کہتے ہیں کہ شکست یتیم ہوتی ہے اور فتح کے بہت سارے سرپرست ہوتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی معاملہ فیٹف کے مسئلے پر دیکھنے کو مل رہا ہے۔ میں تو یہ سمجھتا ہوں‘ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (فیٹف) کے شکنجے سے پاکستان کو کس نے نکالا‘ اس کا کریڈٹ لینے کی جنگ یونہی چلنے دیں، اصل مدعے پر توجہ دیں کہ جب پاکستانی حکومت اور ریاست نے یکجا ہو کر ملک کو کسی مسئلے سے نکالنے کی ٹھان لی تو بڑے بڑے ناممکنات کو ممکن بنا ڈالا۔ اس کی سب سے بڑی مثال ہمارا ایٹمی پروگرام ہے‘ جس کے آغاز سے لے کر ایٹمی دھماکوں تک‘ اس کی حفاظت اور اونر شپ‘ ہر حکومت اور ہر ادارے نے مشترکہ ذمہ داری سمجھ کر اٹھائی۔ یوں عالمی سازشوں کو شکست دے کر پاکستان کا دفاع ناقابلِ تسخیر ہوگیا۔ جب دہشت گردی کے خلاف پاکستان میدان میں کودا تو ابتدائی طورپر نیم دلی سے لڑی اس جنگ نے قریباً ایک دہائی تک ملک کو شدید جانی و مالی نقصان پہنچایا۔ سوات آپریشن پر ریاست و حکومت اکٹھے ہوئے تو نیا باب رقم ہوا۔ اے پی ایس پشاور میں جب 150 بے گناہوں کا خون بہا تو پھر پاکستان راکھ میں سلگتے شعلوں کی مانند اٹھا اور اس کے دہکتے الاؤ نے دہشت گردوں کو بھسم کر ڈالا۔ اب ریاست اور حکومت نے مل کر معاشی محاذ پر ایف اے ٹی ایف کا جو معرکہ مارا ہے‘ وہ درج بالا بیان کردہ واقعات سے کم اہم نہیں۔ آج کی دنیا کی سب سے بڑی حقیقت معیشت ہے اور جو قوم معاشی طور پر خودمختار نہیں وہ خود کو لاکھ آزاد کہے‘ درحقیقت اس کی اہمیت بڑی طاقتوں اور معاشی اداروں کے سامنے غلام سے زیادہ نہیں۔ ایف اے ٹی ایف کے ذریعے منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ کے الزامات کا جو پھندا ہمارے گلے میں ڈالا گیا تھا اس نے ہماری رہی سہی معاشی خودمختار ی کا گلا گھوٹنے کی بھرپور سعی کی۔ ہم آئی ایم ایف کے سامنے تو سرنگوں ہیں ہی‘ ایف اے ٹی ایف کی بدولت ہم بھارت کے آگے سرجھکانے پر بھی مجبور تھے کیونکہ ایف اے ٹی ایف کی تنظیم میں بھارتی ماہرین کی ایک بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ 2018ء سے‘ جب سے پاکستان گرے لسٹ میں شامل ہوا‘ متعدد بار ایف اے ٹی ایف کی فرمائشیں پوری کرکے دوبارہ ریویو کیلئے پہنچا لیکن ہر بار اعتراضات کی نئی فہرست تھما دی گئی۔ یہاں تک کہ خطرہ بلیک لسٹ ہونے تک پہنچ گیا۔ پاکستان کو معاشی طور پر کمزور بنانے کی تیاری شروع کر دی گئی‘ یعنی ہمارے بیرونی دنیا سے تجارت کے علاوہ قرض اور لین دین کے معاملات بھی خطرے میں پڑ گئے۔ یہاں پر عمران حکومت اور اداروں نے مل کر پاکستان کو بلیک لسٹ ہونے سے بچایا‘ جی ایچ کیو میں ایک کوآرڈی نیشن سیل قائم کیا گیا۔ ایک میجر جنرل کی سربراہی میں چلنے والے اس سیل نے تمام ریاستی و حکومتی اداروں میں اسی طرح مربوط کوآرڈی نیشن کی جیسے این سی او سی نے کورونا کے دور میں ملک کو وبا سے بچانے کیلئے کی اور با لآخر برلن میں ہونے والے اجلاس میں فیٹف نے پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کے لیے رضامندی ظاہر کردی۔ ایف اے ٹی ایف کے صدر مارکس پلیئر نے جرمنی کے شہر برلن میں ہونے والے 4روزہ اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے 34نکات پر مشتمل 2علیحدہ ایکشن پلانز کی تمام شرائط پوری کرلی ہیں؛ تاہم پاکستان کو ابھی گرے لسٹ سے نہیں نکالا جارہا۔ ایف اے ٹی ایف وفد کورونا صورتحال کا جائزہ لے کر جلد از جلد پاکستان کو دورہ کرے گا جس کے بعد پاکستان کو گرے لسٹ سے خارج کیا جائے گا۔ مارکس پلیئر نے پاکستان کی جانب سے کی گئیں اصلاحات کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ یہ پاکستان کی سلامتی اور استحکام کیلئے اچھا ہے۔
اب طریقہ کار کے مطابق‘ ایف اے ٹی ایف کی ٹٰیم پاکستان کو دورہ کرے گی‘ گراؤنڈ پر حقائق کا جائزہ لے گی اور اپنی عملدرآمد رپورٹ کے ذریعے فیٹف ہیڈکوارٹرز کو سفارشات بھیجے گی اور پوری امید ہے کہ اکتوبر میں پیرس میں ہونے والے اگلے اجلاس میں فیٹف پاکستان کو گرے لسٹ سے خارج کردے گا۔ یہاں ایک نہایت اہم سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ آخر ہمیں کسی اہم مسئلے کا پہلے سے ادراک کیوں نہیں ہوتا اور ہم کیوں پانی سر سے گزرنے دیتے ہیں جس کے بعد ہی ہم خود کو بچانے کے لیے ہاتھ پیر مارتے ہیں؟ مثلاً ہم سب سے پہلے 2008ء میں گرے لسٹ میں شامل ہوئے‘ ہم نے کچھ قانون سازی کی اور منی لانڈرنگ کو جرم قرار دے کر فہرست سے باہر آگئے۔ لیکن ہم نے بدلتے زمانے کی چاپ نہ سنی اور اپنی ڈگر پر چلتے رہے اور دوبارہ 2012ء میں گرے لسٹ کے جال میں پھنس گئے۔ پھر ہاتھ پیر مارے اور 2015ء میں گرے لسٹ سے نکلنے میں کامیاب ہوئے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم اس معاملے کی سنگینی پر غور کرتے اور اس سے مستقل طور پر جان چھڑانے کی کوشش کرتے۔ اس کی ایک کوشش 2016ء میں بھی ہوئی‘ جب اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کی صدارت میں ہونے والی میٹنگ میں وزیراعظم نے عسکری و سیاسی قیادت پر واضح کیا کہ اگر ہم شدت پسندوں اور ان کی فنڈنگ کے معاملات پر قدغن نہیں لگائیں گے تو ہم پر ایسی پابندیاں لگ سکتی ہیں کہ عالمی بندرگاہوں پر پاکستانی کنٹینرز کو اترنے کی اجازت بھی نہ ملے ۔ ان کا اشارہ فیٹف‘ منی لانڈنگ اور ٹیرر فنانسنگ کے سخت قوانین کی جانب تھا جن کی خلاف ورزی ہمیں گرے لسٹ سے بلیک لسٹ میں دھکیل سکتی تھی‘ لیکن افسوس ان کی یہ اہم آبزرویشن ''ڈان لیکس‘‘ نامی سکینڈل کے گرداب میں ڈال دی گئی۔ سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے قریبی حلقوں کے مطابق اس وقت کی ایک اہم شخصیت نے وزیراعظم کی قومی مفاد میں دی گئی اس ایڈوائس کو یوں لیا جیسے ان کی سرزنش کی گئی ہو‘ پھر سیاسی طور پر جو طوفان اٹھا وہ تو اب تاریخ کا حصہ ہے لیکن اس اہم قومی معاملے پر ''ایک صفحے‘‘ پر نہ ہونے کے باعث پاکستان 2018ء میں دوبارہ گرے لسٹ کا حصہ بن گیا۔
اس دفعہ فیٹف نے ناک سے ہماری ایسے ہی لکیریں نکلوائیں جیسی کہ آج کل آ ئی ایم ایف نکلوا رہا ہے۔ پھر حکومت اور ریاست یکجا ہوئے اور 4سال کی محنت کے بعد ہم گرے لسٹ سے نکلنے میں کامیاب ہوئے۔ اس سے نہ صرف ہماری کریڈٹ ریٹنگ بہتر ہوگی بلکہ اب عالمی معاشی اداروں بشمول آئی ایم ایف کے ساتھ ہم فنڈنگ اور قرض کے معاملا ت بھی آسانی سے طے کر پائیں گے۔ کچھ حلقے اس کامیابی کو وزیر خارجہ بلاول بھٹو کی اپنے امریکی ہم منصب سے اہم ملاقات سے بھی جوڑ رہے ہیں جبکہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ شہباز حکومت آنے کے بعد یہ امریکہ کا پاکستان کو تحفہ ہے۔ بہرحال یہ خیالی پلاؤ اپنی جگہ کیونکہ اگر امریکہ نے پاکستان کو واقعی نوازنا ہوتا تو ریلیف دلوانے کے لیے آئی ایم ایف کو اس کی آنکھ کا ایک اشارہ بھی کافی تھا‘ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ حقیقت میں گرے لسٹ سے نکلنا 100فیصد پاکستان کی لگن اور کوششوں کے باعث ممکن ہوا ہے۔ کاش اب ہم ایسی ہی مربوط کوششوں سے پاکستان کے معاشی مسائل کا حل بھی ڈھونڈ نکالیں جو لگتا ہے کہ اب ہم ڈھونڈ ہی نکالیں گے کیونکہ ہماری آنکھ تبھی کھلتی ہے جب پانی سر سے اونچا ہونے لگتا ہے‘ اور اب پانی ہمارے سروں سے اونچا ہوا ہی چاہتا ہے۔