیے کہ وہ ایک اور لانگ مارچ کرنے کی ضد چھوڑیں۔ پنجاب میں 17 جولائی کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں بھرپور حصہ لیں‘ جلد ہونے والے بلدیاتی انتخابات کو اپنا ہدف بنائیں اور انتخابی سیاست میں کامیابی سمیٹ کر اپنا سیاسی قد کاٹھ مزید بڑا کرنے کی کوشش کریں۔ ان کا ورکر لانگ مارچ کی صعوبتوں میں ان کا ساتھ نہیں دے سکتا؛ البتہ انہیں ووٹ دینے کیلئے ضرور باہر نکل سکتا ہے۔ اس وقت عمران خان کو صبر کے ساتھ کریز پر زیادہ دیر ٹھہرنے کی ضرورت ہے‘ تحمل کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اقتدار کے میچ میں جیت کیلئے چوکے چھکے لگانے کے جنون میں کہیں وہ دوبارہ ہٹ وکٹ ہوکر مستقل پویلین لوٹنے پر مجبورہی نہ ہوجائیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں