اتحادی حکومت نے اپنا حالیہ بجٹ اس مخمصے کے ساتھ پیش کیا کہ آیا یہ ان کا پہلا اورآخری یعنی الیکشن بجٹ ہے یا پھر وہ اگلے سال جون میں ایک اور بجٹ بھی پیش کرسکیں گے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا کہ ہم لانگ ٹرم منصوبے کے تحت بجٹ لے کر نہیںآرہے کیونکہ ان کی حکومت کے پاس 15 ماہ ہیں‘ لیکن کچھ حلقے یہ بھی کہتے ہیں کہ حکومت کے پاس شاید ڈیڑھ ماہ سے زائد کا وقت نہ ہو۔ شاید یہی وجہ ہے کہ حالیہ بجٹ کو ہم انقلابی یا غیر معمولی بجٹ نہیں کہہ سکتے بلکہ یہ بڑی حد تک متوازن بجٹ ہے جس میں معاشرے کے ہر طبقے کیلئے کچھ نہ کچھ موجود ہے تاکہ عوام کا مہنگائی کی وجہ سے بڑھتا غصہ اور جھنجھلاہٹ قابو میں رہے۔ حکومت کو اگر جلد الیکشن میں جانا بھی پڑے تو ان کے ووٹ بینک کو ناقابل ِتلافی نقصان نہ پہنچے۔ اسی لیے مالی سال 23- 2022ء بجٹ میں کوشش نظرآتی ہے کہ شہریوں کو کسی نہ کسی صورت ریلیف فراہم کیا جا ئے۔
پٹرولیم مصنوعات کے بڑھنے سے ظاہر ہے مہنگائی بڑھی ہے ‘اسی لیے بجٹ میں غریب طبقے کیلئے اچھی خبر بھی ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں ڈیڑھ سو ارب روپے بڑھا دیے گئے ہیں جس سے ڈیڑھ کروڑ گھرانوں پر مشتمل غریب ترین طبقے کو براہ راست سبسڈی ملے گی ‘45 ہزار روپے تک کمانے والوں کو دو ہزار روپے کی اضافی رقم دی جائے گی تاکہ اپنی سواری میں پٹرول ڈلواتے وقت کچھ مداوا ہوسکے۔ مڈل کلاس جسے اپنی چادر میں پاؤں پھیلانے کیلئے سب سے زیادہ تگ و دو کرنا پڑتی ہے اس کیلئے کچھ اچھی خبر ضرور ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کے دور میں 50 ہزار روپے ماہانہ کمانے والوں پر کوئی ٹیکس نہیں تھا لیکن اب ایک لاکھ روپے ماہوار تک کمانے والے پر کوئی ٹیکس نہیں لگے گا۔ درمیانے درجے کے تاجروں پر بھی انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس کو فکسڈ رکھا گیا ہے جو وہ زیادہ تر سیلف اویلیوایشن کے تحت جمع کروائیں گے۔امیر طبقے پر بھی سپر ٹیکس جیسا براہِ راست کوئی بڑا ٹیکس نہیں لگایا گیا ماسوائے ان کے جو نان فائلر ہیں۔اس صورت میں1600 سی سی کی گاڑی خریدنے کیلئے ان پر ٹیکس 100 فیصد سے بڑھاکر 200 فیصد کردیا گیا ہے۔ یا پھر اگر ان کا 700 ڈالر تک یعنی ایک لاکھ 40 ہزار روپے تک کا موبائل فون خریدنے کا دل چاہے تو اس پر انہیں اضافی ٹیکس لیوی جو تقریباً 14ہزار روپے بنتی ہے ادا کرنا پڑے گی۔ وفاقی وزیر خزانہ نے بجٹ پیش کرتے ہوئے کرائے سے ہونے والی آمدنی پر بھی ٹیکس عائد کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اس امر میں کوئی شک نہیں صاحب حیثیت افراد کی دولت کا بڑا حصہ پاکستان کے رئیل سٹیٹ سیکٹر میں موجود ہے، اس سے ایک طرف غیر پیداواری اثاثے جمع ہوتے ہیں اور دوسری طرف غریب اور کم آمدنی والے طبقوں کیلئے مکانات کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں لہٰذا اس عدم توازن کو درست کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔وزیر خزانہ کے اس ارادے کے پیش نظر انویسٹر حضرات اور رئیل اسٹیٹ بزنس پر یہ ضرب لگی ہے کہ ڈھائی کروڑ روپے تک کی دوسری پراپرٹی خریدنے پر اضافی ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔ اسی طرح پلاٹ کی فائل خرید کر ایک سال کے اندر بیچنے پر کیپیٹل گین ٹیکس کا اطلاق بھی ہوگا۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں 15 فیصد جبکہ پنشنرز کی رقوم میں پانچ فیصد اضافہ کردیا گیا ہے‘ یعنی مجموعی طور پر معاشرے کے کسی طبقے پر زیادہ بوجھ نہیں لادا گیا۔
یہ بجٹ ملکی تاریخ کے بلند ترین خسارے کا بجٹ ہے یعنی سادہ الفاظ میں ہمارا خرچہ اور کمائی ایک دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتے۔ سوال یہ ہے کہ اب ہم یہ فرق کیسے پورا کریں گے اور حکومت کا اس حوالے سے کیا پلان ہے؟ تو جناب خسارہ پورا کرنے کیلئے ہمیںآئی ایم ایف ‘ ورلڈ بینک اور دیگر دوست ممالک قرض یا امداد کی صورت میں ‘ پیسہ مہیا کریں گے ‘ پہلے سے دیے گئے کچھ قرضے مؤخر کردیں گے ‘ جس سے مرکزی بینک کے ذخائر بڑھ جا ئیں گے جو اس وقت نو ارب ڈالر کے قریب ہیں۔ ان اقدامات کے نتیجے میں یہ ذخائر قریباً 20 ارب ڈالر تک چلے جا ئیں گے اور ملک کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جس کی وجہ سے روپیہ گر رہا ہے اور ڈالر کی قیمت بڑھ رہی ہے ‘ قابو میں آ جا ئے گا۔ معاشی ماہرین کے مطابق ایسا ہو جانے کی صورت میں پاکستان میں ڈالر کی قیمت اگلے 7‘8 ماہ میں 180 روپے تک گرسکتی ہے‘ جس سے بڑھتی ہوئی مہنگائی کم تو نہیں ہوگی لیکن کم از کم اسے بریک ضرور لگ جائے گی۔تاہم کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے معاشی حالات بہتر ہونے کی توقع نہیں ہے‘ لیکن یہ ایک طرح سے شدید معاشی بحران کے سامنے بند باندھنے کی ایک کوشش ہے۔ اگر ہمیں مہنگائی کو مستقل طور پر قابو میں لانا ہے تو پہلے خرچوں اور کمائی کا تناسب درست کرنا ہوگا‘ اپنی پیداواری صلاحیت بڑھانا ہوگی‘ امپورٹس کو کم کرنا اور ایکسپورٹس کو بڑھانا ہوگا‘ امیر اور غریب کے مابین فرق مٹانا ہوگا اور ٹیکس نیٹ کو بڑھانا ہوگا۔ اگر 22 کروڑ آبادی میں سے 22 لاکھ افراد بھی براہ راست ٹیکس نہیں دیتے تو بطورِ قوم ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم ذمہ دار شہری اور محب وطن پاکستانی ہیں؟ اسی طرح زرعی ملک ہونے کے ناتے خوراک کی پیداوار میں ہمیں خود کفیل ہونا ہوگا۔ حالیہ اقتصادی سروے کے مطابق گزشتہ بجٹ میں زرعی شعبے میں ترقی کی شرح 3.7 فیصد رکھی گئی تھی لیکن گندم کے سوا باقی اہم فصلوں میں اچھا اضافہ دیکھنے میںآیا جس کی وجہ سے زرعی شعبے میں ترقی چار فیصد سے زائد ریکارڈ کی گئی۔ یعنی اگر ہم زرعی شعبے میں اصلاحات اور کسانوں کیلئے اچھے پیکیجز لائیں تو کم از کم ہمیں روس سے تین ملین ٹن گندم امپورٹ کرنے اور اپنا قیمتی زرمبادلہ خرچ کرنے کی ضرورت پیش نہیںآئے گی۔ اس حوالے سے زرعی آلات پر ڈیوٹی ختم کرنے کا حکومتی فیصلہ حوصلہ افزا ہے ‘ لیکن اس سے بھی زیادہ حوصلہ افزا بات یہ ہوگی کہ ہم زراعت پر جدید ریسرچ کریں ‘ نئے بیج تیار کریں جن سے فی ایکٹر پیداوار میں اضافہ ہو‘ کسانوں کو یوریا اور بجلی کی قیمت کی مد میں ریلیف دیا جائے‘ فصل کی اچھی امدادی قیمت مقرر کی جائے تاکہ ہمارا کسان بھی بھوکا نہ مرے اور خوشی خوشی وہ فصل اگائے جس کی ملک کو سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ یہی دیکھ لیں کہ جس طرح شوگر ملز مافیا نے جنوبی پنجاب پر ہلہ بول کر وہاں کے کسان کو کپاس جیسی فائدہ مند اور قیمتی فصل چھوڑ کر گنا اگانے پر مجبور کیا ‘ اس سے پاکستان‘ جو کاٹن کا بڑا عالمی ایکسپوٹر تھا اب مشکل سے اپنی ضرورت پوری کرنے پر مجبور ہے۔
اگر ہم نے اپنی معیشت کو درست کرنا ہے تو ٹیکس کلیکشن بڑھانا ہوگی‘ جس کے لیے ٹیکس چوری روکنا بہت ضروری ہے۔ بقول وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل ہمارے ہاں ٹیکس کی چوری تین ہزار ارب روپے تک پہنچ گئی ہے یعنی اگر ہم ٹیکس چوری ہی روک لیں توکم از کم یہ ساری رقم قرضوں کی مد میں دے سکتے ہیں اور بچ جانے والی رقم عوامی فلاح کے لیے خرچ کی جا سکتی ہے۔ اگر ہم نے ملک کو فلاحی ریاست بنانا ہے تو بجٹ کا زیادہ حصہ ترقیاتی کاموں‘ سبسڈیز اور عوامی مفاد کے پراجیکٹس کے لیے رکھنا چاہیے لیکن بدقسمتی سے ہم خراب معیشت کے ایسے گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں کہ جس سے نکلنے میں کامیاب ہی نہیں ہوپا رہے۔